کووڈ 19: کیا پاکستان انڈیا سے کورونا ویکسین لے گا؟


پاکستان نے اگلے ہفتے سے ملک میں کورونا ویکسین لگائے جانے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں طبی عملے کو چین سے ملنے والی مفت چینی ویکسین لگائی جائے گی۔

پاکستان کے ہمسایہ ملک اور روایتی حریف انڈیا نے جنوری کے وسط میں کورونا کی وبا کے خلاف ویکسین لگانے کی دنیا کی سب سے بڑی مہم کا آغاز کیا ہے۔

انڈیا جسے ویکسین پاور ہاؤس بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ عالمی سطح پر تیار ہونے والی تقریباً 60 فیصد ویکسین بناتا ہے۔ اس نے خطے میں دوستانہ ہمسایہ ممالک کو لاکھوں مفت خوراکیں بھیجنا بھی شروع کردی ہے اور انڈیا کے اس اقدام کو ‘ویکسین ڈپلومیسی’ کہا جا رہا ہے۔

مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل نہیں جنھیں انڈیا مفت ویکیسن دے رہا ہے۔

انڈیا اور پاکستان، دونوں جوہری ممالک نے برطانیہ سے سنہ 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اب تک تین جنگیں لڑیں ہیں جن میں آخری باقدعدہ جنگ سنہ 1971 میں لڑی گئی تھی۔

سنہ 2019 میں بھی دونوں ممالک کشمیر کے متنازع مسئلے پر جنگ کے دہانے پہنچ چکے تھے۔

پاکستان اپنی 22 کروڑ آبادی کے کم از کم 70 فیصد حصے کو مفت کورونا ویکسین لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پاکستان میں محکمہ صحت نے حکام نے ہنگامی طبی حالات میں تین ویکسینز کے استعمال کی اجازت دے دی ہے جن میں آکسفورڈ آسٹرازنیکا، چینی ویکسین سائنوفارم اور روس کی تیار کردہ سپٹنک ویکسین شامل ہیں۔

جبکہ ایک اور چینی ویکیسن کین سینو بائیولوجکس پاکستان میں آخری تجرباتی مراحل میں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ویکسین لگوانے کے بعد کیا لوگوں میں اس کے منفی اثرات سامنے آئے ہیں؟

کیا پاکستان کورونا ویکسین کی خریداری کا معاہدہ کرنے میں تاخیر کا مرتکب ہو رہا ہے؟

پاکستان میں اگلے ہفتے سے طبی عملے کو دی جانے والی ویکسین کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

ویکسین کی سب سے بڑی مہم: انڈیا میں پہلے کسے ٹیکے لگائے جائیں گے؟

کورونا پاکستان

پاکستان میں اب تک پانچ لاکھ 30 ہزار سے زیادہ افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے جبکہ ساڑھے گیارہ ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔

پاکستان میں ویکسین لگائے جانے کے ابتدائی عمل کے آغاز کے لیے چین نے سائنوفارم ویکسین کی پانچ لاکھ خوراکیں پاکستان کو مفت دینے کا وعدہ کیا ہے جو اس ہفتے کے اختتام پر پاکستان پہنچنا متوقع ہیں۔

کراچی کے ایک بڑے ویکسین درآمدد کنندہ اور سندھ میڈیکل سٹورز کے مالک عثمان غنی نے مجھے بتایا کہ ‘ یہ تعداد کچھ بھی نہیں ہے، ہمیں بہت سی اور ویکسین خوراکوں کی ضرورت ہے۔’

یقینی طور پر پاکستان عالمی ادارہ صحت سمیت ڈبلیو ایچ او کی کورونا کے خلاف ویکسین کی فراہمی کی سکیم کوواکس کے ذریعے دنیا بھر سے ویکیسن کے حصول کی کوشش کرے گا۔

عالمی ادارہ صحت کی کواکس سکیم دنیا کے 180 سے زیادہ ممالک میں ویکسین کی ترقی، خریداری اور فراہمی کے لیے کام کرتی ہے۔

لیکن یہ خدشات اپنی جگہ موجود ہے کہ امیر ممالک ویکیسن کی خوراکوں کی ذخیرہ اندوزی کر لیں گے اور اس کی قیمت غریب ممالک کو چکانا پڑے گی۔ یہ وہ وقت ہوگا جہاں انڈیا اپنا کردار ادا کر سکتا ہے کہ اس کے ہمسایہ کو ویکسین کی فراہمی میں مشکل یا پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک میں ادویات کی تجارت مستحکم رہی ہے۔ سنہ 2018 میں انڈیا سے پاکستان کی اودیات کی درآمدات کا تخمینہ 62 ملین ڈالرز سے زیادہ تھا۔ پاکستان میں فروخت ہونے والی دوائیوں میں شامل 60 سے 70 فیصد فعال اجزاء انڈیا سے درآمد کیے جاتے ہیں۔

عثمان غنی کے مطابق اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ تقریباً 90 فیصد ویکسینز جو پاکستان میں استعمال کی جاتی ہیں وہ انڈیا سے جاتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انڈین ویکسینز عالمی معیار کے مطابق ہوتی ہے، سستی ہوتی ہیں اور ان کی درآمد یا ترسیل بھی آسان ہے۔

ان میں سے زیادہ تر ویکسین پاکستان کے سرکاری حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کے ذریعے تقسیم کی جاتی ہیں جو ہر سال 14 ملین نوزائیدہ بچوں اور حاملہ خواتین کو لگائی جاتی ہیں۔

ان حفاظتی ٹیکوں میں بچوں کو دس بیماریوں سے بچاؤ کی ٹیکے لگائے جاتے ہیں جبکہ حاملہ خواتین یا ماؤں کو ٹیٹنس سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔

عثمان غنی کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کو انڈیا سے کورونا ویکسین مل جائےگی۔ انڈیا کے ڈرگ ریگولیٹر نے کوویشیلڈ (برطانیہ میں تیار کردہ آکسفورڈ – آسٹرا زینیکا ویکسین کا مقامی نام) اور انڈیا کی مقامی دوا ساز کمپنی بھارت بائیوٹیک کی تیار کردہ کوواکسن کی اجازت کا اشارہ دے دیا ہے۔

عثمان غنی کا کہنا ہے کہ ‘انڈیا کو پوری دنیا سے پہلے ہی ویکسین کے بہت سارے آرڈرز مل چکے ہیں۔ ہمارے سرحد پار ویکسین بنانے والوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ہم ان سے ویکیسن حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں گے ، لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا۔’

انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے ‘انڈیا کی تیار کردہ ویکسین کے حصول کی کسی درخواست کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں۔’

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب انڈیا ویکسین کی فراہمی شروع کرے گا۔

کورونا وائرس، انڈیا، ویکسین

سندھ میڈیکل سٹورز کے عثمان غنی کہتے ہیں کہ 'اگر ہم ویکسین پر تعاون نہیں کرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو نقصان پہنچائیں گے۔'

جبکہ ادھر دہلی اپنی ‘ویکسین ڈپلومیسی’ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ برس متعدد ممالک کے سینئر سفارت کاروں کو ملک بھر میں چار ویکسین بنانے والی کمپنیوں کے دوروں پر لے جایا گیا تھا۔ اس ماہ میں انڈیا نے بھوٹان ، مالدیپ ، برما ، بنگلہ دیش ، نیپال ، میانمار ، سیچلس ، سری لنکا اور بحرین میں کورونا ویکسین کی ابتدائی مفت خوراکیں بھیجنا شروع کی ہیں۔

جبکہ برازیل اور مراکش کو کورونا ویکسین کی تجارتی فراہمی شروع ہوگئی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے انڈیا سے اپیل کی ہے کہ وہ ایکسپورٹ کنٹرول کی پابندی اٹھائے اور انھیں آسان اور سستی حکومتی قیمتوں پر ویکسین فراہم کرے۔

انڈیا کی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے مجھے بتایا کہ مقامی پیداوار اور طلب کا اندازہ لگانے کے بعد اسے ‘صورت حال کے مطابق’ ہر ملک کے لحاظ سے ایسا کرنے کا منصوبہ ہے۔

برطانیہ کی آسٹرا زینیکا نے سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے ساتھ لائسنس کا معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی ویکسین بنانے والی کمپنی ہے جو انڈیا میں کوویشیلڈ کے نام سے اپنی ویکسین بنا رہی ہے اور اس کا عزم ہے کہ وہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو ایک ارب خوراک کی فراہمی کے ساتھ ساتھ 2020 کے اختتام سے قبل 400 ملین ویکسین کی خوراکیں فراہم کرے۔

انڈیا کی دوا ساز کمپنی بھارت بائیوٹیک کے ترجمان نے کہا کہ ایشیا، افریقہ اور یورپ کے 20 سے زیادہ ممالک کوواکسن میں ‘انتہائی دلچسپی رکھتے ہیں۔’

انڈیا کے سکریٹری خارجہ ہرش شرنگلا نے حال ہی میں بلومبرگ ٹی وی کو بتایا کہ ‘بین الاقوامی سطح پر ہماری ویکسینوں کی بہت مانگ ہے۔’

دوسری جانب بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا کی ویکسین ڈپلومیسی خطے میں چین کے بڑھتے اثر رسوخ کا مقابلہ کرنےکا ایک حربہ ہے۔

دہلی میں قائم تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن (او آر ایف) کے محققین ہرش پنٹ اور آرشی ترکے نے ایک تحقیقی مقالے میں کہا ہے کہ ‘ انڈیا کی ویکسین ڈپلومیسی نے اسے چین کے ساتھ براہ راست مقابلہ میں ڈال دیا ہے۔ جس سے یہ کوئی راز نہیں رہا کہ ویکسین کی تقسیم کا مقصد اس کے وسیع تر جغرافیائی سیاسی عزائم ہیں۔ درحقیقت چین نے وسیع پیمانے پر ہیلتھ سلک روڈ انیشیٹو میں ویکسین کی تقسیم کو بھی واضح طور پر شامل کیا ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر چین کے اچھے چہرے کو تقویت پہنچانا ہے۔’

چین کے سرکاری نیوز ادارے گلوبل ٹائمز نے اس بارے میں متعدد مضمون شائع کیے ہیں کہ چین میں انڈین شہری چینی ویکسین کو کس طرح قبول کر رہے اور لگوا رہے ہیں، اور یہ کہ انڈیا کو دنیا کو ویکسین کی فراہمی میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس ہفتے کے آغاز میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے مابین کوئی ویکسین مقابلہ نہیں ہے۔

انھوں نے رپورٹرز کو بتایا تھا کہ ‘ اس مسئلے پر کوئی باہم مقابلہ اور یقیناً کسی بھی قسم کا تصادم یا اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔’

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp