شوکت علی کا سوات سے مانچسٹر تک سات سالہ سفر، منزل پر پہنچ کر دم توڑ دیا


شوکت علی کی کہانی شروع کرتے ہیں سوشل میڈیا مہم کے ذکر سے۔ ایسی خبریں اکثر ملتی ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ آپس میں ملتے ہیں لیکن ایسا کم ہوا ہو گا کہ ایک میت کی شناخت کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا گیا ہو جس سے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رابطہ ممکن ہو سکا۔

برطانیہ میں مقیم اور سوات سے تعلق رکھنے والے نور رحمان کا کہنا ہے کہ جب مانچسٹر میں سوشل میڈیا پر ایک پیغام سامنے آیا کہ ’ایک پاکستانی کی میت مانچسٹر کے ہسپتال میں پڑی ہے جس کی شناخت نہیں ہو رہی اور میت کے پاس سے جو کارڈ ملا ہے اس پر اٹلی کی مستقل رہائش لکھی ہے‘ تو انھیں پریشانی لاحق ہوئی۔

نور رحمان نے، جو ان دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں اور سوات اور مانچسٹر میں پختون کمیونٹی کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے رہے ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک مشکل مرحلہ تھا کہ بندہ پاکستانی ہے اور مستقل رہائش اٹلی کی ہے اور پاکستان کے حوالے سے ان کے پاس کوئی شناخت نہیں تھی۔

نور رحمان کا کہنا تھا کہ یہ پیغام سوشل میڈیا اور مقامی واٹس ایپ گروپ پر وائرل ہوا تو ایک ساتھی نے، جن کے رابطے اٹلی میں پاکستانی کمیونٹی سے تھے، برمنگھم کے کچھ لوگوں کے بارے میں بتایا جن سے مدد مل سکتی تھی۔

واٹس ایپ گروپوں اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارموں پر پیغام ایسا پھیلا کہ پاکستان میں بھی لوگوں کی نظروں سے گزرا تو یہاں سے بھی رابطے شروع ہوئے اور پھر اس میت کی شناخت ہو گئی۔

یہ بھی پڑھیے

’شناخت پراجیکٹ‘: ’لاوارث‘ میتوں کو اُن کے اپنوں تک کیسے پہنچایا جا رہا ہے؟

ہزاروں لاوارث لاشوں کو دفنانے والا ’چاچا‘ شریف

شکاری سوشل میڈیا سے خود شکار ہو گئے

سوشل میڈیا کتنا مؤثر رہا؟

پاکستان کے شہر سوات سے اٹلی، پھر اٹلی سے برطانیہ اور برطانیہ میں برمنگھم اور پھر مانچسٹر پہنچتے ہی فوت ہو جانے والے شخص شوکت علی کی شناخت کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کیا گیا اور اس میں پختون کمیونٹی کے ساتھ ہر مذہب اور نسل کے افراد نے مدد کی۔

میت کی شناخت اور پاکستان پہنچانے کے لیے جہاں پشتون کمیونٹی متحرک رہی وہاں مالاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے سکھ نوجوان بھی چندہ مہم میں ان کے شانہ بشانہ موجود رہے جبکہ دیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

ابتدائی طور پر مانچسٹر ہسپتال میں حکام یہ میت اٹلی بھیجنا چاہتے تھے لیکن سوشل میڈیا کی بدولت مانچسٹر میں کڑی سے کڑی جیسے ملتی گئی اور آخر کار میت کی شناخت ہوئی اور میت پاکستان پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔

نور رحمان نے بتایا کہ میت کو پاکستان بھیجنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا، جس میں ان کی کمیونٹی میں شامل تمام اراکین نے مدد کی جس میں سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے ہریندر پراکاش، افغانستان سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں اور دیگر افراد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

انھوں نے بتایا کہ ہریندر پراکاش کو برطانیہ کے شمال میں چندہ جمع کرنے کی ذمہ داری دی گئی جس میں انھوں نے محنت کی اور کمیوٹی کا بھر پور ساتھ دیا۔

صرف یہی نہیں مانچسٹر سے لوگ میت کے ساتھ سوات بھی پہنچے تاکہ میت خیریت سے لواحقین کے حوالے کی جائے اور یہ سارا سلسلہ لگ بھگ دس روز میں مکمل ہوا۔ شوکت علی کی تدفین گزشتہ روز سوات میں کر دی گئی ہے۔

شوکت علی کون تھے؟

شوکت علی بنیادی طور پر سوات کے رہائشی اور پیشے کے لحاظ سے رنگساز تھے جو سوات میں ہی چھوٹا موٹا کام کرتے تھے۔ وہ چھ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور گھرانے کا بوجھ انھی کے کندھوں پر تھا۔

بیشتر ان افراد کی طرح جو بیرون ملک جا کر روزگار حاصل کرنا چاہتے ہیں شوکت علی بھی ایک گروپ کے ساتھ سال 2014 میں یورپ کے لیے روانہ ہوئے۔

جیسے غیر قانونی طور پر لوگ افغانستان، ایران اور ترکی کے راستے یورپ جاتے ہیں شوکت علی بھی بڑی مشکلوں اور تکالیف کے بعد اٹلی پہنچے۔ اٹلی میں بھی مشکلات پیش آئیں اور جیل بھی کاٹی لیکن آخر کار شوکت علی کو اٹلی کی شہریت مل گئی تھی۔

شوکت علی کے کزن عنایت اللہ نے بتایا کہ اٹلی میں حالات خراب ہونے اور برطانیہ کی جانب سے شہریت کے نئے قوانین کی وجہ سے وہ برمنگھم پہنچے اور پھر مانچسٹر آ گئے۔

انھوں نے بتایا کہ شوکت علی کی عمر لگ بھگ چالیس سال تھی اور وہ آخری مرتبہ 2017 میں پاکستان آئے تھے۔ ان کے چھ بچے ہیں بڑی بیٹی کی شادی ان کی وفات سے چند روز پہلے ہوئی۔

عنایت اللہ نے بتایا کہ مانچسٹر میں شوکت علی کو دل کا دورہ پڑا جہاں ان کا علاج ہوا اور سٹنٹ لگائے گئے لیکن اس کے چند روز بعد ہی پھر اچانک طبیعت خراب ہوئی اور وہ انتقال کر گئے۔

مانچسٹر میں وہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ ان کی شناخت مسئلہ بنا تو مقامی لوگوں کو اطلاع ہوئی کہ شوکت علی نامی شخص کی میت ہسپتال میں ہے جس کے پاس صرف اٹلی کی شناخت ہے۔

عنایت اللہ نے بتایا کہ شوکت علی کی وفات سے تقریباً دس روز پہلے ادھر سوات میں ان کی بڑی بیٹی کی شادی ہوئی لیکن شوکت علی اس میں شرکت نہیں کر سکے۔

ان کے بھائیوں کا کہنا تھا کہ شوکت علی ان کے بڑے بھائی تھے اور والد کی موجودگی اور والد کی وفات کے بعد بھی انھوں نے ہی سب گھر والوں کی پرورش کی۔ شوکت علی کے بھائی آصف نے بتایا کہ والد کی وفات کا بہت افسوس ہوا تھا لیکن بڑے بھائی کی وفات کے بعد اب احساس ہوا ہے کہ وہ یتیم ہو گئے ہیں۔

عنایت اللہ نے بتایا کہ شوکت علی کی موت کی بنیادی وجہ معلوم نہیں ہو سکی لیکن ان تک جو اطلاع پہنچی اس کے مطابق سرجری کے بعد شوکت علی کو کام کی اجازت نہیں تھی لیکن چونکہ بیٹی کی شادی کا فریضہ تھا اس لیے شاید وہ کام پر چلے گئے جہاں طبعیت خراب ہوئی اور ان کا انتقال ہو گیا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ موت کووڈ کی وجہ سے ہوئی یا سرجری کی وجہ سے کوئی مسائل پیدا ہوئے۔

پشتون کمیوٹی کے رہنما میاں فضل سبحان اس میت کے ساتھ خود پاکستان آئے اور ان کا مؤقف تھا کہ اس طرح میت بھیجنا مناسب نہیں ہے اس لیے وہ بھی پاکستان پہنچے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی تنظیم حال ہی میں قائم کی گئی ہے لیکن اس واقعے میں ہر رنگ نسل قوم اور مذہب کے لوگوں نے حصہ لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میت پاکستان بھجوانے کے لیے تمام تر کارروائی جس میں چندہ اکٹھا کرنا اور دستاویزات تیار کرنے اور میت پاکستان تک پہنچانے کے تمام انتظامات کرنا تھا اور اس میں سب نے حصہ لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp