ایک اجلی رات اور روشن دن کی تمنا …



ایک بار پھر برف نے گردونواح کو اپنے سفید بے داغ کمبل سے ڈھانپ دیا ہے اور لوگ اپنے گھروں میں دبکے پڑے ہیں۔ ان گھروں میں باہر گرتی برف اور بڑھتی سردی کا کوئی احساس ہی نہیں ہوتا، کہ تہہ خانوں میں چلتے ہیٹر خواب گاہوں سے لے کر مہمان خانوں اور راہداریوں سے غسل خانوں تک ایک متوازن گرمی کا احساس قائم کیے ہوئے ہیں۔ باہر کے منفی درجہ حرارت سے بے نیاز ہم سب، ہلکے پھلکے لباس پہنے یہاں وہاں اپنے کام کاج کرتے پھر رہے ہیں۔

میں بھی ہاتھ می‍ں چائے کا مگ تھامے، اپنی کھڑکی سے لگا، باہر اجلی رات میں درختوں پر جمے سفید گالوں کو جھولتے دیکھ کر خوش ہوں۔ خوش ہوں، کہ میں جہا‍ں رہتا ہوں وہاں قرب و جوار میں سب ہی رہنے والے میری طرح اپنی اپنی کھڑکیوں کے سامنے آنے والے کل سے پرامید، چائے یا کافی کی چسکیاں لے رہے ہوں گے۔ خوش ہوں کہ ان سب نے بھی پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہو گا اور کسی پریشانی سے بے نیاز ہو کر کچھ دیر میں خود کو نیند کے حوالے کر دیں گے۔ خوش ہوں کہ کل صبح جب جاگوں گا تو سب سڑکوں اور گزر گاہوں پر جمی برف کو ہٹا کر گاڑیوں کے گزرنے اور پیدل افراد کے چلنے کے لیے صاف کر دیا گیا ہوگا۔ کیسا اچھا لگتا ہے کہ میں ایسے دیس میں رہتا ہوں جہاں بنیادی ضروریات کو مقدم رکھا جاتا ہے اور ہر فرد ریاست کی ذمہ داری ہے۔

مگر پتا نہیں کیوں کہیں کسی گوشے سے کوئی مبہم سی مدھم سی پکار سنائی دیتی ہے، کہ یہ میرا وطن نہیں، میرا وطن دور بہت دور ہے، اور وہاں کم سردی کے باوجود لوگ پریشان دن اور ٹھٹرتی راتیں گزارتے ہیں۔ جہاں بنیادی ضروریات سے محروم، میرے لوگ اور میری ریاست باہم دست وگریبان ہیں اوراپنی ہر مشکل کے لیے ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ جہاں حکمران اور رعایا دونوں ہی، آنے والے کل کے خوف میں جی رہے ہیں۔

میں اپنا دھیان پھر سے پچھلے صحن کی حد پر قائم اونچے پرانے درختوں پر مرکوز کرتا ہوں، جن سے چند منٹ کی مسافت پر وہ خوبصورت جھیل ہے جہاں گرمی اور سردی میں لوگ باگ، دور نزدیک سے پکنک منانے اور اپنے کتے ٹہلانے آتے ہیں۔ میں خوش ہوں کہ میں اور میرا خاندان ایسی اچھی جگہ رہتا ہے، جہاں روز چہل قدمی کرتے سمندر سی جھیل کے نظارے ملا کرتے ہیں، جہاں خزاں کی خوبصورتی بہار کو ٹکر دیتی ہے۔ جہاں چلتے پھرتے کوئی مجھ پر آوازیں نہیں کستا نا ہی پوچھتا ہے کہ کس دیس کے باسی ہو یہاں تمہارا کیا کام؟ نا ہی کوئی مجھ سے یہاں کی مٹی سے محبت کے ثبوت مانگتا ہے۔

مگر وہ آواز پھر گونجتی ہے کہ یہ میرا وطن نہیں، میرے وطن میں لوگ کھڑکیوں سے لگے موسم کے نظارے نہیں بلکہ پتھرائے چہروں سے خبروں پر مبنی پروگرام دیکھتے ہیں، وہ پروگرام جن میں محبان وطن اور غداروں کی تقسیم کی جاتی ہے، جن میں زخموں سے چور انسانوں کے قصوں کو خوب نمک لگا کر پیش کیا جاتا ہے، وہ کھڑکیوں پر کھڑے اپنے دالان میں بچوں کو کھیلتا نہیں دیکھتے بلکہ انہیں کمروں میں بند کر کے اخبار پڑھتے ہیں، اخبار جن میں دہشتگردی کا شکار سر کٹی لاشوں کی شہ سرخیاں سجائی جاتی ہیں۔

نہیں نہیں، میں وہاں نہیں رہتا، میں خوش ہوں کہ جہاں میں رہتا ہوں وہاں میری کوئی قدر ہے، میری تکلیف، میری بیماری، حتیٰ کہ میری بے روزگاری میں بھی کہیں نا کہیں سے مدد آن پہنچتی ہے۔ اور میں اپنی کھڑکی سے لگا بیٹھا رتوں کو بدلتے دیکھتا ہوں۔ ہاتھ میں پکڑے چائے کے مگ سے چسکیاں لیتے۔ میں خوش ہوں کہ جلد ہی اس قابل ہو جاؤں گا کہ اپنی ماں کو بھی اپنے پاس بلا کر اپنے ساتھ ان سڑکوں، چوراہوں اور وادیوں کی سیر کرواؤں گا۔ ایک بے فکر سی سیر۔ مگر جانے کیوں وہ آواز خاموش نہیں ہوتی جو مجھے میرے وطن کی وادیوں اور ان میں بسنے والی ان ماؤں کا نوحہ سناتی ہے، جو اپنے معصوم بچوں کو قربان کر کے ان کے سرخ یونیفارموں کوجانے کس امید پر سینے سے لگائی بیٹھی ہیں، یہ آواز جو ننھے منے پھول سے بچوں کا حال بتاتی ہے جوصبح سویرے اٹھ کر کندھے پر بستہ نہیں بلکہ روزگار کا بوجھ اٹھائے سڑکوں اور چوراہوں پر کبھی پھول تو کبھی ماچس کی ڈبیا بیچتے ہیں۔ اور وہ بچے جن کے ماں باپ کو ان کی نگاہوں کے سامنے دہشت گرد قرار دے کر بیچ سڑک مار دیا جاتا ہے، اور وہ سب نوجوان جو کسی محافظ کی غلطی یا اہنکار کا شکار ہو کر اپنے بوڑھے والد کے ہاتھ قبر کی مٹی چکھتے ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ یہ آواز میری بند کھڑکی کے سامنے ایستادہ درختوں سے آ رہی ہے، وہ درخت جو سردی گرمی میں میرے وطن کے لاکھوں کروڑوں عوام کی طرح کوئی حرف شکایت زبان پر لائے بنا خاموش کھڑے رہتے ہیں۔ مگر یہ آج کیوں بولے؟ کیا وہاں سات سمندر پار بھی کسی مزدور کسی مقتول یا کسی مظلوم عورت نے ہلکی سی مدھم سی آواز میں کوئی شکوہ کیا؟

خیر مجھے کیا؟ میں یہاں اس سب سے دور بہت خوش ہوں۔

میں اس آواز سی پیچھا چھڑا کر گاڑی میں آن بیٹھا ہوں۔ جو ریمورٹ کے ایک بٹن دبانے پر میرے باہر آنے سے پہلے ہی سٹارٹ کھڑی خود کو گرما رہی تھی۔ تا کہ مجھے موسم کی سختی کا احساس نا ہو۔ میں ایک اجلی رات میں خالی سڑکوں پر بے وجہ گاڑی گھما رہا ہوں۔ یہاں کیسی پرامن خاموشی ہے۔ میں خوش ہوں کہ اس آواز سے میرا پیچھا چھوٹ گیا جو شاید مجھے ان شب وروز کی یاد دلاتی جبمیں بھی ہاتھ میں مائیک تھامے ایسی ہی سلیٹی سڑکوں پر گاڑی بھگاتے ایک سے دوسرے حادثے تک پہنچتا۔ وہاں بھی کوئی ریمورٹ دباتا مگر اس سے کوئی انجن چالو نہیں ہوتا تھا، بس ایک کان پھاڑ دھماکا۔ اور قیامت خیز منظر۔ پھر میں اور مجھ جیسے صحافی ان خاک و خون میں لتھڑے زخمیوں سے سوال کرتے!

اب آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟

جہاں ایسی ہی کسی سڑک پر مدد کے لیے پکارتی کسی عورت کی عزت لٹ جائے تو اس کی حفاظت کا ضامن سوال کرتا ہے کہ وہ رات کے اس پہر ایسی خالی سڑک پر آئی ہی کیوں؟ اور ایک سابق حکمران خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ جس سڑک پر یہ وقوعہ ہوا وہ اس نے تعمیر کروائی تھی۔ اور پھرہم سب مل کر اس عورت کی ممکنہ بے راہ روی کے فرضی قصے سناتے ہوئے یہ فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ قصور نا تو کسی درندے کا ہے نا ہی دہائیوں پر پھیلی لمبی سیاہ رات کا جس کے اندھیرے میں ہم اپنی بے حسی کو چھپائے بیٹھے ہیں۔ قصور تو اس عورت کا ہے، ایسی لمبی کالی رات میں وہ باہر کیوں نکلی؟

مجھے ایک کافی کی طلب ہے اور شاید ایک سگریٹ کا سہارا درکار۔ تا کہ میں اپنی خوشی کو محسوس کر سکوں۔ اور اس بین ڈالتی آواز کو سلا پاؤں جس کی خوشی میرے وطن کی اجلی راتوں اور روشن دنوں سے مشروط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).