ارتقائی نظریہ وجود بمقابلہ الہامی نظریہ وجود


انسان ایک سماجی جانور ہے ۔ سماج کے بتدریج ارتقاء کو تاریخ کا نام دیا جاتا ہے۔ جدید دور کا انسانی سماج مذہب، وطن، قوم اور نسلی تفاخر جیسے اجزاء کا مجموعہ ہے، اسی بابت جدید دور کا انسان اپنے مذہب، وطن اور نسلی تاریخ کی کھوج اپنا پیدائشی حق گردانتا ہے۔

اگر مذہبی، قومی اور نسلی تاریخ پر تفاخر کو تمام مذاہب، اقوام اور نسلوں کی حمایت حاصل تو بحیثیت انسان جب انسان یا کائنات کے وجود (تاریخ) کو کھوجنے کی بات کی جاتی ہے تو بالخصوص مذہبی اور بالعموم نسلی و قومی تشخص رکھنے والے گروہوں کی جانب سے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر تمام مذاہب اور اقوام انسان/کائنات کے وجود کی نقطہ آغاز سے تاریخ کو اپنی تعلیمات میں سمیٹ دیتے تو کسی اور ارتقائی نظریہ کا وجود ممکن نہ ہوتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کائنات کے وجود اور نقطہ آغاز کے متعلق اتنا پرجوش کیوں ہے؟

تو اس کا جواب یہ ملتا ہے جب انسان کائنات کے آغاز کا حقیقی وقت اور راز جان لے گا تو اس کو کائنات کے خاتمے کا وقت سمجھنے میں مدد ملے گی۔ کائنات اور انسانی وجود میں چھپے رازوں /دنیاؤں کو ڈھونڈنے سے کسی مذہبی یا قومی تشخص کو نقصان نہیں پہنچتا۔ بلکہ مذہب اور قوموں کی تاریخ میں غیر حل شدہ مسائل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

بحیثیت پیدائشی مسلمان وجود کائنات/انسان کی کھوج میرے لیے پسندیدہ موضوع نہیں رہا، لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے (TV Series Cosmos: A spacetime Odyssey) کا ناظر اور یہودی مصنف ”یوال نوح ہراری“ کی کتاب (Sapiens: A brief History of Humankind) کا قاری ہونے کے باعث اس موضوع کی اہمیت پر سوچنا شروع کیا، ساتھ ہی ناقص علم کے بل بوتے پر اپنی سوچ کو الفاظ کی شکل دے دی۔

یووال نوح ہراری کی اس کتاب پر مملکت ایران نے پابندی لگائی ہے ، اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ” یہ کتاب ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی توثیق کرتی ہے“

ایران جیسے ملک کی جانب سے یہ پابندی فطری رد عمل تھا۔ نظریہ ارتقا جس کو سمجھے بغیر ہر بنیاد پرست مذہبی گروہ اس کو الحاد سے منسوب کرنے کو کوشش کرتا ہے، اس کے پیروکاروں سے کسی مثبت رد عمل کی توقع دیوانے کا خواب ہے۔

نظریہ ارتقا، جس کو سائنس کی مکمل حمایت حاصل ہے، کے مطابق انسان اور کائنات کا وجود بتدریج سائنسی عوامل کے ارتقا کا نتیجہ ہے اس میں کسی بھی قسم معجزاتی یا کرشماتی طاقت کے وجود کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ قدرت (Nature) کو منبع ارتقا قرار دیا گیا ہے۔ سائنس اپنی ترقی کے ارفع مقام پر فائز ہونے کے باوجود نظریہ ارتقا کی چند گتھیوں کو سلجھانے سے قاصر ہے۔

ان گتھیوں کا وجود مجھ جیسے پیدائشی مذہب پرست کو مذہبی تعلیمات میں موجود ان دیکھی معجزاتی یا کرشماتی قوت کی جانب راغب کرتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وجود انسانی اور کائنات کے راز جاننے سے انسان کسی بھی صورت میں مذہب کی تعلیمات کا منکر نہیں ہو سکتا بلکہ کائنات کے وجود پر تحقیق سے انسان کو مذہب میں موجود گتھیوں کو سلجھانے میں مدد ملتی ہے، جن کو فقط ہم نے ایک معجزہ سمجھ کر اپنی تحقیق سے الگ رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).