وزیر اعظم عمران خان نے خواتین ممبران پارلیمان کو ترقیاتی فنڈ نہ دینے کی وجہ کیا بتائی؟


پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے حکومتی اور اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں حکومت کے آخری سال میں ارکان پارلیمنٹ کو 50 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔

اس اجلاس میں چند خواتین رکن قومی و صوبائی اسمبلی نے بھی ان ترقیاتی فنڈ کا مطالبہ کیا تاہم وزیر اعظم عمران خان نے ان کے مطالبے کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ کیونکہ خواتین ارکان کی بڑی تعداد بغیر الیکشن لڑے مخصوص نشتوں پر آتی ہے اور ان کا حلقہ نہیں ہوتا لہذا انھیں ترقیاتی فنڈ نہیں دیے جا سکتے۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کسی حکومت کی جانب سے خواتین ممبر پارلیمان کو ترقیاتی فنڈ دینے سے انکار کیا گیا ہو۔

ماضی میں بھی مختلف مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے خصوصی نشستوں پر آنے والی خواتین ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ سے محروم رکھا گیا جس پر یہ خواتین گذشتہ کئی برس سے ترقیاتی فنڈ کے معاملے پر امتیازی رویے کا شکار ہونے کا شکوہ کرتی آ رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ترقیاتی فنڈز پر تحریکِ انصاف کے اراکین ناراض کیوں؟

قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے مختص سیٹیں بڑھانے کی تجویز

’500 کلومیٹر کا حلقہ اور انتخابی مہم کے لیے 40 لاکھ‘

پاکستان کی قومی اسمبلی کی کل نشتیں 342 ہیں جس میں سے 60 نشتیں خواتین کے لیے مختص ہیں۔ ان مخصوص نشتوں پر آنے والی بہت سی خواتین کا شکوہ رہا ہے کہ الیکشن لڑ کر نہ آنے اور مخصوص حلقہ نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان خواتین نمائندگان سے عوام کی کوئی امیدیں نہیں۔

پارلیمان میں ان مخصوص نشستوں کے علاوہ 8 خواتین اپنے حلقوں سے انتخاب لڑ کر منتخب ہوئی ہیں۔

فنڈز نہ دینے کی وجہ کیا ہے؟

پنجاب سے خواتین کے لیے مخصوص نشست پر آنے والی پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عندلیب عباس کا کہنا ہے کہ اجلاس میں مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کو ترقیاتی فنڈ دینے کا معاملہ زیر بحث آیا اور چند غیر منتخب خواتین ارکان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کا حلقہ نہیں لیکن انھوں نے منتخب مرد ارکان کی الیکشن مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس لیے ترقیاتی کاموں کو لے کر عوام کی ان سے بھی وہی امیدیں ہیں جو مرد ارکان اسمبلی سے ہوتی ہیں۔

عندلیب عباس کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ ترقیاتی فنڈز کے معاملے میں مردوں کو خواتین پر ترجیح دی گئی ہو بلکہ ہر اس رکن کو ترقیاتی فنڈ دیے جائیں گے جو منتخب نمائندہ ہے۔ انھوں نے اپنی پارٹی پی ٹی آئی کی انتخاب لڑ کر آنے والی دو خواتین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ زرتاج گل اور غلام بی بی بھروانہ کو ترقیاتی فنڈ دیے جائیں گے کیونکہ ان کا حلقہ ہے۔

عندلیب عباس کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ خود بھی مخصوص نشت پر قومی اسمبلی میں آئی ہیں لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ ان فنڈز پر منتخب اراکین کا پہلے حق ہے۔

’فنڈ حلقوں کو ملیں ہیں رکن قومی اسمبلی کو نہیں‘

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے منظور کیے گئے ترقیاتی فنڈز کسی رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کو نہیں بلکہ قومی اسمبلی کے 272 حلقوں کو دیے گئے ہیں۔

انھوں نے کہا ’یہ فنڈ کسی رکن قومی اسمبلی کے ذاتی اکاؤنٹ میں نہیں جائیں گے بلکہ ان حلقوں کے نمائندگان اپنے حلقے کے لیے ترقیاتی منصوبوں کی نشاندہی کریں گے جس کے بعد متعلقہ ادارے ان ترقیاتی منصوبوں پر کام کریں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ آیا اس حلقے کے رکن قومی اسمبلی کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے یا نہیں اور تمام حلقوں کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے یہ فنڈ دیے گئے ہیں۔

ترقیاتی فنڈ نہیں ملیں گے تو حلقہ کیسے بنے گا؟

تاہم مخصوص نشتوں پر آنے والی بہت سی خواتین رکن قومی اسمبلی اس منطق کہ ’ان کا تو کوئی حلقہ انتخاب ہی نہیں‘ کو نہیں مانتی۔

ان کا کہنا ہے وہ جس صوبے کی مخصوص نشت پر آتی ہیں اس صوبے کی خواتین کے مسائل حل کرنا ان کا فرض ہے اور اکثر اس کے لیے ترقیاتی فنڈ درکار ہوتے ہیں۔ اگر انھیں ترقیاتی فنڈ نہیں دیے جائیں گے تو وہ عوام کی خدمت کیسے کریں گی اور کیسے اپنا حلقہ بنائیں گی تاکہ اگلی بار انھیں مخصوص نشستوں پر نہ آنا پڑے بلکہ وہ الیکشن لڑ کر آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp