زبان انگریزی، لباس ولایتی لیکن انصاف دیسی


”ورلڈ جسٹس پراجیکٹ“ کے مطابق برطانیہ دنیا میں عدالتی نظام اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے دسواں بہترین ملک ہے اور ان کا مکمل عدالتی و سرکاری نظام انگریزی زبان میں ہے اور وہاں زیادہ تر لباس بھی پینٹ کوٹ اور ٹائی پہنا جاتا ہے۔ پھر بھی سمجھ یہ نہیں آتی کہ یہ دسویں نمبر پر کیوں ہے پہلے نمبر پر کیوں نہیں؟

پاکستان کے دو معزز جج صاحبان کی طرف سے دو مختلف ریمارکس و ہدایات سامنے آئیں۔ ایک جج صاحب نے ڈی سی لاہور کو اس بات سے ڈانٹ دیا کہ عدالت میں قومی لباس پہن کر کیوں آئے تو دوسری جگہ ایک جج صاحب نے ہدایت جاری کی کہ عدالت میں قومی زبان کا استعمال بالکل قابل برداشت نہیں اور آج کے بعد صرف انگریزی زبان استعمال ہو گی۔

اس سے پہلے کہ میں ان دو واقعات کی تفصیل آپ سے شیئر کروں، یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جو اپنی عدالتی کارروائیاں اور احکامات اپنی مقامی زبان میں جاری کرتے ہیں۔ بلکہ ان کے ہاں تو انگلش نہ ہونے کے برابر استعمال ہوتی ہے، زیادہ ترانگلش تب استعمال ہوتی جب کیس کسی بین الاقوامی نوعیت کا ہو۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ انگریزی زبان کا استعمال نہ کر کے بھی بہترین انصاف فراہم کرتے ہیں اور دنیا میں انصاف فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں سرفہرست ہیں۔

”ورلڈ جسٹس پراجیکٹ“ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ( 2019 ) کے مطابق ڈنمارک میں دنیا کا بہترین عدالتی نظام اور قانون کی بالادستی ہے اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ مکمل طور پر اپنی مقامی زبان یعنی ڈینش پر مبنی ہے اور انگریزی صرف اسپیشل ریکوسٹ پر استعمال کی جاتی ہے۔ اسی طرح ناروے دوسرے نمبر پر اور فن لینڈ تیسرے نمبر پر جبکہ سویڈن چوتھے اور نیدرلینڈ پانچویں جبکہ جرمنی چھٹے نمبر پر ہے۔ اور اسی طرح باقی کئی ممالک ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ ”جسٹس سسٹم“ میں سرفہرست ان ممالک میں سے کسی بھی ملک کے عدالتی نظام کی سرکاری زبان انگریزی نہیں ہے۔ لیکن سمجھ سے باہر ہے کہ یہ انصاف کیسے فراہم کر لیتے ہیں حالانکہ یہ لوگ انگریزی بول بھی سکتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں، پھر بھی استعمال نہیں کرتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ انصاف فراہم کر دیں۔ سب سے بڑی بات ان میں سے کسی بھی ملک میں کسی بھی افسر یا عام شہری کے لیے عدالت میں کوئی خاص لباس پہن کر آنا بھی لازم نہیں۔ بس مناسب لباس پہن کر پیش ہوا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود یہ بہترین انصاف فراہم کیسے کر لیتے ہیں، یہ سب سمجھ سے باہر ہے۔

پاکستان جس کی قومی زبان اردو ہے اور قومی لباس شلوار قمیض اس کا عدالت میں استعمال ہمارے معزز جج صاحبان کو نامناسب لگتا ہے اور ان کے انصاف مہیا کرنے کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ لاہور میں کچھ روز قبل ایک انہتائی قابل احترام معزز جج صاحب جناب جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے ڈی سی لاہور مدثر ریاض کو اس بات سے ڈانٹ دیا کہ عدالت میں جو آپ شلوار قمیض اور پشاوری چپل پہن کر آئے ہیں، یہ نامناسب لباس ہے اور آئندہ مناسب لباس پہن کر آئیں جس پر اگلی پیشی میں ڈی سی صاحب انگریزی لباس یعنی پینٹ کوٹ اور ٹائی پہن کر گئے جس پر معزز عدالت نے اظہار اطمینان کیا۔

اسی طرح کچھ روز قبل جناب معزز جسٹس جواد حسن نے، جو بہاولپور بینچ میں تعینات ہیں، کہا کہ ان کی عدالت میں صرف اور صرف انگریزی زبان بولی جائے گی۔ جبکہ 2015 میں سپریم کورٹ آف پاکستان تمام سرکاری اداروں کو اردو کو بطور سرکاری زبان استعمال کرنے کی ہدایت جاری کر چکی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر انگریزی زبان اور لباس کا استعمال ہی اصل انصاف مہیا کرنے کا سبب بنتا ہے تو دنیا کے بہترین عدالتی نظام رکھنے والے ممالک میں اکثریت کی نہ تو سرکاری زبان انگریزی ہے نہ ہی لباس کی کوئی خاص ہدایت ہے۔ پس پھر اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عدالتی نظام کی ریڑھ کی ہڈی لباس اور زبان نہیں بلکہ انصاف ہے۔

نوٹ: ”ورلڈ جسٹس پراجیکٹ“ کی  جاری کردہ رپورٹ ( 2019 ) کے مطابق عدالتی نظام اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے پاکستان ان کی فہرست میں شامل کل 128 ممالک میں سے 120 ویں نمبر پر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).