افغانستان میں مارے جانے والےکالعدم شدت پسند تنظیم لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ کون تھے؟


منگل باغ
پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ضلع میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بر سرِ پیکار کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ افغانستان میں ایک دھماکے میں مبینہ طور پر ہلاک ہوگئے ہیں۔

افغانستان کے صوبہ ننگر ہار کے گورنرضیا الحق امرخیل نے بی بی سی کو اپنے ایک آڈیو پیغام میں بتایا ہے کہ منگل باغ ننگر ہار کے ضلع اچینی میں ایک دھماکے میں اپنے دو ساتھیوں سمیت ہلاک ہو گئے ہیں۔ افغانستان کے سکیورٹی حکام کی جانب سے اب تک اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں ہوا ہے۔

منگل باغ کی ہلاکت کی خبر اس سے پہلے بھی دو مرتبہ ذرائع ابلاغ میں آئی ہے۔ پہلی مرتبہ یہ خبر 22 جولائی 2016 میں سامنے آئی جس میں کہا گیا تھا کہ ننگر ہار میں ایک ڈرون حملے میں منگل باغ ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد سنہ 2017 میں اس کی تردید کر دی گئی تھی۔ اسی طرح 2019 میں بھی منگل باغ کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی تھی لیکن اس کی بھی تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

منگل باغ کے سر کے قیمت مقرر

‘منگل باغ کی دھمکی،300 خاصہ دار غیرحاضر’

لشکرِ اسلام کا وجود خطرے میں

ننگر ہار کے گورنر ضیا الحق امرخیل نے جمعرات کو اپنے آفیشل ٹویٹر پیغام میں بھی کہا ہے کہ منگل باغ بارودی سرنگ کے دھماکہ میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس پیغام میں انھوں نے کہا کہ یہ بارودی سرنگیں ان شدت پسند تنظیموں نے جگہ جگہ بچھا رکھی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ منگل باغ اور اس کے ساتھیوں کا اس علاقے میں تشدد کے متعدد واقعات میں ہاتھ تھا۔

منگل باغ کون تھے؟

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جہاں متعدد شدت پسند تنظیمیں اور گروہ سامنے آئے ان میں منگل باغ جیسی شخصیات کا چرچا بھی زبان زد عام رہا جو بظاہر لوگوں کو امن اور انصاف فراہم کرنے کے نعرے لگاتے رہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقے ضلع خیبر میں لشکر اسلام نامی تنظیم کے سربراہ منگل باغ کا دور گزرا ہے جہاں منگل باغ کا قانون اور حکم چلتا تھا اور وہ اس علاقے میں ایک خوف کی علامت بن چکے تھے۔

ان کے نام سے پرچیاں تقسیم کی جاتیں اور لوگوں کو ان کے جرائم کے بارے بتایا جاتا اور انھیں سزائیں بھی سنائی جاتی تھیں۔

منگل باغ آفریدی قبیلے کی شاخ سپاہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ 1973 میں باڑہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے بارے میں دستیاب معلومات کے مطابق وہ بس کنڈیکٹر تھے اور پھر بس ڈرائیور رہے تھے لیکن سال 2004 کے بعد جب اس خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی تھی ان دنوں میں ضلع خیبر میں شدت پسند تنظیمں قائم ہو رہی تھیں۔

منگل باغ نے ابتدائی طور پر سابقہ خیبر ایجنسی اور انضمام کے بعد ضلع خیبر قرار دیے جانے والے علاقے میں پنج پیری رہنما مفتی منیر شاکر سے متاثر ہوئے اور علاقے میں اس وقت بریلوی مسلک کے رہنما مفتی سیف الرحمان کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔

ضلع خیبر کے حالات پر نظر رکھے سینیئر صحافی ولی خان شنواری نے بی بی سی کو بتایا جب دونوں تنظیموں کے کشیدگی بڑھ گئی تھی تو اس وقت مقامی انتظامیہ نے کارروائی کی اور دونوں رہنماؤں کو علاقہ بدر کر دیا گیا جس کے بعد منگل باغ نے لشکر اسلام نامی تنظیم کو فعال کیا۔

انھوں نے بتایا کہ سال 2006 میں اپنی ہی تنظیم کے سپریم لیڈر بن گئے اور انھوں نے مقامی سطح پر ایف ایم ریڈیو کی بنیاد ڈالی جہاں سے وہ اپنے پیغامات نشر کیا کرتے تھے۔ شدت پسند تنظیمیں اور قائدین اپنے اپنے علاقوں میں ایف ایم ریڈیو کا استعمال کیا کرتے تھے جیسے ملاکنڈ ڈویژن میں تحریک طالبان پاکستان کے سابق رہنما ملا فضل اللہ بھی ایف ایم ریڈیو کے ذریعے ہی اپنے پیغامات جاری کیا کرتے تھے۔

منگل باغ

صحافی محمود جان بابر نے منگل باغ سے ملاقات بھی کی تھی اور ان کے مشاہدے کے مطابق جب منگل باغ نے تحصیل باڑہ اور اس کے قریبی علاقوں میں اپنا اثر قائم کرنا شروع کیا تو ایسا تاثر پیدا ہوا کہ شاید ایسا نظام آیا ہے جس میں اسلامی خلافت کی بات ہو رہی تھی اور اس سے ان سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل باغ کے بارے میں ایسی اطلاع درست نہیں تھی کہ وہ ان لوگوں سے نہیں ملتے جن کے سر پر ٹوپی نہ ہو کیونکہ وہ ان سے جینز پہن کر ملے تھے۔

محمود جان بابر نے بتایا کہ جب انھوں نے منگل باغ سے پوچھا کہ وہ کس اسلامی نظام سے متاثر ہیں تو منگل باغ نے اس کا جواب نہیں دیا تھا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔

ان کا کہنا تھا منگل باغ کو جو بنیادی باتیں معلوم تھیں وہی بتا رہے تھے اور ان کی باتوں میں کوئی گہرائی نظر نہیں آئی بلکہ ایک سادہ انسان تھے جنھیں بہت ساری باتوں کا علم نہیں تھا۔

منگل باغ جب عروج پر تھے تو اس وقت موسیقی پر پابندی عائد تھی اور موسیقی سے تعلق رکھنے والے افراد کو لے جا کر انھیں جرمانہ کیا جاتا اور انھیں موسیقی اور اداکاری سے دور رہنے کا کہتے تھے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عقیل یوسفزیی نے بتایا کہ انھوں نے جیو نیوز کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ منگل باغ اور ان کے ساتھین پورے علاقےکو اپنے اثر میں لیا ہے اور اراکین اسمبلی سے فنڈز اکٹھے کرتے ہیں اور اس پروگرام کے دوران ہی سخت رد عمل سامنے آیا اور پھر انتہائی مہذب انداز میں دھمکیاں دی تھی اور اس پر حامد میر نے سٹینڈ لیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ منگل باغ ایک روایتی آدمی تھے اور وہ اصلاحات کا ایجنڈا لے کر سامنے آئے اور مقامی انتظامیہ نے ان کی اس پر حمایت کی کہ بااثر آدمی اس علاقے میں اپنا اثر رسوغ استعمال کرکے حالات بہتر کر سکیں گے۔

انھوں نے کہا کہ منگل باغ کمانڈر بن گئے اور پھر تیراہ میں تشدد کے واقعات شروع ہوئے جس کے خلاف پھر انصار الاسلام نامی تنظیمی بنائی گئی اور پھر منگل باغ نہ صرف قبائلی علاقے بلکہ پشاور اور کوہاٹ تک لوگوں کے لیے ایک خطرہ بن گئے تھے۔

محمود جان بابر کے مطابق منگل باغ نے بھی لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے علاقے میں امن قائم کرنے اور انصاف فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس علاقے میں بد امنی کے واقعات اور بے انصافی کی وجہ سے لوگ تنگ تھے اس لیے کچھ لوگوں نے اس علاقے میں ان کی حمایت کی تھی۔

ولی خان شنواری کے مطابق جب حالات انتہائی کشیدہ ہوئے تو سال 2008 میں سکیورٹی فورسز نے لشکر اسلام کالعدم قرار دے کر فوجی آپریشن کیا اور منگل باغ تیراہ کے علاقے میں روپوش ہو گئے تھے اور وہاں بھی ان کے خلاف فوجی آپریشن کیے گئے تھے۔ پاکستان اور امریکہ نے پھر 2009 میں منگل باغ کے سر کی قیمت بھی مقرر کر دی تھی۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں شدت پسند تنظیوں کے خلاف فوجی آپریشنز کی وجہ سے اکثر شدت پسند افغانستان فرار ہو گئے تھے۔ منگل باغ بھی افغانستان کے علاقے ننگر ہار میں روپوش تھے جہاں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مقیم تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp