کریمہ بلوچ کی بہن ماہ گنج کی خود کلامی میں گزری ایک رات


کریمہ بلوچ کو جاننے کے لئے ان کی ماں کو جاننا ضروری ہے اور ان کی ماں کو جاننے کے لئے بلوچستان کو سمجھنا ہوگا اور بلوچستان کو جاننے کے لئے اس المیہ کو جاننا ضروری ہے جو گزشتہ تقریباً سات دہائیوں سے لحد کی شکل میں، گولیوں سے چھلنی دیواروں صورت میں، دشت و صحرا میں نصب گدان (خیمہ)، مزاحمتی گیت، افسانے، بلوچوں کی خیریت پوچھنے کی رسم میں سانسیں لے رہا ہے۔ سات دہائیوں کے دوران پیدا ہونے والے بچوں نے جنگ دیکھی ہے، مظلومیت کی کہانی سنی ہے اور پھر یہی بچے مظلومیت کی شب سے نجات پانے کے لئے بلوچوں کی پولٹیکل باڈی میں پیوست سیاسی بیانیے کے ساتھ بڑے ہوئے ہیں۔

کریمہ بلوچ کی ماں جمیلہ کا تعلق بھی اسی نسل سے ہے۔ ان کا جنم ہی فوجی آپریشن کے دوران ہوا ہے۔ وہ جب 1964 میں اس دنیا آئی تو مسلح بلوچ بغاوت کو کچلنے کی خاطر شروع ہونے والے تیسرے فوجی آپریشن کا ایک سال ہو چکا تھا جو 1969 میں تب ختم ہوا جب وہ پانچ سال کی عمر کو پہنچی۔ جمیلہ کے پہلے پانچ جنم دن توپ، گولی، لاشوں اور سسکیوں کی نذر ہو گئے تھے۔ وہ ابھی جنگ کے نفسیاتی اثرات سے نجات پا ہی رہی تھیں کہ 1973 میں بلوچستان میں چوتھے فوجی آپریشن کا آغاز ہوا جو 1979 تک جاری رہا۔

یعنی جمیلہ نے جنگی حالات میں جنم لیا اور جنگی حالات میں جوان ہوئیں۔ وہ نہ کبھی سکول جا سکیں اور نہ ہی گھر پر لکھ پڑھ سکیں۔ جب میں نے ان سے تقریباً ایک گھنٹے تک بات کی تو یہ سن کر ششدر رہ گیا کہ انہیں بیسویں صدی کے دوران چلنے والی انقلابی تحریکوں اور ان میں حصہ لینے والی شخصیات کے بارے میں کافی معلومات تھیں۔ بلوچی کے علاوہ ان کا کسی اور زبان پر عبور حاصل نہیں لہذا میرے ساتھ ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کرتے ہوئے وہ چند جملوں کے بعد بلوچی میں بولنا شروع دیتی۔ یہ تو بھلا ہو ان کی بیٹی ماہ گنج کا جنہوں نے ترجمہ کر کر کے ہماری گفتگو کو آسان بنایا۔

میں کریمہ بلوچ کی موت کا ان پر اثر اور بیٹی اور ماں کے تعلق پر رپورٹ بنانا چاہ رہا تھا۔ بات کرتے کرتے میری دلچسپی ان کی شخصیت سمجھنے میں بڑھنے لگی۔ باتوں باتوں میں انہوں نے لیبیا کے عمر المختار کی اٹلی کے خلاف جدوجہد کا ذکر کیا، وہ چی گویرا، فیدل کاسترو اور ہوچی منہ کے نام اور کام سے واقف تھیں، انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ کیسے یمن کے ایک انقلابی کا فرانسیسی فوجی سے اپنے وطن کو چھوڑ دینے کے حوالے سے مکالمہ ہوا۔

جب آپ نہ کبھی سکول گئی ہیں اور نہ ہی آپ کو بلوچی کے علاوہ کسی اور زبان پر مکمل دسترس حاصل ہے، تو پھر یہ سب کچھ آپ نے کہاں سے سیکھا؟

اپنی دھرتی پر بار بار ہونے والی جنگ نے انہیں مزاحمت کی طرف مائل کیا، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ان کے لئے سیاسی سکول ثابت ہوا۔ 1982 میں اپنے شوہر محراب عالی کے ساتھ دوبئی منتقل ہوئیں۔ ان کو انقلاب اور مزاحمتی سیاست کا جنون کے حد تک شوق تھا۔ وہ دوبئی میں سارا دن وی سی آر کے سامنے بیٹھ کر ویتنام، کیوبا، الجزائر کے بارے میں دستاویزی فلم دیکھتی رہتی تھیں، کبھی شوہر سمجھا دیتے تو کبھی طویل کہانی خود سمجھ آجاتی۔ جتنا وہ انقلاب اور سیاست کے بارے میں جاننے لگتی اتنی ہی ان کی اس خواہش میں شدت آتی گئی کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت مزاحمتی اور انقلابی جہت پہ کرے گی۔

اس دوران ان کا بیٹا سمیر پیدا ہوا جو اس وقت کینیڈا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، اس کے بعد دبئی ہی میں کریمہ کی پیدائش ہوئی۔ بعد میں ان کے ہاں چار اور بیٹیوں کا جنم ہوا۔ بچوں کے جنم لینے کے بعد پیدائش کے ساتھ ہی ماں نے ان کی سیاسی تربیت شروع کردی۔ وہ انہیں انقلابی اور مزاحمتی تحریکوں کے بارے میں قصے سناتی تھیں، ان کو بلوچوں کی تاریخ اور وطن سے محبت کے بارے میں کی گئی بلوچی زبان کی شاعری اور بلوچ ہیروز حمل، چاکر، بالاچ اور دیگر کے کارنامے سناتی رہتیں۔

انہیں اب بھی وہ واقعہ یاد ہے کہ جب دوبئی میں قیام کے دوران کریمہ کی عمر تین سال کی تھی تو ایک دکاندار نے اس سے شعر سنانے کی فرمائش کی تو اس نے توتلی زبان میں بلوچی زبان کا یہ شعر سنایا تھا،

ماتیں وطن مے لج و میاریں
بستگ کفن ما جنگ تیاریں
ترجمہ: مادر وطن ہماری عزت ہے، ہماری پناہ میں ہے، ہم کفن باندھے جنگ کے لئے آمادہ ہیں۔)

وہ تقریباً چودہ سال گزار کر دوبئی سے واپس آئے۔ 1979 میں فوجی آپریشن کے اختتام کے بعد بلوچستان میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک خاموشی رہی۔ اسی خاموشی کے بارے میں جب بلوچ کمانڈر شیر محمد مری سے ایک انٹرویو کے دوران پوچھا گیا کہ بلوچستان میں مکمل خاموشی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اس خاموشی سے ایک دن طوفان اٹھے گا، ماہ گنج اس وقت کریمہ بلوچ کے پہلو میں بیٹھی تھی جب وہ شیر محمد مری کا یہ انٹرویو دیکھ رہی تھی۔ ماہ گنج کو یاد ہے کہ شیر مری کے اس جملے کو سن کر کریمہ نے کہا تھا کہ وہ طوفان ہم ہوں گے۔

جنرل مشرف کی دور حکومت میں سال 2002 کے اوائل میں بلوچستان میں پھر سے مسلح بغاوت نے سر اٹھایا اور پھر چند سال بعد بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اس وقت کے رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ لاپتہ ہو گئے جس کے خلاف بلوچستان میں جلسے جلوس شروع ہو گئے۔ اس حوالے سے کوئٹہ میں ایک مظاہرہ ہوا جس میں شرکت کر کے کر یمہ بلوچ کی عملی سیاست کا آغاز ہوا۔ اس مظاہرے میں کریمہ کی ماں جمیلہ نے بھی شرکت کی تھیں۔ اس وقت کر یمہ کی عمر 19 سال تھی۔

سنہ 2006 میں ایک کارروائی کے دوران نواب بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچستان میں بغاوت اور فوجی آپریشن میں شدت آ گئی۔ اس کے ساتھ بلوچستان میں جنگ کی تباہ کاریاں پھر سے شروع ہوتی ہیں، لاپتہ افراد، گھروں کی مسماری، بم دھماکے، گرفتاریاں، اغوا کاری اور مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ان حالات میں کریمہ گھر سے نکلتی ہیں اور شہر شہر گاؤں گاؤں جا جا کر کریمہ جلسے جلوس اور پریس کانفرنس کرتی رہتی مگر بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کی ماں جمیلہ ہر موقع پر اس کے ساتھ رہتیں۔

کریمہ سیاسی طور پر جتنی سرگرم رہتی اتنا ہی ان کی زندگی کو درپیش خطرات بڑھتے گئے۔ ایک دن کریمہ نے جلدی جلدی سے سامان باندھ لیا اور کینیڈا جانے کے لئے ماں اور بہن ماہ گنج کے ساتھ کراچی ائرپورٹ پہنچ گئی۔ جنگ ماں اور بیٹی کی جدائی کا سبب بنی۔ جمیلہ نے اپنی بیٹی الوداع کہتے وقت وہ بلوچی کلاسیک شاعری سنائی جو عرب ممالک میں مزدوری کی خاطر گئے بلوچ مزدور اپنے پیاروں کو لکھ کر بھیجا کرتے تھے،

زرت من ء اوماناں کلیرانی
ریدگیں پیش و سیسیگ تلانی
دار ہما اسپ پاشیں چگردانی
ساھگ من ء وش بنت نہ برانی
نیاد من ء وش بنت گہارانی
کل و بادگیر نشارانی
مجلس و دیوان رشتہ دارانی
ملکئے زید وش انت و کوچگے پراہ انت
کوچگ اے میرانی شکار جاہ انت

ترجمہ: مجھ میں کلیروں کو دیکھنے کے شدید تڑپ اٹھی ہے۔
مضبوط اور محکم پیش یعنی کھجور کے پتوں اور آب دار اونچائیوں کی گھاٹیوں کی
اور گھوڑوں سے مشابہ چگرد کی لکڑی کی
اور ان اشجار کی جن کی شاخیں کبھی نہیں کٹی ہیں
بہنوں کے ساتھ
بہووں کے گھر اور بادگیر اور رشتہ داروں کے دیوان و مجلس
میرے وطن کے نظارے حسین ہیں اور وادیاں وسیع
جو میروں ( بلوچوں ) کی شکار گاہ ہیں

ماں کی زبان سے یہ اشعار سن کر کریمہ نے کہا بس کرو امی بس! نہیں تو میں وطن چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔ آپ کو پتہ ہے کہ مجھے اپنی دھرتی سے کتنا پیار ہے مگر میں مجبور ہوں کہ اسے الوداع کہوں۔

ماں نے بلوچی زبان میں دعا دی کہ آپ ملکوں ملکوں گھومو اور پھر زندہ سلامت اپنے وطن کو واپس لوٹ آؤ۔

جمیلہ نے کہا میری دعا شاید خدا تک نہیں پہنچی اور مجھے وہ ایسی حالت میں ملی کہ خدا دشمن کو بھی اپنے جگر کے گوشے اس حالت میں دیکھنا نصیب نہ کریں۔

جمیلہ کو اس دوران صرف اپنی بیٹی ہی کا نہیں بلکہ اپنے چار اور رشتہ داروں کی موت کا صدمہ سہنا پڑا ہے۔ ان کو 2018 میں اپنے ڈیڑھ سال تک لاپتہ رہنے والے بھائی نور احمد کی جنگل میں مسخ شدہ لاش ایسی حالت میں ملی تھی کہ اس کے بدن پر گرم استری کے گہرے نشان تھے، 2011 میں ان کے لاپتہ ہونے والے چچا زاد بھائی کریم جان کی لاش سڑک کے کنارے ملی تھی۔ کریمہ کا چچا اور جمیلہ کا دیور 2007 میں ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا اور کریمہ کا ماموں زاد بیٹا 2009 میں مبینہ طور پر ڈیتھ سکواڈ نے ہلاک کر دیا تھا۔

ان حالات سے گزری کریمہ بلوچ نے اپنی ماں اور بہن ماہ گنج کو کراچی ائرپورٹ پر الوداع کہا۔

ماہ گنج کہتی ہیں کہ جس دن وہ جا رہی تھی تو میں نے اسی صبح ان کے بالوں میں کنگھی کی تھی اور جو بال کنگھی میں الجھ کر رہ گئے تھے وہ آج تک میں نے ان کی نشانی کے طور پر سنبھال کے رکھے ہیں۔

ماہ گنج کریمہ سے ان کی ہاتھوں کی تصویریں بھیجنے کی فرمائش کرتی اور ان سے اپنے ان دوپٹوں کو بھیجنے کا کہتی جن سے کریمہ کے بدن کی خوشبو آتی۔

ماہ گنج اور کریمہ نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا تھا کہ اگر کبھی ملاقات ہوئی تو وہ پوری رات بیٹھ کر خوب باتیں کریں گے لیکن ان کا یہ وعدہ ایسی صورت میں پورا ہوا کہ ماہ گنج ان کی میت کے ساتھ بیٹھ کر ان سے باتیں کرتی رہی۔ ماہ گنج بتاتی ہیں،

”میں ساری رات تابوت میں پڑی کریمہ کی میت کے ساتھ باتیں کرتی رہی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔ میں نے ان کے بدن کو چھوا، لوگوں نے منع کیا مگر میں نہیں مانی، میں نے ان کے بدن پر ہاتھ پھیرا اور پھر اس خوف سے ہاتھ نہیں دھویا کہ کہیں اس سے کریمہ کی رچی بسی خوشبو کہیں جائے نہیں۔ پھر میں سارا دن ہاتھ کو سونگھتی رہتی۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments