افریقہ میں استعماری کھیل اور یورپ کے فکری مغالطے


نوٹ: پچھلے مضمون میں برلن کانفرنس اور افریقہ پر غلبے کے لیے یورپی استعمار کی تاریخ کا مختصر تجزیہ پیش کیا گیا تھا۔ اب ہم دیکھیں گے کہ اس قبضے کے جواز کے لیے یورپ کے عقلی اور منظقی ذہن نے کیا کیا استدلال گھڑے۔

برلن کانفرنس کا قصہ ختم نہیں ہو سکتا جب تک ذہن ایک دلچسپ سوال کا جواب تلاش نہ کرلے جو ہراس ذہن میں پیدا ہوتا ہے جو نشاط ثانیہ کے بعد یورپ کے علمی اور ثقافتی عروج اور اس کی سامراجی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے۔ یہ سوال کے یہ دونوں متضاد تاریخی عمل ایک ساتھ کیسے رونما ہوئے؟ یعنی وہ یورپ جو روشن خیالی اور نشاط ثانیہ کی روشنی سے منور ہو رہا تھا، جس نے مارٹن لوتھر، کوپرنیکس اور گلیلیو کے جدوجہد سے تحریک پا کر مذہبی جبر اور جہالت سے نجات پائی، جسے فرانسس بیکن، والٹئر اور روسو کے افکار نے مساوات اور انسان دوستی کا درس دیا، اسی یورپ کے ہاتھوں براعظم افریقہ کا یہ استحصال کیوں کر ہوا۔ وہ بھی عین اس وقت جب دنیا میں اس کے علم و دانش کی روشنی پھیل رہی تھی؟

اس سوال کا جواب انسانی فطرت کے تاریک پہلو کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ فرد کے انفرادی رویے ہوں یا قومی و اجتماعی فیصلے ان پر اخلاقیات کی جتنی بھی ملمع کاری کر لی جائے اپنی نہاد میں ذاتی منفعت یا پھر گروہی مفادات کے ہی تابع ہوتے ہیں۔ اگرچہ انسان میں ایک اخلاقی حس یا کانٹ کے الفاظ میں مورل کوڈ بہرحال موجود ہوتی ہے اور موقع بہ موقع راہ راست کی طرف بلاتی بھی رہتی ہے مگر کاروبار دنیا میں مبتلا شخص اس کی جانب کم ہی متوجہ ہوتا ہے، اس کی عقل و شعور، دانش اور علم حق و صداقت کی جستجو کے بجائے قومی اور انفرادی ضمیر کو تھپکیاں دینے اور اسے رام کرنے کے لیے حیلے بہانے تراشنے میں صرف ہوتے ہیں۔ اب اگر انسان جاہل یا وحشی ہو تو یہ کارروائی بھونڈی اور مضحکہ خیز ہوتی ہے لیکن اگر اتفاق سے بندہ تعلیم یافتہ یا قوم مہزب ہو تو بڑا دلچسپ تماشا لگتا ہے۔ انیسویں صدی کا روشن خیال، عقلیت پسند اور مہذب یورپی ذہن بھی افریقہ پر غلبے کی دوڑ کے دوران ایسی ہی دلچسپ اور عجیب تاویلات میں گھرا ہوا تھا۔

سب سے پہلی تاویل مذہب کی طرف سے آئی جس میں بائیبل کی ایک فرسودہ روایت کی مدد سے حضرت نوح علیہ السلام کی بدعا کو افریقہ کی کالونازیشن کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔ بائیبل کے اسکالرز کے مطابق افریقی انسل اقوام حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حام کی اولاد سے ہیں جبکہ یوروایشیائی اور یہودی با الترتیب یافت اور سام کی اولاد ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کسی بات پہ ناراض ہو کر حام کو بدعا دی کہ اس کی اولاد سام اور یافت کی اولاد کی چاکری کرے۔ چنانچہ اس رویت کی رو سے افریقی حبشیوں کو غلام بنانا کوئی انسانیت سوز عمل نہیں بلکہ بائیبل کی پیشین گوئی کی تکمیل ٹھہرا۔

تاہم یورپی شعور پر مذہب کی گرفت ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور پڑتی جا رہی تھی اور اس کی جگہ فلسفہ اور سائنس لے رہے تھے۔ قریب تھا کہ مذہبی روایت کی بنیاد پہ کھڑی استدلال کی یہ عمارت ڈھیر ہو جاتی کہ حیاتیات کے ماہرین نے ایک زبردست دھماکہ کر دیا۔ نظریہ ارتقاء کو عموماً چارلس ڈارون کی طرف منسوب کیا جاتا ہے مگر یہ غلغلہ اس کی کتاب ”انواع کا آغاذ“ سے پچاس برس پہلے ہی بلند ہو چکا تھا۔ جوزف ناٹ اور جارج گلڈن نامی سائنسدانوں نے اپنی کتاب ”نوع انسانی کی تقسیم“ میں افریقیوں کو انسان، بندر اور چمپنزی کے درمیان رکھا۔

اسی طرح ایک اور صاحب اندرے رٹذو نامی نے ہزاروں کھوپڑیوں پر تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ افریقی النسل افراد کے اوپری جبڑے کی انوکھی ساخت کی وجہ سے ان کی کھوپڑی میں دماغ کے لیے جگہ نسبتاً کم ہے اس لیے ان کا دماغ لازما دوسرے انسانوں سے چھوٹا ہوگا۔ اب ظاہر ہے اس زمانے میں اناٹومی نے اتنی ترقی تو کی نہیں تھی کہ انسانی کھوپڑی کو کھول کے باقاعدہ دماغ کا حجم ناپ کر اس مفروضے کی حقیقت کو جانچا جاتا۔ اسی لیے ایک عرصے تک افریقیوں کو انسان اور بندر کے درمیان کی کڑی سمجھا جاتا رہا اور دیگر جانوروں کی طرح ان کا استحصال بھی جائز ٹھہرا۔

افریقہ میں ماہرین اثار قدیمہ کی دلچسپی بھی اسی زمانے میں شروع ہوئی۔ پہلے پہل فرانسیسی اور اطالوی ماہریں نپولین کے ساتھ مصر پہنچے اور جلد ہی اس قدیم سرزمین کے سحر میں گرفتار ہو گئے، کچھ عرصے بعد جرمن اور انگریز بھی آ گئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ قدیم مصر بلکہ میسوپوٹیمیا اور فارس کی بھی تہذیب اور تاریخ کے بارے میں ہمارا علم انہیں ماہرین اثار قدیمہ کی محنت کا مرہون منت ہے۔ مگر علمی دیانت داری اور جانفشانی کے ساتھ ساتھ سیاسی اور انتظامی مصلیحتیں بھی کام دکھا رہی تھیں۔

اس کا مظاہرہ سب سے پہلے سوڈان میں ہوا جہاں مصر کے راستے آنے والی انگریز افواج کے ساتھ ساتھ ماہرین اثار قدیمہ اور محققین کی بڑی تعداد بھی اس نئی سرزمین کی تاریخ جاننے داخل ہوئی۔ جو کچھ انہوں نے دریافت کیا وہ ہوشربا تھا۔ سوڈان جسے زمانہ قدیم میں ”نوبیا“ اور ”کش“ کہا جاتا تھا مصر ہی کی طرح قدیم تہذیب مالک تھا۔ خرطوم کے قریب ”ں وری“ کے مقام پر کئی مقبرے اور عبادت گاہیں دریافت ہوئیں جنہوں نے اس خطے میں تحقیق کی بنیاد ڈالی۔

مگر جلد ہی انگلو سوڈانی جنگ کے پس منظر میں تحقیات کا یہ سلسلہ روک دیا گیا۔ کیونکہ ان علاقوں میں کھدائی کے لیے سرکاری افسران کا تحفظ اور اجازت نامہ ضروری تھا جو برطانوی حکام کے ملازم تھے۔ انگلستان اس وقت مہدی سوڈانی کی افواج کے ساتھ حالت جنگ میں تھا اور اس جنگی جنون کو بڑھاوا دینے کے لیے بڑی محنت سے انگریزی پریس میں سوڈانیوں کا امیج ایک اجڈ اور نیم وحشی قوم کا بنایا گیا تھا۔ ان حالات میں برطانیوی رائے عامہ میں سوڈانیوں کی ایسی تاریخ جس میں وہ تین ہزار سال پہلے جب یورپ جنگلوں سے ڈھکا ہوا وحشی قبائل کا مسکن تھا ایسے ترقی یافتہ لوگ نظر آئیں جو سونے کے برتن استعمال کرتے تھے، میدان جنگ میں رتھ دوڑاتے تھے، پکے گھر بناتے اور اپنے مردے مقبروں میں دفناتے تھے جنگ کی حامی مقتدرہ کے لیے ناقابل قبول تھی۔

یہی صورتحال صحرائے اعظم کے جنوب میں بھی تھی۔ یہاں سب سے زیادہ سرگرم بیلجئم کے یاد شاہ لیوپولڈ کی انٹرنیشنل افریقی ایسوسی ایشن تھی جس کا مقصد اس خطے کو مہذب بنانا تھا۔ ان علاقوں کے بارے میں باور کرایا گیا تھا کہ یہ وحشی اقوام کا مرکز ہیں، جنہیں مہذب اور اگر ہو سکے تو عسائی بنانے کا مشن قدرت نے یورپی اقوام کو سونپا ہے۔ مگر یہاں گریٹ زمبابوے کے اثار کی دریافت سے ایک بڑا مخمصہ پیدا ہو گیا کیونکہ یورپی اقوام تو یہاں بڑے طمطراق سے تہذیب کی روشنی پھلانے آئی تھیں لیکن تیرہویں سے پندرہوین صدی کے ان آثار کو دیکھ کر صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ ایک ایسی قوم کا مسکن رہے ہیں جس کی تہذیب اور معاشرت کسی طرح بھی ہم عصر یورپی اقوام سے کم تر نہیں تھی۔

اس دریافت کے بعد تہذیب یافتہ بنانے کا منجن بھلا کیا بکتا؟ چنانچہ اس کا واحد حل یہی تھا کہ گریٹ زمبابوے کی افریقی اصل کا انکار کر دیا جائے یہ اسی اہانت آمیز رویے کا تسلسل تھا جس کا مظاہرہ ہاورڈ کے ماہر اثار قدیمہ جارج رائسنر نے کش (سوڈان) میں نوبیائی بادشاہ تحارکا کے مقبرے کی دریافت پر اسے مصری قرار دے کر کیا تھا۔ تحارکا مصر کے حبشی النسل فراعنہ میں سے تھا جس کے خاندان نے سو برس سے زیادہ مصر اور سوڈان پہ حکومت کی۔

سنہ 701 قبل مسیح میں اس کے لشکر نے آشوریہ کے بادشاہ سناخیب کے حملے سے یروشلم کا دفاع کر کے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ جارج رائسنر نے اپنی دریافت کو کسی سوڈانی بادشاہ سے منسوب کرنے بجائے اسے کسی مصری شہزادے یا گورنر کی آخری آرام گاہ قرار دیا اور مرتے دم تک اس رائے پر قائم رہے۔ گریٹ زمبابوے کو بھی پہلے سلیمان علیہ السلام کا افسانوی شہر قرار دینے کی کوشش ہوئی اور جب اس سے بات نہ بنی تو ہزاروں میل دور مصریوں کی کالونی قرار دیا گیا۔ پچاس ساٹھ برس بعد جب خطے میں یورپی استعمار کے قدم جم گئے تو گریٹ زمبابوے کی خالص افریقی شناخت کو تسلیم کر لیا گیا۔

سولہویں سے سترہویں صدی کا زمانہ دریافتوں کا دور کہلاتا ہے جس میں جہازراں اور مہم جو دنیا کے کونے کونے میں انجانی سرزمینوں کی تلاش میں نکلے ان سفرون کا بنیادی مقصد نئی جگہوں کی دریافت اور انسانی علم کے دائرے کا پھیلاؤ تھا۔ مگر بل واسطہ طور پر یہ یورپ کی استعماری قوت مین اظافے کا باعث بھی بنے۔ کیپٹن جیمز کک اور ڈارون وغیرہ کے سفر ناموں نے جہاں یورپ میں ان ان دیکھی دنیاؤں کے بارے میں تجسس اور اشتیاق پیدا کیا وہیں جب ان دور دراز علاقوں کے لوگوں کے رسم و رواج اور تمدن کی تفصیلات یورپ پہنچیں تو ایک قسم کے استعجاب اور کسی قدر کراہیت کا باعث بنیں۔

انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات اتنی غیر فطری نہ تھی، یاد رکھنا چاہیے کہ جس زمانے کی بات ہو رہی ہے اس وقت سفر کی سہولت بہت کم لوگوں کو حاصل تھی، زیادہ تر لوگوں کی ساری زندگی ایک ہی گاؤں یا قصبے میں گزر جاتی تھی۔ دور حاضر کے انسان کے برخلاف جو گھر میں موجود برقی آلات کی مدد سے دنیا ہتھیلی پہ لیے گھومتا ہے انیسویں صدی کے آدمی کا ذہنی افق اتنا وسیع نہ تھا کہ کرہ ارض پر پھیلی ہوئی انسانی ابادیوں کے ثقافتی تنوع کو کشادہ دلی سے قبول کر پاتا۔

بہر حال وجہ جو بھی تھی یہ سفر نامے، رپورٹیں اور روزنامچے یورپ میں دنیا پر غلبے کے حق میں رائے عامہ بنانے میں مددگار ثابت ہوئیں۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہم ان سائنسدانوں اسکالرز اور مہم جو سیاحوں کی نیت پر شک نہیں کر رہے، غالب امکان یہی ہے کہ ان کی کاوشیں تلاش علم اور نا معلوم کی جستجو کی اسی روح کی حامل ہوں گی جو اس زمانے کے یورپی کلچر کا طرہ امتیاز تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی دریافتیں اہل اقتدار کے استعماری عزائم اور سرمایہ دار کی ذر پرستی کی معاون ثابت ہوئیں۔

رہی سہی کسر رائیڈر ہیگرڈ اور ایڈورڈ رائس جیسے مصنفین نے پوری کردی جن کی کہانیوں کا ہیرو ہمیشہ ایک سفید فام ہوتا جو افریقہ کے تاریک جنگلوں میں خطرناک جانوروں اور وحشی قبائل کے درمیان ناقابل یقین کارنامے انجام دیتا۔ افریقہ کے تاریک پس منظر میں یہ ہیرو بہادری ذہانت اور اخلاقی بلندی کا مینار نظر آتا۔ ظاہر ہے یہ کہانیاں کمرشل ضروریات کے تحت اپنے قاری کے ذوق اور رجہان کو مدنظر رکھ کر لکھی گئیں تھیں مگر انہوں نے بھی یورپی اقوایم کی نسلی برتری کی تصور سازی میں اہم کردار ادا کیا۔

لیکن افریقہ پر غلبے کی جنگ کو سب سے مضبوط جواز فلسفے کے ایوانوں سے ملا۔ اور یہ ضروری بھی تھا کیوں کہ انیسوین صدی کے آخر تک مغرب کی فکری قیادت فلسفیوں کے ہاتھ میں ہی تھی چنانچہ فلسفے کی جانب سے سند اور جواز ملنا ضروری تھا۔ یہ کارنامہ سوشل ڈارون ازم کے بانی ہربرٹ اسپنسر نے انجام دیا۔ اسپنسر اور اس کے پیروکاروں کا دعوا تھا کہ ڈارون کا پیش کردہ قدرتی انتخاب کا اصول محض حیاتیاتی دنیا تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ انسانی تمدن اور تاریخ پر بھی محیط ہے۔

اسپنسر کے مطابق قدرتی انتخاب کی کارفرمائی کی وجہ سے کچھ انسانی نسلیں اپنے تمدن اور حیاتیاتی ساخت کی وجہ سے دنیا پر غلبے کے لیے زیادہ موزوں ہیں، ان کے اس غلبے کے زیر اثر غیر متمدن اور اور پسماندہ اقوام اسی طرح معدومیت سے دوچار ہوتی ہیں جیسے حیاتیاتی ارتقاء کے لاکھوں برس کے دوران لاتعداد پودے اور جانور ہو گئے۔ بظاہر سادہ الفاظ میں بیاں کی گئی یہ حقیقت اپنے اندر گہرے مضمرات لیے ہوئے تھی۔ قوموں کی ایک دوسرے پر غلبے کی کوشش کو اگر قانون فطرت مان لیا جائے تو پھر اس حولے سے ہونے والی قتل و غارت گری، استحصال اور جبر کو اخلاقی پیمانے پر ناپنے کی بات غیر منطقی ہو جائے گی۔

یہی وجہ ہے کہ سوشل ڈارونسٹوں کے نظریے کو نسل پرستون کے کیمپ میں خوب پذیرائی ملی اور کلونیل ازم کے حامیوں نے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہاں تک کہ امریکہ میں ابھرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے نے بھی اسے طبقاتی نظام اور ازاد معیشت کے حق میں استعمال کیا۔ بیسویں صدی کے بہت سے عالمی رہنماء اسی نظریے کے علانیہ اور چھپے پیروکار تھے۔

افریقہ پہ استعماری قبضے کا خاتمہ تو بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ہوا مگر اس قبضے کو عقلی اور اخلاقی جواز مہیا کرنے والے افکار اور نظریات پر سوالات اس سے پہلے ہی اٹھنا شروع ہو گئے تھے۔ افریقہ میں عیسائیت ڈرامائی تیزی سے پھیلی۔ کہاں سو سوا سو سال پہلے یہ حال تھا کہ افریقہ میں عیسائی ابادی مقامی مذاہب کے سمندر میں چند جزیروں کی مانند تھی اور اب یہ عالم ہے کہ افریقہ دنیا میں عیسائی ابادی والا سب سے بڑا براعظم ہے جہاں مقامی مذاہب کو ماننے والے خال خال ہی بچے ہیں، توقع کی جا رہی ہے کہ 2035 تک دنیا کا ہر دوسرا عیسائی افریقی النسل ہوگا۔

شاید اسی روشن مستقبل کے پیش نظر اب عیسائی علماء بائیبل کی حکایات کو تمثیلی پیرائے میں دیکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسی طرح نوع انسانی کے مشترکہ اغاز کا نظریہ تسلیم ہوجانے کے بعد افریقی النسل اور سفید فام اقوام کے درمیان کسی قسم کی حیاتیاتی فرق کا مفروضہ بھی مسترد ہو چکا ہے۔ ماہرین اثار قدیمہ اور مورخین بھی اب افریقی تاریخ کو اس کی مقامی شناخت کے تناظر میں ہی دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔ فکشن لکھنے والوں میں بھی جوزف کانراڈ، ڈورس لیزنگ اور ہارپر لی وغیرہ نے استعماری عہد کے جبر اور سچائیوں کو بیان کیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو کالونائزیشن سے پہلے کے افریقہ کی ایک بہتر اور سچی تصویر دنیا کے سامنے آ رہی ہے۔

اگرچہ ان نئی تحقیات اور رجہانات کے بعد استعمار کا جواز پیش کرنے والے نظریات اور افکار تو اپنی موت آپ مر گئے مگر مغربی ضمیر پر طاری اپنے استعماری ماضی کا بوجھ ختم کرنے کی کوششین جاری ہیں۔ افریقہ میں پہلے سے موجود مقامی استعمار کی نشاندہی کی گئی، خاص طور پر زولو سلطنت جس کے ہاتھوں دیگر افریقی اقوام ایسے ہی مظالم کا شکار ہوئیں جو بعد میں یورپیوں نے کیے۔ یاد دلایا گیا کہ غلاموں کی تجارت کا نیٹ ورک افریقہ میں پہلے سے ہی موجود تھا زولو اور مسائی جیسے جنگجو قبیلے اپنے پڑوسیوں کو غلام بنا چکے تھے یورپیوں نے تو محض اس تجارت کو علمگیریت دی۔

یہ بھی کہا گیا کہ اس سے پہلے افریقہ مین مفتوہیں کی نسل کشی کا رواج تھا مگر غلامی کے بعد انہیں بیچنے کا رجہاں پڑا جو ماردینے سے بہرحال بہتر تھا۔ کانگو کے بونوں کا ذکر بھی ہوتا ہے جنہیں ان کے پڑوسی نا صرف نسل در نسل غلام بناتے بلکہ باقاعدہ کھا بھی لیتے تھے۔ عرب امپیرئل ازم کا بھی ذکر ہوتا ہے جو یورپیوں کی آمد سے پہلے وہاں موجود تھا۔ مباسا اور زنجبار غلاموں کی بہت بڑی منڈی تھے اور مشرق وسطی مٰیں حبشی غلام دوسری جنگ عظیم تک فروخت ہوتے تھے۔

اس حوالے سے نائجیریائی ادیب چینواچابے کے الفاظ حرف آخر ہیں۔ ”افریقہ تاریخ میں کبھی بھی پسماندہ یا انڈر ڈاگ نہیں رہا۔ یہ گھانا، بینن اور مالی جیسی سلطنتوں کا مرکز رہا ہے جو کسی طرح بھی معاصر یورپی اقوام سے کمتر نہیں تھیں۔ انیسویں صدی میں افریقہ کی کالونازیشن کی وجہ غلاموں کی عالمی تجارت سے ہونے والی تباہ کاریاں تھیں، غلاموں کی تجارت نے یہاں کی اقتصادی اور سماجی زندگی کا ایسا شیرازہ بکیھرا کہ جب استعمار نے قدم بڑھائے تو افریقہ نے بغیر کسی مزاحمت کے ہتھیار ڈال دیے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).