سینیٹ انتخاب میں تحریک انصاف کو شکست کا خوف؟


حکومت سینیٹ انتخابات میں دھاندلی کے بارے میں شدید تحفظات اور بے چینی کا اظہار کر رہی ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ موجودہ سینیٹ انتخابات کا آئینی طریقہ ’ہارس ٹریڈنگ‘ کا باعث بنتا ہے۔ اسے تبدیل ہونا چاہئے۔ سینیٹ کی نصف نشستوں پر منعقد ہونے والے انتخاب سے دو ماہ پہلے حکومت اور وزیر اعظم کی پریشانی کا اصل سبب تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپس میں انتشار اور عمران خان کی قیادت پر عدم اعتماد کا خوف بھی ہوسکتا ہے۔

سینیٹ انتخابات یا کسی بھی انتخاب میں شفافیت کی بحث ضرور ہونی چاہئے تاہم یہ کسی بھی جمہوری طریقے میں بہتری لانے کے مسلمہ طریقوں کے مطابق ہو تو بہتر ہے۔ حکومت نے دسمبر سے اس معاملہ پر جیسا جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے، اس سے انتخابی شفافیت کو یقینی بنانے کے شوق سے زیادہ یہ امکان دکھائی دینے لگا ہے کہ عمران خان کو خوف ہے کہ ان کی پارٹی پوری طرح ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس لئے یہ اندیشہ تقویت پکڑنے لگا ہو کہ اگر قانون و آئین میں مناسب رد وبدل کے ذریعے خفیہ رائے دہی کے طریقہ کو’اوپن بیلٹ‘ یعنی ہاتھ کھڑا کرکے ووٹ دینے کے طریقے سےتبدیل نہ کیا گیا تو تحریک انصاف کے ارکان بغاوت کردیں گے۔ اور سینیٹ انتخابات میں پارٹی کی یقینی کامیابی کو مایوسی میں تبدیل نہ کردیں۔

 2018 کے انتخابات میں قومی اسمبلی اور پنجاب و خیبر پختون خوا اسمبلیوں میں تحریک انصاف کی نمائیندگی میں قابل ذکر اضافہ ہؤا تھا۔ اسمبلیوں میں پارٹی کو حاصل کثیر نمائیندگی کی وجہ سے امید کی جارہی ہے کہ اگلے ماہ جب سینیٹ کی نصف نشستیں خالی ہوں گی تو تحریک انصاف کو ایوان بالا میں بھی اکثریت حاصل ہوجائے گی۔ یہ صورت حال دراصل حکمران جماعت کی بجائے اپوزیشن پارٹیوں کے لئے پریشانی کا سبب ہونی چاہئے جنہیں اس وقت سینیٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ یہ اندیشہ موجود ہے کہ سینیٹ میں تحریک انصاف کی اکثریت کے بعد عمران خان کی قیادت میں مرکزی حکومت کے یک طرفہ پارلیمانی دباؤ میں اضافہ ہو اور وہ دونوں ایوانوں میں اکثریت کے بل بوتے پر کسی مشاورت اور افہام و تفہیم کے بغیر ایسے قوانین نافذ کئے جائیں جن سے حکمران جماعت کو سیاسی فائدہ حاصل ہوسکے۔ اس حوالے سے خاص طور سے نیب آرڈی ننس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس قانون میں عالمی روایات کے مطابق مناسب ترامیم کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں لیکن حکومت نے ایسی ہر تجویز کو بدعنوانی سے ’این آر او ‘ لینے کا نام دیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دو روز کے دوران تواتر سے لاہور میں کھوکھر برادران کی املاک گرانے کے واقعہ کو لینڈ مافیا یا قبضہ گروپ کے خلاف حکومت پنجاب کی دلیرانہ کارروائی قرار دیا ہے۔ حالانکہ اس دوران لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کو یہ املاک مسمار کرنے سے روکتے ہوئے مناسب فورم پر معاملات طے کرنے کا حکم دیا ہے۔ پنجاب حکومت نے یہ کارروائی مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی افضل کھوکھر اور رکن پنجاب اسمبلی سیف الملوک کھوکھر کی املاک کے خلاف کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) اسے سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیتی ہے۔ افضل کھوکھر نے حکومت کو چیلنج کیا ہے کہ وہ ثابت کرے کہ یہ املاک ناجائز تجاوزات تھیں۔ تحریک انصاف کی حکومتوں کے اس طرز عمل کی روشنی میں قومی سطح پر دونوں ایوانوں میں پارٹی کی بالادستی اپوزیشن کے لئے ایک نیا چیلنج ہوگی۔ البتہ وزیر اعظم اور تحریک انصاف کی قیادت سینیٹ انتخاب کے بارے میں جیسی عجلت اور بدحواسی کا مظاہرہ کررہی ہے اس سے درون خانہ سیاسی چپقلش اور کھینچا تانی کی پر اسرار کہانی کے رموز کو سمجھا جاسکتا ہے۔

وفاقی کابینہ نے 16 دسمبر کے اجلاس میں سینیٹ انتخابات فروری میں کروانے کا ’فیصلہ‘ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ سینیٹ انتخاب میں رائے دہی کے لئے موجودہ خفیہ ووٹنگ کے طریقہ میں نقائص ہیں۔ اسمبلیوں کے ارکان کو کثیر رشوت دے کر ووٹ خریدے جاتے ہیں جس سے ایوان بالا کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ اس لئے سپریم کورٹ کے مشورہ سے مناسب قانون سازی کی جائے گی۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق کابینہ کو یہ بریفنگ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے دی تھی کہ سینیٹ کی 52 نشستیں اگرچہ 11 مارچ کو خالی ہوں گی لیکن قانون کے مطابق تیس روزقبل ان نشستوں پر انتخاب ہوسکتا ہے۔ تاہم یہ بات حیرت کا سبب تھی کہ ملک میں ہمہ قسم انتخابات کا انعقاد کروانے کی آئینی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان پر عائد ہوتی ہے جو حکومتی اختیار سے باہر ایک خود مختار ادارہ ہے۔ پھر وفاقی کابینہ کیسے سینیٹ انتخابات کی تاریخ کا تعین کرسکتی تھی۔ الیکشن کمیشن نے چند روز بعد ہی ایک بیان میں اس امکان کو مسترد کرکے حکومتی منصوبے کا شیرازہ بکھیر دیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق خالی ہونے والی نشستوں پر 30 روز پہلے انتخاب منعقد نہیں ہو سکتا۔ روایتی طور پر یہ انتخاب مارچ کے پہلے ہفتے میں ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن مناسب وقت پر سینیٹ انتخاب کی تاریخ اور طریقہ کار کا اعلان کرے گا۔

کابینہ کے اسی اجلاس میں سینیٹ انتخاب اوپن بیلیٹ کے ذریعے کروانے کا معاملہ زیر بحث آیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے مشورہ دیا تھا کہ الیکشن ایکٹ کی ضروری شقات میں ایک آرڈی ننس کے ذریعے ترمیم کی جاسکتی ہے۔ اس طرح الیکشن کمیشن حکومت کی خواہش کے مطابق سینیٹ انتخاب اوپن ووٹنگ کے ذریعے کروانے کا پابند ہوگا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس معاملہ میں غلط فہمی سے بچنے کے لئے سپریم کورٹ کی رائے لے لی جائے۔ حکومت نے 23 دسمبر کو آئین کی شق 186 کے تحت سپریم کورٹ سے ایک صدارتی ریفرنس میں اس معاملہ پر رائے طلب کرلی۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بھیجی گئی معروضات میں آئین کا حوالہ دیتے ہوئے اس رائے کو مسترد کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ سینیٹ انتخاب کا طریقہ آئین میں طے ہے۔ اسے تبدیل کرنے کے لئے آئینی ترمیم ضروری ہوگی۔ سیاسی مبصرین اور قانونی ماہرین بھی یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ جو معاملات پارلیمنٹ میں طے ہونے چاہئیں، حکومت کیوں ان میں عدالت عظمی کو ملوث کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

ابھی سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ طلب کررہی تھی کہ گزشتہ روز پارلیمانی امور کے مشیر بابر اعوان نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹ کے ذریعے کروانے کے لئے آئینی ترامیم لانے کا اعلان کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اگر اپوزیشن پارٹیوں نے اس معاملہ پر حکومت سے تعاون نہ کیا تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ دھاندلی کی سرپرستی کرتی ہیں۔ آج وزیر اعظم عمران خان نے ساہیوال میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے تفصیل سے بتایا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ووٹ خریدنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے اور اراکین کی قیمت کا تعین بھی ہوچکا ہے۔ سب سیاسی پارٹیوں کو اس کا علم ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ سینیٹ انتخاب میں ارکان اسمبلی کو خریدنے کے لئے روپے اکٹھے کرنے کا کام بھی شروع ہوچکا ہے۔ اسی لئے وہ اس وہ اس طریقہ کو ختم کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں لیکن قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے شاید وہ آئینی ترمیم منظور نہ کروا سکیں لیکن اس طرح اپوزیشن پارٹیوں کا گھناؤنا چہرہ ضرور سامنے آجائے گا۔

 عمران خان نے کہا کہ 2018 میں تحریک انصاف کے 20 ارکان اسمبلی کو سینیٹ میں پانچ پانچ کروڑ روپے کے عوض اپنا ووٹ بیچنے پر پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ماضی میں انہیں بھی سینیٹ میں ووٹ دینے کے لئے روپوں کی پیشکش ہوئی تھی۔ ان دعوؤں کی بنیاد پر ملک کے وزیر اعظم یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ سینیٹ انتخاب اوپن بیلیٹ کے ذریعے ہونا جمہوریت اور ایوان کے تقدس کے لئے کتنا ضروری ہے۔ لیکن اس روانی بیان میں سیاسی فائدے کے لئے جو معلومات ملک کا چیف ایگزیکٹو فراہم کررہا ہے، ان کی روشنی میں سینیٹ انتخاب کے طریقہ کار سے پہلے بعض دوسرے سوال سامنے آتے ہیں۔ سب سے ضروری سوال تو یہ ہے کہ اگر ماضی میں قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر عمران خان کا ووٹ خریدنے کی پیش کش کی گئی تھی تو کیا انہوں نے پیش کش کرنے والے کے خلاف اسپیکر، الیکشن کمیشن اور پولیس کو مطلع کیا تھا۔ اس مجرمانہ حرکت کے خلاف کون سی باقاعدہ کارروائی عمل میں لائی گئی۔ عوام الناس کو تو ایسے کسی اقدام کی خبر نہیں ہے، اس لئے وزیر اعظم کو اب اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے۔

عمران خان نے اگر ووٹ خریدنے کی کوشش پر کوئی رد عمل نہیں دیا تو یہ کیسے یقین کیا جائے کہ انہوں نے ووٹ فروخت نہیں کیا تھا۔ یا پھر اس معاملہ میں وہ اپنے ہی بیان کے مطابق کم از کم ایک جرم کی پردہ پوشی کے قصور وار تو ٹھہرتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ رشوت کی پیش کش کو ریکارڈ پر نہ لانے والے رکن قومی اسمبلی کے خلاف کس قسم کی کارروائی ضروری ہوسکتی ہے۔ اس ملک میں ایک وزیر اعظم کو اس بنیاد پر نااہل کیا جاچکا ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے وصول نہ ہونے والی تنخواہ کے بارے میں متعلقہ حکام کو مطلع نہیں کیا تھا۔

عمران خان اور ان کی حکومت کے اراکین 2018 میں اپنی پارٹی کے 20 ارکان اسمبلی پر ووٹ فروخت کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ معاملہ بھی پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے طور پر طے کیا گیا تھا۔ لیکن سینیٹ انتخاب میں روپوں کے لئے ووٹ فروخت کرنا پاکستان کے انتخابی اور فوجداری قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ کیا تحریک انصاف نے ان بیس ارکان کے نام اور ان کے خلاف ثبوت الیکشن کمیشن کو فراہم کئے تھے۔ اور کیا خیبر پختون خوا اسمبلی کے اسپیکر کو ان ارکان کے خلاف کارورائی کی درخواست کی گئی تھی۔ اب سینیٹ انتخاب کو انتخابی تقدیس کا معاملہ بنایا گیا ہے تو ضروری ہے کہ تحریک انصاف اس معاملہ میں تمام حقائق ریکارڈ پر لائے۔ بصورت دیگر تو یہی سمجھا جائے گا کہ پارٹی قیادت سے اختلاف کرنے والوں کو نکالنے کے لئے ووٹ بیچنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

سینیٹ انتخاب میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ووٹ دینے کے مجاز ہوتے ہیں۔ اب عمران خان ان ارکان پر بلا تخصیص رشوت لے کر ووٹ بیچنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ان میں قومی اسمبلی کے وہ سارے ارکان بھی شامل ہیں جنہوں نے عمران خان کووزیر اعظم منتخب کرنے کے لئے ووٹ دیے تھے۔ اگر اسمبلیوں کے ارکان اتنے ہی ضمیر فروش ہیں تو کیا عمران خان جیسے شفاف اور ایماندار انسان کو ایسے ’بے ایمانوں ‘کے ووٹوں سے وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہونا زیب دیتا ہے؟

عمران خان اپوزیشن کے مطالبے پر نہ سہی اپنے ضمیر کی آواز پر بطور وزیر اعظم استعفی دے دیں۔ تب ہی ان کی پارٹی کا یہ مؤقف قابل قبول ہوگا کہ وہ صرف منتخب اداروں کے تقدس کے لئے جد و جہد کررہی ہے۔ ورنہ سینیٹ انتخاب کے حوالے سے منعقد کیا جانے والا یہ سرکس سیاسی مفاد پرستی کا حصہ سمجھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali