’غیرت ‘ کے نام پر قتل اور’قصاص ‘ کے نام پر بری


\"khizerنام نہاد غیرت کے نام پر بہن بیٹی کو قتل کر دینا انسانیت کی تذلیل ہے – ہمارے ہاں بہت کچھ بدلنے کے باوجود یہ بھیانک روایت ابھی بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے – اب جب کہ ٹی وی چینل گلی گلی تک پھیل چکے ہیں مگر پھر بھی ایسے بھیانک واقعات کم ہی میڈیا کے سامنے آتے ہیں – اس ایسے قاتل کم ہی قانون کی گرفت میں آتے نہیں ہیں – اور اگر کوئی سامنے آ بھی جائے تو ہمارے ہاں موجود قصاص کے قانون کے تحت کسی مجرم کو سزا نہیں ملتی کیونکہ مدعی اور مدعا الیہ ایک ہی خاندان کے ہوتے ہیں –
ہمارے ہاں قصاص کے قانون کا بھی غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ قران کے مطابق قتل کی صورت میں قصاص صرف اس صورت میں ملتا ہے جب قتل غلطی سے ہو جائے ۔جان بوجھ کر بقائمی ہوش و ہواس قتل کے قصاص کی اجازت قران نہیں دیتا – اب نام نہاد غیرت کے نام پرکئے جانے والے قتل اور ان کا قصاص کا معاملہ تو اور بھی گھمبیر ہو جاتا ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں ایک ہی خاندان سے ہوتے ہیں ۔
غیرت کے نام ہونے والا ماضی قریب کا واقعہ شاید ہماری یادداشت کا سب سے زیادہ انسانیت سوز اور درد ناک ہے- جب لاہور کی ایک شاہراہ پر \’با غیرت \’ بھائیوں نے اپنی مظلوم اور بے بس بہن کو سر عام اینٹیں مار مار کر مار دیا – اور یہ واقعہ تاریخ میں ان بھائیوں کی بر بریت کی وجہ سے ہی نہیں یاد رکھا جائے گا بلکہ یہ وجہ سے بھی کہ ایک سول سوسائٹی کے طور پر ہم شہریوں کا کردار کتنا بے حس اور غیر انسانی ہے – عینی شاہد تماشائیوں نے ان درندوں کے ہاتھ نہ روکے – اس دردناک واقعہ پر سوشل میڈیا میں ایک بڑی پراثر ویڈیو آئی تھی’آج آکھاں وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بول ‘اس پر وسیم الطاف خواجہ صاحب نے بڑی دردناک مگر سچی بات کی تھی کہ کفار مکہ تو بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیتے تھے یہاں ان کو جوان کر کے مارا جا رہا ہے
اسی ویڈیو پر ہمارے دوست طارق چودھری نے یوں لکھا تھا ”
دو دن سے اپنے آپ کو روک رہا تھا کہ اپنے آپ کا خون کیا جلانا مگر بے بس ہوگیا ہوں اپنے آپ سے…. مجھے اس واقعے پر افسوس بہت ہوا مگر پھر حیرانی میں ڈوب گیا- حیران اس بات پر نہیں کہ باپ یا بھائیوں نے ایک با رونق،بھرے بازار پولیس کی موجودگی میں اینٹیں مار مار کر تین ماہ کی حاملہ کو مار دیا۔ جناب میں حیران تھا استین ماہ کی حاملہ پر جو اینٹ کی ہر ضرب پر چیختی تھی اس کی چیخیں کن کے لیے تھیں؟ وہ کن کو مدد کے لئے پکار رہی تھی؟ اس کی چیخوں سے میں کیوں سو نہیں سکا۔میں کیوں اس کا درد محسوس کر رہا ہوں۔ کیوں اینٹ کی ایک ایک ضرب سے میرا دل پاش پاش ہو رہا ہے۔
وہ سارے نامرد جو بازار میں تماشا دیکھ رہے تھے ، ان میں کوئی ایک بھی مرد نہ تھا۔ لہوریو ! تم یہ الزام اپنے سرپر لے کر کیسے چل پھر رہے ہو ؟ کیسے کھا پی رہے ہو ؟ تم تو بڑے بہادر ہواکرتے تھے ایک بیٹی،ایک بہن،ایک ماں اور اس کے بچے کو نہ بچا سکے“۔
اس قسم کے واقعات یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم جو رحمت العالمین رسول ﷺ کے عاشق ہونے کے دعویدار ہیں اور ان کی حرمت پر جان قربان کرنے کے دعویدار ہیں – مگر ہمارے ہاتھ صرف بے بس اور مظلوم لوگوں پر ہی کیوں اٹھتے ہیں؟ جن پر کوئی الزام لگا ہو گستاخی کا اور ہمارے پاس کوئی ثبوت بھی نہ ہو – ہمارے سامنے ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں اور ہم بس دیکھتے ہی رہتے ہیں…. کیا آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ کبھی کسی ایسے ظالم کا ہاتھ کیوں نہیں روکا گیا…. کسی ناجائز منافع خور یا ملاوٹ کرنے والے پر کسی نے دھاوا نہیں بولا ۔ مگر کسی نان مسلم کا گھر جلا کر دھمالیں ڈالنے والے بہت نظر آتے ہیں…. اور ہمارے ملک کا قانون بھی ان کو ہاتھ نہیں لگاتا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments