یانگ لی: وہ نوجوان چینی خاتون جن کے ایک جملے نے ملک کے مردوں کی ناک میں دم کر دیا


Yang Li
Weibo
چین کی 'پنچ لائن کوئن' یانگ لی کے لیے تنازعات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔

یہ 29 سالہ نوجوان اب ملک کے سب سے مشہور کامیڈیئنز میں سے ایک ہیں، جو حالیہ مہینوں میں ایک چینی ٹیلی ویژن شو ‘راک اینڈ روسٹ’سے مشہور ہوئی ہیں۔

ہر ہفتے وہ لاکھوں قومی سامعین کے سامنے اپنی صنف کے متنازع معاملات پر اس انداز سے بات کرتی ہیں جس سے بہت سے چینی ناظرین ناواقف ہیں، یعنی سٹینڈ اپ کامیڈی سے۔

ان کے بہت سے فالورز اور مداح ہیں لیکن ان کی کامیڈی کے انداز میں کسے گئے فقرے یا پنچ لائنز سب کو پسند نہیں آتے اور اب یانگ لی کو اپنے فنکاری کے کیریئر میں سب سے بڑے ردعمل کا سامنا ہے۔

دسمبر میں ٹیلی ویژن کے شو کی ایک قسط میں انھوں نے ایک مرد کامیڈین سے اپنے نئے لطیفے سنانے کے متعلق بات کی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھی کامیڈین نے انھیں جواب دیا کہ وہ ‘ مردوں کے ضبط کی حد کو آزما رہی ہیں۔‘

‘کیا مردوں کے لیے بھی کوئی حد ہوتی ہیں؟’ یانگ نے طنزاً پوچھا، جس کے بعد ان پر تنقید کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

Illustration of feminist under attack by men

چین کے سوشل میڈیا پر انٹرنیٹ استعمال کرنے والے مردوں نے ان پر 'مردوں سے نفرت' اور 'جنس کی بنیاد پر امتیاز' برتنے کا الزام عائد کیا ہے۔

جبکہ دوسری طرف مردوں کے حقوق کا دفاع کرنے والے ایک گروہ نے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے مردوں سے کہا ہے کہ وہ چین کے میڈیا حکام کو یانگ کے متعلق ‘مسلسل مردوں کی تذلیل کرنے’ اور ‘صنف کی بنیاد پر مخالفت کرنے’ کے الزام کے تحت رپورٹ کریں۔

لیکن یانگ کے حامیوں نے ان کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرد نقاد زیادہ حساس ہیں اور ان میں حس مزاح کی کمی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یانگ کے لطیفوں نے چین میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے جہاں خواتین کے حقوق اور سٹینڈ اپ کامیڈی دونوں ہی قدرے نیا رحجان ہیں۔

کیا چین مذاق برداشت کر سکتا ہے؟

ایسا نہیں ہے کہ چینی ثقافت میں مزاح نہیں رہا ہے۔ زیانگ شینگ چینی کی کامیڈی روایت ہے جو ملک بھر میں ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے مقبول ہے۔ اس قسم کے مذاح میں دو کامیڈین ایک دوسرے پر مزاحیہ جملے یا لطیفے کستے ہیں اور سامعین ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

لیکن جب سامعین خود ہی لطیفے یا مزاح کا حصہ بن جائیں، جیسا کہ مغربی سٹینڈ اپ کامیڈی میں ایک معمول ہے تو ایسے میں بہت سے چینی اس کو مزاحیہ تصور نہیں کرتے۔

Chinese women posing for a photo

بیجنگ کامیڈی کلب 'ہیومر سیکشن' کے مالک اور کامیڈین ٹونی چو نے بی بی سی کو بتایا کہ 'مغرب میں سٹینڈ اپ کامیڈی سامعین کو چھیڑنے اور انھیں چیلنج کرنے کے متعلق ہوتی ہے۔'

لیکن ایسی کامیڈی آج بھی چین میں بڑے پیمانے پر بدتمیزی اور بدزبانی کے طور پر سمجھی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر ٹونی چو کا کہنا ہے کہ ایک کامیڈین پر جو ان کے کلب میں پرفارم کر رہا ہے حاضرین میں سے ایک شخص نے حملہ کر دیا کیونکہ انھوں حنان صوبے میں رہنے والے افراد کے متعلق ایک لطیفہ سنایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اس میں اہم بات یہ تھی کہ اس کامیڈین کا اپنا تعلق بھی حنان صوبے سے ہی تھا۔’

ان کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں کچھ کامیڈین اپنی ذاتی رائے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ ایسا صرف اس لیے نہیں کرتے کہ یہ معاشرے میں معیوب بات سمجھی جاتی ہے بلکہ انھیں سیاسی و معاشی طور پر اس کے ردعمل کا خطرہ بھی محسوس ہوتا ہے۔

یانگ لی کے ساتھی کامیڈین ان کے اس نئے تنازع پر منقسیم دکھائی دیتے ہیں۔ چین کی سوشل میڈیا ایپ ویبو پر ایک مشہور چینی کامیڈین شی زی نے ایک پوسٹ ڈالی جو بعد میں ایک ہیش ٹیگ ٹرینڈ بن گئی اور اسے دس کروڑ مرتبہ سے زیادہ بار دیکھا گیا ہے۔ اس میں شی زی کا کہنا تھا کہ ‘یانگ اصل سٹینڈ اپ کامیڈی نہیں کر رہی ہیں۔’

لیکن چینی نژاد امریکی کامیڈین جو وانگ نے کہا کہ وہ یانگ کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ مزاح ‘پسماندہ افراد کو استحقاق پانے والوں کا مذاق اڑانے’ کا موقع فراہم کرتا ہے۔

‘جارح مزاج فیمینسٹ ‘

لیکن اس تنازع کا پچیدہ مسئلہ چین میں خواتین کے حقوق کے لیے مشکل راستے کا ہے۔

حالانکہ یانگ لی نے کبھی عوامی سطح پر اس بات کا اعلان نہیں کیا کہ وہ حقوق نسواں کی علمبردار یا فیمنیسٹ ہیں لیکن ان کے آن لائن نقادوں نے انھیں اور ان کے ہزاروں حامیوں کو ایک نیا نام ‘ملیٹینٹ فیمنسٹ’ دیا ہے۔

‘نو قوان’ جس کا مطلب چینی زبان میں حقوق نسواں کی حامی یا فیمنیزم ہے۔

انٹرنیٹ صارفین نے چینی لفظ ‘قوان’ جس کا مطلب حقوق ہے کو ایک ہم صوت لفظ سے تبدیل کر دیا ہے جس کا مطلب ‘مٹھی’ ہے جو فیمنسٹ کے لیے ایک برا لفظ ہے۔

ایک 23 سالہ کالج طالب علم جو یانگ لی کا آن لائن نقاد ہے نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘یہ متشدد فیمنیسٹ غیر معقول ہیں اور یہ ہر جگہ گھونسے مار رہے ہیں اور بے وجہ مراعات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔’

بیجنگ میں مقیم قانون کے پروفیسر اور کامیڈین چو ین نے ویبو پر کہا کہ ‘مغرب کی صنفی سیاست’ کام کرنے والے متوسط طبقے کے اتحاد کے لیے ‘خطرہ ہے اور ‘مردوں کے خلاف نفرت’کا باعث بنے گی۔

اسی دوران یانگ لی کے حامیوں کا موقف ہے کہ اس تنازع کے رد عمل نے یانگ کے بہت سارے لطیفوں میں اس بات کو ثابت کیا ہے کہ خواتین کا نظریہ اکثر ان لوگوں کے ذریعہ خاموش کرا دیا جاتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مرد خواتین سے اعلیٰ ہیں۔

روایتی صنف کے کردار چین میں بڑے پیمانے پر غالب ہیں اور مرد اور خواتین دونوں ہی اپنے حصے کے کردار ادا کرنے کے لیے سماجی دباؤ میں ہیں۔

چینی خواتین کے حقوق کی کارکن ژیانگ جنگ کا کہنا ہے کہ مرد بھی ان صنفی دقیانوسی تصورات کا شکار ہیں۔

مثال کے طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں غیر شادی شدہ مردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، وہاں پر بھی مردوں کو شادی کے لائق سمجھے جانے سے پہلے گھر اور گاڑی خریدنی ہوتی ہے اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر کا خرچ چلائ

وہ کہتی ہیں کہ ‘بہت سے مردوں کو بھاری توقعات کا سامنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ڈپریشن اور منفی جذبات ابھرتے ہیں۔ مگر انھیں سوچنا ہوگا کہ بنیادی طور پر کس چیز کو تبدیل کیا جانا ہے۔’

لو پن ایک معروف چینی فیمنسٹ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں چین میں مختلف قسم کے سیاسی اور سماجی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔ ‘چین کے پدر شاہی نظام میں فیمنسٹوں کے مقابلے میں ان کے ناقدین کو حکام کی جانب سے زیادہ حمایت حاصل ہے۔’

Woman in China holding up a MeToo sign

جہاں فیمنسٹوں نے ملک میں صنفی اعتبار سے رائج عقائد اور رجحانات کو چیلنج کیا ہے، وہیں حکام نے ان پر سماجی عدم استحکام پھیلانے کا الزام بھی لگایا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ چینی حکومت کے نشانے پر بھی ہیں جنھوں نے سماجی استحکام کو اپنی اولین ترجیح بنایا ہوا ہے۔

سنہ 2015 میں پانچ چینی فیمنسٹوں کو سات ہفتوں کے لیے قید کیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے پبلک ٹرانسپورٹ پر جنسی ہراسگی کے خلاف مہم چلانے کا منصوبہ بنایا تھا۔

دو سال قبل سنہ 2018 میں فیمنسٹ وائسز نامی فیمنٹس تنظیم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو متعدد بار آف لائن کیے جانے کے بعد سینسر کیا گیا تھا۔

گذشتہ دسمبر میں جب ایک چینی عدالت نے ایک ہائی پروفائل کیس کی سماعت کی تو ریاستی میڈیا نے اسے کوور نہیں کیا۔ اس خاموشی کے دوران ایک چینی سوشل میڈیا پر کچھ بااثر اکاؤنٹس سے یہ الزام لگایا گیا کہ اس تنازع میں غیر ملکی عناصر ملوث ہیں۔

لو کہتی ہیں کہ ‘بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ چینی فیمنٹس غیر ملکی فورسز کے لیے کام کر رہے ہیں۔’ انھوں نے سوال کیا کہ ‘یہ الزامات اتنے موثر کیوں ہوتے ہیں؟’ اور خود ہی جواب دیا کہ ‘ایسا اس لیے ہے کہ وہ حکومت کے بیانیہ کی توثیق کرتے ہیں۔’

اور اس سیاق و سباق میں ینگ لی کے جملے نے تنازع برپا کر دیا۔

اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ کیا حکام نے اس سلسلے میں باضابطہ تفتیش شروع کر دی ہے۔ جس اکاؤنٹ سے کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف رپورٹ کی جائے اسے ہٹا دیا گیا ہے۔

ادھر ینگ لی نے بی بی سی کی جانب سے سوالات کا جواب نہیں دیا ہے۔

مگر حال ہی میں انھوں نے سوشل میڈیا پر کہا ہے کہ ‘یہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔۔۔ اس صنعت میں اب کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔یں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp