یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج مانگا


تھی خبر گرم لہو کے چلیں گے قطرے
دینے ہم بھی گئے پہ تماشا نہ ہوا

آج ایک فیس بک گروپ میں کسی خاتون نے سوال نما پوسٹ داغی کہ ”کیا آپ نے کبھی بلڈ ڈونیٹ کیا؟“ چونکہ سوال ایک خاتون کی طرف سے داغا گیا تھا چنانچہ اس کا جواب از خود ہم پر دینا واجب ہو گیا۔

جتنی دیر میں چند دیگر احباب نے خاتون کی اردو ٹھیک کرواتے ہوئے انہیں سمجھایا کہ بلڈ ڈونیٹ کرنا کچھ نہیں ہوتا بلکہ فلاح کا اصل منبع خون عطیہ کرنا ہوتا ہے تب تک ہم ماضی کی یادوں کے سمندر کو اچھی طرح کھنگال چکے تھے اور اس سیپ سے جو گوہر بے آب برآمد ہوا، ہم نے سوچا کہ آپ سب کو بھی اس کا حصہ دار بنایا جائے۔

یہ قریب قریب پچیس چھبیس سال پہلے کی بات ہے، جب ہم زمانہ طالب علمی کے گزر رہے تھے، ایک دفعہ آدھی رات کے بعد ہمارے دروازے پر دستک ہوئی۔ آنکھیں ملتے ہوئے اور افراد خانہ کی بڑبڑاہٹیں سنتے ہوئے ہم نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک دوست پریشان صورت لیے کھڑا تھا۔

استفسار پر معلوم ہوا کہ اسپتال کے میٹرنٹی وارڈ میں داخل اس دوست کے چچا زاد بھائی کی اہلیہ کا آپریشن ہے۔ اپنی نئی نسل کو دنیا میں وارد کروانے کے لیے اس خاتون کو اغیار کے لہو کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

ہمیں اپنی سترہ اٹھارہ برس کی زندگی میں کبھی بھی خون کا عطیہ دینے کا اتفاق نہیں ہوا تھا اور ہم اپنی صحت کو دیکھتے ہوئے خود کو اس کام کا اہل بھی نہیں سمجھتے تھے لیکن اس رات نہ جانے کس دھن میں ہم نے ہامی بھر لی۔ ہمارے ہاں کرنے کی دیر تھی کہ دوست نے جھٹ ہمیں اپنی موٹر سائیکل کی عقبی نشست پر لادا اور موٹرسائیکل کو ایڑ لگا دی اور ہمیں عطیہ خون کرنے کے لیے اسپتال لے گیا۔

اسپتال تو ہم پہنچ گئے مگر موٹر سائیکل کی عقبی نشست پر اس دس منٹ کے سفر کے دوران ہمیں سوچنے بھرپور موقع ملا۔ اندازہ ہوا کہ جوش میں بھری گئی ہامی سے یو ٹرن لینا ہی بہتر ہے مگر شرمندگی کے باعث اب ہم کچھ کہہ بھی نہیں پا رہے تھے۔

یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس وقت ہم تقریباً پرویز خٹک صاحب جیسی جسامت رکھتے تھے اور ان دس منٹوں میں لہو کے ایک ایک قطرے کی اہمیت اور افادیت ہم پر پوری طرح آشکار ہو چکی تھی۔ ہمارے ذہن نے ہم پر یہ انکشاف کر دیا تھا کہ ہمارے بدن میں اس وقت خون کی کل مقدار ایک بوتل سے بھی کم ہونے کا امکان ہے۔ یہ سوچتے سوچتے ہمارے چہرے کا رنگ اڑتا گیا اور ذہن انتشار کا شکار ہوتا چلا گیا۔

اسپتال پہنچنے پر چند پریشان دکھائی دیتی صورتوں نے مسرت، تحسین اور حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ جبکہ ہم آنے والے وقت کا تصور کر کے باقاعدہ لرز رہے تھے۔ جس خاتون کو اپنی نئی نسل کو دنیا میں لانے کے دوران اغیار کے لہو کی ضرورت متوقع تھی، اس کی ضرورت اور ہماری حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسپتال والوں نے آپریشن کو تین سے چار گھنٹے کے لیے مؤخر دیا تاکہ وہ خاتون اور ہم، دونوں اپنی اپنی ہمت کو مجتمع کر سکیں۔

علی الصبح ساڑھے چھ بجے ایک شخص ہمارے سر پر نازل ہوا ہوا کہ اے مرد مجاہد جاگ ذرا، اب وقت ”عطا“ ہے آیا اور ہم نظر دزدیدہ، بدن لرزیدہ اور جبیں افسردہ کی منہ بولتی تصویر بنے بے بسی سے پتھالوجی لیب میں جا بیٹھے۔

اب جو اس نامعقول شخص نے ہمارا بازو چھیدنا شروع کیا تو چھیدتا ہی چلا گیا مگر خون کا ایک قطرہ تک ہمارے جسم سے برآمد نہ کر سکا۔ یعنی ”جو چیرہ تو اک قطرہ خون کا نہ نکلا“ والی صورت حال تھی۔

بخدا محمود غزنوی کی طرح اس نے بھی پورے سترہ حملے ہمارے ناتواں اور نحیف جسم پر کیے مگر سومنات فتح نہ کر سکا اور چار و ناچار صبح سات بجے اس نے اپنی ناکامی کی بریکنگ نیوز ان الفاظ میں جاری کر دی ”یہ کسے اٹھا لائے ہو، اس کا تو خون ہی خشک ہوا پڑا ہے“ ۔ یہ مژدۂ جاں فزا سننا تھا کہ گویا سوکھے دھانوں میں پانی پڑ گیا اور ہماری جان میں جان آئی۔

تب ہم اس نیکی سے بال بال بچ نکلے تھے۔ بعد میں سمجھ آئی کہ چونکہ وہ اسپتال دریا کے انتہائی قریب واقع ہوا تھا اس لیے یہ نیکی ہم سے سرزد نہ ہو سکی کیونکہ اس کا مقدر دریا برد ہونا بھی ہو سکتا تھا۔

بقائمی ہوش و حواس، برضا و رغبت ہم نے عطیہ خون سات سال پہلے تب دیا جب ہماری عزیز از جان خالہ کے گردوں کی تبدیلی ہونی تھی۔

الحمدللہ، ہمارے عطیہ کردہ خون کی بدولت (جو خالہ جان کو نہیں دیا گیا اور کسی بلڈ بنک کے سرد خانے میں پڑا رہ گیا) آج ہم اس سوال کے اثباتی جواب میں یہ حقیقی داستان لکھنے میں سرخرو ہو گئے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad