بھو دیو اور وادی کشمیر


پنڈت کلہن نے تاریخ کشمیر پر اپنی کتاب راج ترنگنی میں ایک دیو مالائی داستان لکھی ہے اور کشمیر کی اس دیو مالائی داستان کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ آج جہاں کشمیر آباد ہے، ہزاروں برس قبل یہاں ایک جھیل ستی سر تھی۔ ساتویں منوں کے زمانے میں ”جلود بھو“ نامی ایک دیو اس جھیل میں رہتا تھا ، اس دیو نے جھیل سے باہر نکل کر لوگوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ یہ دیو ہر طرف تباہی مچا کر واپس جھیل میں چلا جاتا۔ جھیل کے اردگرد لوگ اس دیو سے بہت تنگ آ چکے تھے۔ جب اس دیو کی ان حرکتوں کی خبر کشیپ رشی تک پہنچی تو اس نے دیو کو مارنے کا فیصلہ کر لیا۔

جب کشیپ رشی اس مقصد کے لیے برہما جی کے پاس حاضر ہوا تو برہما جی نے بہت سے دیوی دیوتاؤں کو کشیپ رشی کے ساتھ کشمیر بھیجا۔ جب یہ سب وہاں پہنچے تو دیو جھیل میں گھس گیا اور جھیل کے اندر دیو کو بہت طاقت حاصل تھی ، اس وجہ سے اسے مارنا ناممکن تھا۔ چنانچہ یہ سب جھیل کرم سرس (کوشرناگ) کے قریب نو بندھن چوٹی پر جمع ہو گئے اور دیو کو مارنے کی کوئی ترکیب لڑانے لگے۔ دیو تو پانی سے نہ نکلا مگر انہوں نے بارہ مولا کے مقام سے پہاڑ کاٹ دیا۔ جس سے جھیل کا سارا پانی بہہ گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی دیو کو مارنا آسان ہو گیا کیونکہ دیو کی ساری طاقت پانی کے اندر تھی۔ یوں لوگوں کی دیو سے جان چھوٹی۔

اس دیومالائی داستان کی صداقت تو تاریخ دانوں کے نزدیک اتنی ہی ہے جتنی کسی بھی لوک داستان کی ہوتی ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیر اس دیومالائی داستان کی طرح کسی نا کسی بھو دیو کی زد میں رہا ہے۔ کسی پری کی طرح یہ حسین وادی کسی نا کسی دیو کی ضد بنی رہی۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر طاقتور دیو اس پری پہ فریفتہ رہا اور بڑے حیلے بہانوں سے اس پری کو اپنے قابو میں رکھنے کی سہی کرتا رہا۔ تاریخ اس پری پہ عاشق دیوؤں کو مختلف ناموں سے یاد کرتی ہے۔ کہیں دیو مغل بادشاہ ہے تو کہیں افغان حاکم، کہیں سکھ راجہ تو کہیں ڈوگرہ حکمران۔ وقت کے ساتھ دیو بدلتے رہے مگر پری قید سے نہ نکل سکی۔

یوں یہ سلسلہ جاری ہے اور موجودہ بھو دیو بھارت کی صورت میں کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے۔ کشمیر کے لئے بھارت کا موجودہ حکمران نریندر مودی کم ظرف دیو ثابت ہوا۔ کیونکہ یہ دیو ضد میں ایسے ہتھکنڈوں پہ اتر آیا ہے جو اس وادی کو اجاڑ کر رکھ دیں گے۔ یہ ایک ایسا بدمست دیو ہے جو بس وادی کو اجاڑنا چاہتا ہے۔ ہر کہانی والے دیو کی طرح یہ بھی ایک بدصورت دیو ہے جو پری کے حسن سے متاثر ہو کر اسے اپنی قید میں ڈال لیتا ہے اور پھر وہی پری جو کبھی حسن کی پیکر ہوتی ہے دیو کی قید میں آنے کے بعد اپنا حسن کھو بیٹھتی ہے یا شاید یہ کہنا زیادہ مناسب رہے گا کہ دیو کی بدصورتی اس کے حسن کو ماند کر دیتی ہے۔

کچھ ایسا ہی اثربدصورت دیو بھارت کا اس پری ”کشمیر“ کے حسن پر پڑ چکا ہے اور کشمیریوں کی یہ بدنصیبی ہے کہ صدیوں سے غاصب بھو دیو تو ایک کے بعد ایک آ رہے ہیں مگر پنڈت کی دیو مالائی داستان کی طرح کوئی کشیپ نہیں آیا جو نہتے کشمیریوں کو ظالم بھو دیو سے نجات دلا سکے اور پھر سے کشمیر کی خوبصورت جھیلیں ظالم بھودیو سے پاک ہو جائیں، کشمیر کی فضاؤں میں آزادی کے ترانے سنائی دیں، وہ کشمیر ہمیں بھی دیکھنے کو ملے جس بارے فارسی کے مشہور شاعر شیرازی نے کہا تھا:

”اگر کوئی مردہ پرندہ وادی کشمیر آ جائے تو وہ بھی زندہ ہو جاتا ہے“

اور جس کے حسن سے متاثر ہو کر برصغیر کے مالک و مختار مغل بادشاہ جہانگیر کی دل کی آواز کچھ یوں تھی:
اگرفردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

اور جس کشمیر کی خوبصورتی کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال نے کشمیر کو ایران صغیر کہہ کرپکارا۔
اور ایک انگریز سیاح جارج فاسٹر اس حسیں وادی کی تعریف کچھ یوں کر بیٹھا:
”ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں ملک پرستان کے کسی صوبے میں آیا ہوں“

کاش! وقت کے کسی ”کشیپ“ تک کشمیر پر ”بھو دیو“ کی تباہ کاریوں کی خبر پہنچے اور وہ کشمیریوں کو ”بھو دیو“ سے نجات دلائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).