دو واقعات اور سپینوزا کا خدا



یہ پچھلے سال نومبر کا ذکر ہے۔ زینب کا داخلہ گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی میں ہوا تو ہم اسے لے کر لاہور پہنچے۔ گو کہ عبد القدوس بھائی کی وجہ سے ہمیں ہر جگہ آسانی ہوئی پھر بھی کاغذات پورے کرتے، فیسیں جمع کرواتے سارا دن کیمپس میں گزر گیا۔ سہ پہر کا آغاز تھا جب ہم سیکرٹیریٹ کے لوئر مال والے گیٹ کے سامنے سے پھوٹنے والی اس سڑک پر پہنچے جہاں جی سی یو کا شعبہ فزکس اور طالبات کا ہاسٹل عائشہ ہال ہے۔ زینب پہلی دفعہ نئی جگہ اور ہاسٹل رہنے جا رہی تھی سو کچھ ڈری سہمی سی تھی۔

یہیں ہاسٹل کے دروازے پر ہمیں سرگودھا کی وہ بچی ملی جو اپنے کاغذات تصدیق کرانے کے لئے پریشان کھڑی تھی کہ لاہور میں کون سرکاری افسر تلاش کرے۔ اتفاق سے میری اہلیہ عالیہ کے پرس میں ان کی سرکاری مہر موجود تھی۔ انہوں نے کاغذات تصدیق کر دیے۔ پتہ چلا کہ وہ بچی سرگودھا سے تنہا آئی ہے کہ ساتھ آنے والا کوئی نہ تھا۔ اس کو دیکھ کے زینب کا حوصلہ سوا ہوا کہ اس کو چھوڑنے پوری فیملی آئی تھی اور اسے کہیں بھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ زینب نے اس کا فون نمبر لے لیا اور اپنا اسے دیا کہ رابطے میں رہیں گے۔

اگلے روز انٹرویو کے نام پر تضحیک آمیز طریقے سے سوال و جواب ہوئے۔ ہاسٹل کے کلرک بادشاہ کرسی پر براجمان تھے جبکہ میں، زینب اور اس کی ماں کھڑے تھے۔ والدین کے بیٹھنے کو کرسی تک نہ رکھی گئی تھی۔ گویا ہم جیل میں داخل کرنے کو لائے جانے والے قیدی ہیں اور اپنے کوائف بتلاتے ہیں۔ اسی شام ہم زینب کے لئے فوم کا گدا لینے کو نکلے۔ پتہ نہ تھا کہاں سے ملے گا، ہوتے ہوتے مغل پورہ شالیمار لنک روڈ پہنچ گئے، وہاں ایک دکان سے گدا خریدا۔

گاڑی کی پچھلی سیٹ پر زینب، زہرا اور امامہ تھیں۔ دکان دار ہمارا کچھ زیادہ ہی ہمدرد تھا۔ بولا ”باؤجی، اک گدے واسطے چنگ چی دا اینا سارا کرایہ بھرو گے، میں گڈی چ فٹ کر دیناں گدا“ اس نے موڑ تروڑ کے پچھلی سیٹ پر بیٹیوں کی گود میں گدا فٹ تو کر دیا مگر تینوں اس طرح دب گئیں گویا سیٹوں پر بیٹھی نہ ہوں، اسٹیکر کی طرح سیٹوں سے چپکی ہوں۔

شدید رش کا وقت تھا۔ جو لوگ لاہور کو جانتے ہیں وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ سیکرٹیریٹ تک پہنچنے میں ہمیں کتنا وقت لگا ہو گا اور پچھلی سواریوں نے کتنی دقت اٹھائی ہو گی۔ زینب کو جو کمرہ الاٹ ہوا تھا، گدا وہاں چھوڑ کر زینب ہمارے ساتھ ہی واپس آ گئی۔ واضح ہو کہ زینب کی دل جوئی اور اسے نئے ماحول کا عادی کرنے کے لئے ہم سب کو ایک ہفتہ لاہور رہنا پڑا۔ زینب دن کو یونیورسٹی تو جاتی مگر رات کو ہاسٹل نہ جاتی، ہمارے ساتھ ہی رہتی رہی۔

تیسری شام تھی جب اسی سرگودھا والی بچی کا زینب کو فون آیا ”ایک لڑکی ڈس ایبل کوٹے پر آئی ہے۔ آج ہی اس نے ہاسٹل جوائن کیا ہے۔ اسے پتہ نہ تھا کہ گدا اپنا لانا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی کوئی نہیں، خود وہ اب کہیں جا نہیں سکتی۔ تم سے پوچھنا تھا کہ تمہارے والا گدا اسے عارضی طور پر دے دوں؟“ زینب نے ہولڈ کروا کے ہم سے پوچھا۔ سب نے کہا عارضی طور پر نہیں، گدا اس کو دے دیں، ہم اور لے آئیں گے۔

اب دوسرا واقعہ

گزشتہ سے پچھلے اتوار کی دوپہر تھی۔ بچوں نے کہا بور ہو رہے ہیں، کہیں لانگ ڈرائیو پر چلتے ہیں۔ بالکل ہی اچانک پروگرام بن گیا اور ہم یونہی بلامنزل، بلا ارادہ باہر نکلے۔ چھاؤنی سے ہوتے ہوئے سیدھے شجاع آباد روڈ پر نکل گئے۔ موٹر وے کا انٹرچینج آیا تو گاڑی ایم فائیو یعنی ملتان سکھر موٹر وے پر چڑھا لی۔ پروگرام یہ بنا کہ کسی ریسٹ ایریا پر رکیں گے، دھوپ میں بیٹھ کر کافی وغیرہ پئیں گے۔ موٹروے پر چڑھنے کے پندرہ سولہ کلومیٹر بعد ایک بڑا ریسٹ ایریا آیا مگر بچوں نے کہا کہ یہاں نہیں ذرا لمبی ڈرائیو کرنی ہے۔ قریب ساٹھ کلومیٹر مزید چل کر جلال پور انٹرچینج سے پہلے جو ریسٹ ایریا آیا وہ بہت ہی ویران اور چھوٹا سا تھا۔ بچوں نے کہا یہ تو بورنگ سی جگہ ہے۔ انٹرچینج سے واپس ہوئے اور ڈھلتی سہ پہر میں اسی ملتان سے پندرہ سولہ کلومیٹر دور والے سروس ایریا پر رکے۔

ایک ریسٹورنٹ کی دھوپ میں بچھی کرسیوں پر بیٹھ چکے تو ایک خستہ حال سا نوجوان آیا ”صاحب گاڑی صاف کردوں؟“ پہلے سوچا ضرورت نہیں پھر پتہ نہیں کیا خیال آیا میں نے کہا کر دو۔ کافی اور سینڈوچ کے انتظار میں جو باتیں ہوئیں ان میں زہرا نے بتایا کہ پچھلے کچھ دنوں سے اسے برے برے سے خواب آرہے ہیں۔ یہ سن کر عالیہ نے بھی کہا کہ انہوں نے بھی کچھ اچھے خواب نہیں دیکھے پچھلے دنوں، سو کچھ صدقہ خیرات دینا چاہیے۔ طے ہوا کہ یہ لڑکا گاڑی صاف کر کے آئے تو اسے دے دیا جائے۔

پیشہ ور فقیروں سے بدرجہا بہتر ہے کہ ہاتھ نہیں پھیلاتا، محنت کر رہا ہے۔ سروس ایریا کی مسجد میں اذان مغرب کی آواز بلند ہوئی تو میں مسجد چلا گیا۔ واپس آیا تو عالیہ نے بتایا کہ جب میں نے اس لڑکے کو پیسے دیے تو پہلے وہ گاڑی صاف کرنے کی اتنی زیادہ مزدوری دیکھ کر ہکا بکا سا ہو گیا اور پیسے لے کر چپ چاپ چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو آنکھوں میں آنسو تھے ”باجی میں شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ رات ہی میرے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ آج میں سوچ رہا تھا کہ بیوی کے لئے کچھ اچھا کھانے کو لے کر جاؤں مگر پیسے نہیں تھے۔ کوئی قبولیت کا وقت تھا جب میں نے یہ خواہش کی۔ آپ آ گئے اور وسیلہ بن گیا“

پچھلے دنوں ایک معاصر کالم نگار جناب یاسر پیرزادہ نے اپنے کالم میں ڈچ فلسفی سپینوزا کے تصور خدا کا ذکر کیا۔ انہوں نے لکھا ”سپینوزا کا خدا کسی انسان کا سرپرست اعلیٰ یا نجات دہندہ نہیں اور نہ ہی یہ خدا انسانوں کی داد رسی کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہے بلکہ یہ ایک ایسا غیر شخصی ’جوہر‘ ہے جو کائنات کو کڑے اور ناقابل تغیر قوانین کے تحت چلاتا ہے، ان قوانین کے آگے کسی دعا اور اپیل کی کوئی گنجائش نہیں، یہ قوانین ہر جگہ اٹل ہیں اور کبھی تبدیل نہیں ہوتے“

یاسر پیرزادہ نے کمال مہارت سے یہ کالم لکھا ہے۔ پتہ نہیں چلنے دیا کہ وہ سپینوزا کے حامی ہیں یا اس کے مخالفین کے۔ مجھے بھی سپینوزا کے تصور خدا پر بھی بات نہیں کرنی، نہ کوئی فتویٰ صادر کرنا ہے۔ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ کون تھا جس نے اتوار کے دن بیٹھے بٹھائے بلاوجہ ہمیں اٹھایا، ڈیڑھ سو کلومیٹر کا چکر لگوایا اور واپس ایک مخصوص جگہ لا کر ایک دوسرے انسان کی ضرورت پوری کروائی۔ اور وہ کون تھا جس نے ایک ڈس ایبل بچی کے سونے کو اس کی آمد سے تین روز پہلے گدے کا انتظام کروا کے رکھا؟

جناب یاسر پیرزادہ نے لکھا ”انسان کے علم کو سپینوزا ناقص قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ علت و معلول کا سلسلہ ہم سے چھپا ہوا ہے ، اس لیے ہم واقعات کی حقیقت جان نہیں پاتے اور یوں انہیں دوسرے واقعات کے ساتھ غلط انداز میں نتھی کر کے دیکھتے ہیں۔“ درست، مگر سوال یہ ہے کہ انسان تو علت و معلول سے ناواقف ہیں کہ یہ سلسلہ ان سے پوشیدہ ہے، کیا سپینوزا خدا سے مل چکا ہے جو ایسے تیقن سے اس کے مزاج و اطوار اور عادات پر بحث کرتا ہے؟

فقیر کا یہ خیال ہے کہ طبعی قوانین، دعا، محنت، تقدیر اور علت و معلول سب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).