کیا پاکستان کے مسائل کی جڑ جمہوریت اور انتخابات ہیں؟


وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کو درپیش توانائی کے مسائل اور سماجی و معاشی صورت حال کا ذمہ دارایسے انتخابی نظام کو قرار دیا ہے جس میں حکومت کو ہر پانچ سال بعد انتخاب میں جانے کی فکر ہوتی ہے۔ لہذا وہ طویل المدت منصوبہ بندی نہیں کرتیں اور صرف ایسے منصوبے شروع کرتی ہیں جن کا فوری نتیجہ سامنے آسکے۔ عمران خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان  خودداری اور خود اعتمادی سے ہی اپنےمسائل پر قابو پاسکتا ہے۔

اسلام آباد میں آبی بجلی کے بارے میں بننے والی ایک ڈاکومنٹری فلم کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے قومی خود داری اور اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کی خصوصیات پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ سافٹ امیج کی بات کرنے والے دراصل مغرب کو خوش کرنے کے لئے ایسی اصلاحات تراشتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی اصطلاح گھڑی گئی تھی۔ کسی کو نہیں پتہ کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ یہ باور کرلیا گیا کہ ہم جتنا مغربی ممالک کی طرح دکھائی دیں گے، ہم اتنے ہی معتدل مزاج لگیں گے۔ لیکن یہ سوچ احساس کمتری ہے۔ پاکستان کو صرف ایک امیج سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ یہ ہم ایک خود مختار قوم ہیں جو اپنے پاؤں پر کھڑی ہے۔ جوکسی پر انحصار نہیں کرتی اور نہ کسی سے قرض لیتی ہے اور بھیک مانگتی ہے۔ تب ہی دنیا ہمارا احترام کرے گی‘۔

ایک ایسا وزیر اعظم معاشی خود مختاری و خود کفالت کی بات کررہا ہے جس کے اڑھائی سالہ دور حکومت میں معیشت 180 ڈگری سے نیچے کی طرف جانا شروع ہوئی ہے اور جس نے مختصر دور حکومت میں ملک کے غیر ملکی قرضوں میں لگ بھگ 25 ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے۔ ماضی کی حکومتوں پر تنقید اور بعض ادوار کی تحسین کرنے کے علاوہ عمران خان کے پاس کوئی موضوع نہیں ہے۔ دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے کچھ صرف نہیں ہوتا اور اگر یہ تقریر پاکستان جیسے ملک کا وزیر اعظم کسی فورم پر کررہا ہو تو اسے یہ فکر بھی لاحق نہیں ہوتی کہ اس کی غلط بیانی کی گرفت ہوسکے گی اور وہ میڈیا اور پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کو جواب دہ ہے جن کے ووٹوں سے منتخب ہو کر وہ ا س منصب پر سرفراز ہؤا ہے۔

جوابدہی کے آزار سے بچنے کے لئے عمران خان کی سربراہی میں پارلیمنٹ اور میڈیا دونوں کو مفلوج کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن سرکاری بنچوں کی بد کلامی اور یک طرفہ کارروائیوں کی وجہ سے واک آؤٹ پرمجبور رہتی ہے یا بے ہنگم شور میں ان کی کسی تجویز پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ پارلیمانی تعاون کو یہ کہتے ہوئے غیر ضروری قرار دیا جاچکا ہے کہ اپوزیشن ہر معاملہ میں اپنے لیڈروں کے جرائم پر ’این آر او ‘ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ سچ و جھوٹ کے فرق یا الزام و جرم کی تخصیص کا اہتمام غیر ضروری قرار پاچکا ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم جس دور کو چاہیں پاکستانی تاریخ کی سیاہ دہائی قرار دیں جیسے انہوں نے 2008 سے 2018 تک کی دہائی کو قرار دیا ہے اور جس عہد کو چاہیں روشن کہہ کر آمریت کی خوبیوں کو عام لوگوں کے ذہن میں راسخ کرنے کی کوشش کرلیں۔ جیسے ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان کے دور آمریت کے بارے میں عمران خان مدح سرا رہتے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت صرف اس تجویز کو پارلیمانی تعاون سمجھتی ہے جس میں وہ حکم صادر کرے اور اپوزیشن پارٹیاں سعادت مندی سے کوئی سوال اٹھائے بغیر اسے تسلیم کرلیں۔ اس کی ایک روشن مثال وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز اور پارلیمانی امور کے مشیر بابر اعوان کی آج منعقد کی گئی پریس کانفرنس ہے۔ اس موقع پر دونوں لیڈروں نے سینیٹ انتخاب کے طریقہ کار کے بارے میں آئینی ترامیم لانے کا اعلان کیا ہے۔ حالانکہ ایک ماہ پہلے ہی حکومت اس معاملہ پر ترمیم سے گریز کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے تعاون سے عمران خان کی سوچ کو پارلیمنٹ اور عوام پر ٹھونسنے کا ہتھکنڈا آزما نے کا فیصلہ کرچکی تھی ۔ صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے یہ مشورہ مانگا گیا تھا کہ وہ خفیہ رائے دہی کی بجائے ’اوپن بیلٹ‘ کے طریقہ کو آئینی قرار دے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر سماعت کے آغاز میں ہی تمام اسٹیک ہولڈرز سے رائے طلب کی ہے ۔ ابھی اس معاملہ پر عدالت عظمی نے کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا۔ آج حکومت کے نمائیندے اسی معاملہ میں آئینی ترمیم لانے کا اعلان کرکے عملی طور سے اس صدارتی ریفرنس سے دست بردار ہونے کا اعلان کررہے ہیں جو اسی حکومت نے پارلیمنٹ کو نظر انداز کرکے سپریم کورٹ کے تعاون سے مرضی ٹھونسنے کے لئے دائر کیا تھا۔

وفاقی حکومت کے اس طرز عمل سے واضح ہوتا ہے کہ وہ نہ تو پارلیمنٹ کے وقار کو خاطر میں لانے پہ تیار ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کو مناسب احترام دینے پر آمادہ ہے۔ ایک معاملہ میں ریفرنس بھیجنے کے بعد، اس پر عدالت عظمی کی رائے کا انتظار کئے بغیر، آئینی ترمیم لانے کا اعلان تکنیکی لحاظ سے سپریم کورٹ اور اس کے ججوں کی توہین نہ بھی ہو پھر بھی اسے عدالت عظمی کی سبکی ہی سمجھا جائے گا۔ حکومت اس طریقہ سے بظاہر ایک طرف سپریم کورٹ کی ابتدائی سماعت میں ججوں کے اٹھائے گئے سوالات پر مایوسی کا اظہار کررہی ہے تو دوسری طرف یک طرفہ آئینی ترمیم سامنے لا کر اپوزیشن کے ’غیر جمہوری‘ رویہ کو بے نقاب کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ شبلی فراز اور بابر اعوان نے آئینی ترمیم کی تجاویز کو ’تاریخی‘ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر اپوزیشن نے ان ترامیم کی حمایت نہ کی تو ثابت ہوجائے گا کہ وہ سینیٹ انتخابات میں بے ایمانی اور ووٹوں کی خرید و فروخت کی حامی ہے۔ یہ طریقہ ملک پر ایک آمر کے مسلط کردہ نیب آرڈی ننس سے مستعار شدہ ہے جس میں کوئی بھی، کسی بھی شخص پر کسی بھی مالی بدعنوانی کا الزام عائد کرسکتا ہے۔ پھر یہ نیب کی نہیں بلکہ اس شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ الزامات کو غلط ثابت کرے۔ اس قسم کے جابرانہ قانون کے ذریعے اب نئے پاکستان کے علمبردار عمران خان، پاکستان کو کرپشن سے پاک ایک صالح معاشرہ بنانے کا اعلان کرتے نہیں تھکتے۔

پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کے لئے قابل قبول اکثریت کی حمایت نہ رکھنے والی کوئی بھی حکومت کسی ترمیم کا اعلان کرنے سے پہلے اپوزیشن پارٹیوں سے مکالمہ کرتی ہے اور انہیں ہم خیال بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر ترامیم کا ایسا مسودہ تیار ہوتا ہے جو سب کے لئے قابل قبول ہو تاکہ پارلیمنٹ میں بدمزگی اور تصادم کی بجائے ہم آہنگی دیکھی جاسکے اور ترمیم کا مرحلہ خوش اسلوبی سے انجام پاجائے۔ تحریک انصاف کے اہداف اس سے مختلف ہیں۔ جمہوریت اور پارلیمنٹ جیسی اصطلاحات کا صرف ایک ہی پہلو پیش نظر رہتا ہے کہ کس طرح اپوزیشن کو یک طرفہ حکومتی فیصلے ماننے پر مجبور کیا جائے۔ جیسا کہ گزشتہ برس جنوری میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے معاملہ پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ’ایک پیج‘ پر آنا پڑا تھا اور پھر ایک وفاقی وزیر نے ایک لائیو ٹاک شو میں فوجی بوٹ میز پر رکھ کر اپوزیشن کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تھی۔ اب شبلی فراز اور بابر اعوان نے سینیٹ انتخاب کے بارے میں آئینی ترمیم پیش کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بالکل اسی انداز میں اپوزیشن پارٹیوں کو تعاون کی ’وارننگ‘ دی ہے۔

کچھ عجب نہیں ہے کہ اس حکومت کے سربراہ اور پارٹی کے چئیرمین پاکستان میں آبی وسائل کی کمیابی اور بجلی کی پیداوار جیسے گنجلک اور پیچیدہ معاملات پر اظہار خیال کرتے ہوئے ملک کے جمہوری انتخابی نظام کو اس کی بنیادی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پانچ سالہ مدت کی وجہ سے کوئی حکومت طویل المدت منصوبہ بندی نہیں کرتی اور عبوری نوعیت کے فیصلے کرکے اپنی انتخابی جیت کا راستہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔ اس کی مثال وہ چین سے لائے ہیں جہاں ’مستحکم حکومت ‘ کی نگرانی میں طویل المدت منصوبہ بندی کا یہ فائدہ ہؤا کہ اب چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کے قریب ہے۔ عمران خان کو ایسے میں برطانیہ یا امریکہ کی مثال دینے کا خیال نہیں آیا۔ چونکہ یہ مثالیں ان کے جمہوریت کش بیانیہ کو مضبوط کرنے میں معاون نہیں ہوسکتیں۔

عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر جمہوریت کو اپنے راستے کی دیوار سمجھنے والے اور انتہا پسند آمریت کا راستہ اختیار کرنے کی خواہش کرنے والے عمران خان دنیا کے پہلے لیڈر نہیں ہیں۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ حال ہی میں سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عوام کے ووٹوں سے ہی منتخب ہوئے تھے اور دوسری کوشش میں انہیں پہلے سے بھی زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن انہوں نے نہ صرف اپنی پہلی مدت عوامی حاکمیت کی تمام روایات کو تباہ و برباد کرنے میں صرف کی بلکہ جاتے جاتے امریکی نظام انتخاب کو مسترد کر کے اور دھاندلی کا جھوٹا شور مچا کر امریکی جمہوریت کو شدید خطرے سے دوچار کیا۔ 6 جنوری کو اپنے حامیوں کو اکسا کر کانگرس پر حملہ کروایا تاکہ وہ کسی طرح عوام کی رائے سے منتخب ہونے والے جو بائیڈن کو امریکہ کا صدر بننے سے روک سکیں۔ اب امریکی سینیٹ ان کے خلاف انتخاب میں عوامی رائے مسترد کرنے اور جمہوری عمل میں مسلح رکاوٹ ڈالنے کے الزام میں مواخذہ کے مقدمہ کی سماعت کر رہی ہے۔

عمران خان بھی پاکستان میں موجودہ انتخابی نظام کو مسترد کرکے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں جس میں انہیں تاحیات اقتدار نصیب ہوسکے۔ انہیں اس بات سے غرض نہیں ہے کہ اس طریقہ سے ملک کیسی تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اور قومی تفاخر کے لئے وہ جس خود مختاری کا سبق پڑھاتے ہیں، اس کی راہ کھوٹی ہو جائے گی۔ اقتدار کی چاہ میں انہیں صرف وہ ملک درکار ہے جہاں وہ بلا شرکت غیرے ہمیشہ کے لئے حکمران رہ سکیں۔ وہ بھول رہے ہیں کہ جس انتخابی نظام کو قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دے کر وہ دائمی اقتدار کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں، وہی ناقص نظام انہیں وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچانے کا باعث بنا تھا۔ یا پھر اس فوجی قیادت نے ان کی اعانت کی تھی جو اس ملک میں نظام حکومت کی اہم ترین ’نگران‘ ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو کامل اختیار اور غیر معینہ مدت تک اقتدار کی خواہش کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ کوئی وجہ تو ہوگی کہ فوج نے طاقت کا سب سے بڑا مرکز ہونے کے باوجود جمہوری نظام کے ذریعے عمران خان کووزیر اعظم بنوانے کی کوشش کی ۔ آرمی چیف نے خود ہی اقتدار پر قبضہ نہیں کر لیا تھا۔ پاکستان میں لوگوں کو گمراہ کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں ہمیشہ کے لئے بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ عمران خان اپنی باتوں سے اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر ان کے اقتدار کا آشیانہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali