ان ہاؤس تبدیلی سے کھیل کے خاتمے کا آغاز


حکومت کو چلتا کرنے کے تین طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا مارشل لا، دوسرا وزیر اعظم کا استعفیٰ، تیسرا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد۔
مارشل لا پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا۔ 1958 ء میں ایسے کوئی حالات نہیں تھے جن میں مارشل لا لگانا ناگزیر ہو، صرف جنرل ایوب خان کے ذاتی عزائم کارفرما تھے۔ وہ جانتے تھے کہ انہیں امریکا کی حمایت میسر ہوگی۔ سول سوسائٹی اور ادارے اتنے توانا نہیں تھے کہ مارشل لا کے خلاف مزاحمت کرتے۔ اور پھر عدلیہ نے بھی اس کی توثیق کر دی۔
1977ء میں مارشل لا کو دعوت دینے والے کچھ عوامل جمع ہو گئے تھے : اسٹبلشمنٹ نواز طاقت ور سولین احتجاجی تحریک، ضدی طبیعت رکھنے والا مطلق العنان وزیر اعظم جو نئے انتخابات پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، اور زیرک اور طالع آزما جنرل موقع کی گھات میں۔ اس وقت امریکی حمایت دستیاب نہیں تھی۔ 1999 ء میں نہ تو حالات سازگار تھے اور نہ ہی آرمی چیف طالع آزما تھا۔ سویلین وزیر اعظم نے آرمی چیف کو برطرف کرتے ہوئے ادارے کو شب خون مارنے کی راہ دکھائی۔ ایک مرتبہ پھر فوجی حکومت کے لیے امریکی حمایت کی یقین دہانی موجود نہیں تھی۔
آج مارشل لا کے خلاف طاقت ور عوامل موجود ہیں۔ پہلا، حزب اختلاف کی اسٹبلشمنٹ مخالف مقبول عام تحریک سرگرم ہے جو فوج کی حمایت سے قائم ہونے والی حکومت کے خلاف عوام کو متحرک کر رہی ہے۔ دوسرا، ایک عشرہ قبل جمہوریت بحالی کی تحریک کے بعد توانا ہونے والا بار اور بنچ کسی شب خون مارنے والے جنرل کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا۔ اس ضمن میں مشرف ٹرائل اور قاضی فائز عیسیٰ کیس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ تیسرا یہ کہ کوئی جنرل بھی اتنا کم عقل نہیں جو ایسے ملک کا کنٹرول سنبھالنا چاہے جس کی معاشی حالت اتنی ابتر ہو جتنی اس وقت پاکستان کی ہے۔ وہ ایسا کرتے ہوئے ذاتی اور ادارے کی ناکامی کا خطرہ مول کیوں لے گا؟ درحقیقت اسی وجہ سے کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے بالواسطہ طور پر ریاست کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی ناقابل تصور ہے کہ عمران خان جیسا شخص حالات کے دباؤ کی وجہ سے استعفیٰ دے دے۔ جب تک ان کی پارلیمانی اکثریت موجود ہے، وہ ایسا کیوں کریں گے؟ جس وقت ان کی مقبولیت انتہائی گر چکی اور معاشی اور سیاسی استحکام کے امکانات کم و بیش دم توڑ چکے، وہ پھر بھی اپنی جگہ پر ثابت قدم ہیں۔ جب عمران خان اور اسٹبلشمنٹ مل کر نواز شریف کے خلاف میدان میں تھے تو بھی نواز شریف کے قدم نہیں ڈگمگائے تھے۔ تو پھر عمران خان ایسا کیوں کریں جب اسٹبلشمنٹ حزب اختلاف کو ہدف بنانے میں ان کی حمایت کررہی ہے؟
اس کے بعد تیسرے امکان کے طور پر تحریک عدم اعتماد ہی باقی رہ جاتی ہے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اس میں کامیابی کے لیے مخصوص شرائط درکار ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ اور اتحادی بغاوت پر آمادہ ہوں۔ دوسری یہ کہ حکومت اتنی غیر مقبول ہو چکی ہو کہ حزب اختلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر عوامی حمایت حاصل کر سکے۔ تیسری شرط یہ کہ اسٹبلشمنٹ اس کے خلاف عملی طور پر متحرک نہ ہو۔ موجودہ صورت حال میں پہلی دو شرائط پوری ہو سکتی ہیں بشرطیکہ اسٹبلشمنٹ کی طرف اشارہ آ جائے کہ وہ اس کی حمایت کے لیے تیار ہے۔
یہ آصف زرداری کے نتائج کا نچوڑ ہے۔ نواز شریف کی قیادت میں اسٹبلشمنٹ مخالف قوتیں عمران خان کو گھر بھیجنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن آصف زرداری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کی تجویز پیش کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ایک ”تعاون پر آمادہ قومی حکومت“ قائم ہو۔ اس کے لیے اسٹبلشمنٹ کی حمایت سے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی ضرورت ہے۔
اسٹبلشمنٹ کو اس کے لیے قائل کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ (1) نواز شریف اور مریم نواز اس مجوزہ حکومت کا حصہ نہ ہوں، (2) تازہ انتخابات وقت مقررہ، یعنی 2023ء سے پہلے نہ ہوں، (3) چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو کسی پریشانی کے بغیر اپنی مدت مکمل کرنے دی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف کسی بھی ان ہاؤس تبدیلی کے خلاف ہیں۔ وہ ایسی کسی شرط کے بھی حق میں نہیں جو نئے انتخابات کا راستہ روک کر مسلم لیگ نون کو اقتدار میں آنے سے روکے۔ وہ ہر گز نہیں چاہتے کہ نون لیگ کسی ”قومی“ حکومت کا حصہ بنے کیوں کہ اس صورت میں حکومت میں شامل شراکت داروں کی باہم لڑائی اور ناقص گورننس کی وجہ سے عوامی اشتعال کا نشانہ بننا پڑے گا۔ اس سے انتخابی کامیابی کے امکانات کو زک پہنچتی ہے۔ درحقیقت یہ فارمولہ پیپلز پارٹی کے لیے سازگار ہے۔ یہ سندھ میں اپنی حکومت رکھتے ہوئے مرکز میں بلاول بھٹو کی قیادت میں قومی حکومت میں شریک ہو سکتی ہے۔
پی ڈی ایم میں تنازع کی بنیاد یہی ہے۔ پیپلز پارٹی ان ہاؤس تبدیلی چاہتی ہے جس کے نتیجے میں اسٹبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ رکھنے والی قومی حکومت وجود میں آئے، اور پیپلز پارٹی ہی 2023 ء تک اس کی قیادت کرے۔ پاکستان مسلم لیگ نون عمران خان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرتے ہوئے یا ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے انتخابات کا فوری انعقاد چاہتی ہے۔ اسے انتخابات میں بھرپور کامیابی کا یقین ہے۔ آصف زرداری ایسی طے شدہ ڈیل چاہتے ہیں جو ان کے لیے ساز گار ہو۔ نواز شریف لانگ مارچ سے لے کر پارلیمنٹ سے استعفوں کے آپشنز استعمال کرتے ہوئے بحران کو گہرا کرنا چاہتے ہیں تاکہ کسی طے شدہ ڈیل کے نتیجے میں ان کا نقصان نہ ہو۔
مسٹر زرداری کے فارمولے پر عمران خان کی طرف سے فوری طور پر سخت ردعمل آیا۔ براڈ شیٹ کیس کی تحقیقات کے لیے جسٹس (ر) عظمت سعید کی سربراہی میں نیا کمیشن آف انکوائری قائم کیا گیا حالانکہ ان کا اس کیس میں مفادات کا ٹکراؤ ثابت شدہ ہے۔ لیکن انہیں پیپلز پارٹی کے خلاف سرے محل سمیت بہت سے مقدمات کی تحقیقات کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ یہ پی ڈی ایم الائنس کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ نواز شریف کا فارمولہ کامیابی کے بہتر امکانات رکھتا ہے۔ اس کے لیے مارچ اور اپریل میں اجتماعی طور پر استعفے دیے جائیں۔ یہ اقدام اس ہائبرڈ بندوبست کے آئینی جواز کو زک پہنچا کر حکومت کی فعالیت کو مفلوج کردے گا۔ اس کے بعد اگلے سو دنوں کے اندر ضمنی انتخابات کی کوشش کو پی ڈی ایم روک سکتی ہے۔ یا یہ انتخابات جیت کر ایک بار پھر استعفوں کا ہتھیار استعمال کر سکتی ہے۔ یہ صورت حال اسٹبلشمنٹ کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ عمران خان جیسے غیر فعال لیڈر کی حمایت سے دست کش ہو جائے۔ اس وقت تک ممکن ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی نواز شریف اور مریم نواز کی مخالفت میں کمی آ جائے، اور دوسری طرف سے بھی قمر جاوید باجوہ کو قبول کر لیا جائے۔ اس سے ملک موجودہ دلدل سے نکل کر آگے بڑھ سکتا ہے۔
دیکھا جا سکتا ہے کہ ملک میں سیاسی جمود ٹوٹنے کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں۔ آصف زرداری پی ڈی ایم میں موجود اپنے شراکت داروں کو لانگ مارچ اور استعفوں کا آپشن ترک کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے، چاہے پیپلز پارٹی اس کا حصہ نہ بھی بنے۔ لیکن پھر مارچ میں ایسا مرحلہ آئے گا جب اسٹبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی، دونوں کو اپنی اپنی حکمت عملی سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ ان ہاؤس تبدیلی سے بھی کھیل ختم ہونے کا آغاز ہو سکتا ہے۔

(بشکریہ فرائیڈے ٹائمز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).