مولوی احمد اللہ شاہ کون ہیں جن کے نام پر بابری مسجد کی تعمیر نو میں ریسرچ سینٹر بنانے پر غور کیا جا رہا ہے؟


انڈیا کے شہر ایودھیا میں رام جنم بھومی اور بابری مسجد پر دہائیوں سے جاری تنازعے کا اختتام سنہ 2019 کے اخیر میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہوا جس کے تحت ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر شروع ہو چکی ہے جبکہ دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایودھیا میں بھی پانچ ایکڑ اراضی پر ایک مسجد کی تعمیر کی بھی بات کہی گئی تھی۔

اس مسجد کو کیا نام دیا جائے، اس کے متعلق ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ تاہم اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اس مسجد کا نام مولوی احمد اللہ شاہ کے نام پر رکھا جاسکتا ہے۔

خبروں کے مطابق ایودھیا میں مسجد بنانے کے لیے اتر پردیش (یو پی) سنی سینٹرل وقف بورڈ کے انڈین اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن (آئی آئی سی ایف) میں اس مسجد کا نام مولوی احمد اللہ شاہ کے نام پر رکھنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

تاہم آئی آئی سی ایف ٹرسٹ کے سکریٹری اطہر حسین نے بی بی سی ہندی کو بتایا ہے کہ اس میں کچھ ابہام پیدا ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا لال قلعہ جس کے قبضے میں ہو، ہندوستان اس کا ہے؟

ایودھیا میں نئی مسجد: ’یہ انسانیت اور خدا دونوں کی خدمت ہے‘

ایودھیا: مندر کی تیاری عروج پر، مسجد سست روی کا شکار

ایودھیا میں ’نئی بابری مسجد‘ کیسی ہو گی، اس کے آرکیٹیکٹ کون ہیں؟

حسین نے کہا: ‘دراصل اس مسجد کا نام مولوی احمد اللہ شاہ کے نام پر نہیں رکھا جارہا ہے۔ بلکہ اس کے احاطے میں تعمیر ہونے والے ہند اسلامی ثقافتی تحقیقی مرکز کا نام مولوی احمد اللہ شاہ کے نام پر رکھنے پر غور کیا جا رہا ہے۔’

آئی آئی سی ایف کے سکریٹری اطہر حسین کے مطابق: ‘مسجد کمپلیکس میں تعمیر کیے جانے والے ہند اسلامک کلچرل ریسرچ سینٹر میں ایک لائبریری، میوزیم اور ایک پبلشنگ ہاؤس بھی شامل ہوگا۔’

واضح رہے کہ انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن ٹرسٹ پہلے ہی اس مسجد کا ڈیزائن جاری کر چکا ہے۔

جدید ڈیزائن والی مسجد کے ساتھ، اس کمپلیکس میں 200 بستروں پر مشتمل ایک سپر سپیشلٹی ہسپتال، ایک میوزیم اور آرکائیول سینٹر بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ اس میں لائبریری اور ایک کمیونٹی کچن بھی بنایا جائے گا۔

ایودھیا کے گاؤں دھننی پور میں مسجد کی تعمیر 26 جنوری سے پودا لگا کر علامتی طور پر شروع ہو گئی ہے۔

مولوی احمد اللہ شاہ کے نام پر غور کرنے کی وجہ

ثقافتی تحقیقی مرکز کی توجہ بنیادی طور پر سنہ 1857 کے انقلاب اور 1947 میں آزادی کے حصول تک کی تاریخ پر منبی تحقیق ہوگی۔

حسین کہتے ہیں: ‘جب مہاتما گاندھی سنہ 1919 میں لکھنؤ آئے تھے تو وہ مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے ہاں چھ ماہ تک رہے تھے۔ اس وقت اودھ میں کسان تحریک چل رہی تھی۔’

حسین کہتے ہیں کہ ‘آزادی کی تحریک ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ جدوجہد ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ چیزیں لوگوں کے سامنے آئیں۔’

کہا جاتا ہے کہ سنہ 1857 کی پوری جدوجہد میں مولوی احمد اللہ فیض آباد خطے میں سب سے بڑی شخصیت تھے اور اسی تحریک کے لیے انھوں نے اپنی جان قربان کردی تھی۔

حسین نے کہا: ‘ایسے میں جب ہم فیض آباد-ایودھیا میں ثقافتی تحقیقی مرکز تیار کررہے ہیں تو ان کے نام سے بہتر اور کیا ہوسکتا تھا۔’

احمد اللہ شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے نے نانا صاحب، تانتیا ٹوپے کے ہمراہ بہت سے محاذوں پر جنگ کی۔ خاص طور پر لکھنؤ اور اودھ کے خطے میں ہونے والی تمام جنگوں میں احمد اللہ شاہ نے ہی قیادت کی۔

تاہم یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کے سی ای او سید محمد شعیب نے کہا ہے کہ ریسرچ سینٹر کے نام کے حوالے سے ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔

مولوی احمد اللہ شاہ کون تھے؟

مولوی احمد اللہ شاہ سنہ 1857 کی ناکام بغاوت کا ایک اہم کردار رہے ہیں۔ انگریزوں کے خلاف جنگ میں انھوں نے اپنے جان کی قربانی دی۔

مورخ رام شنکر ترپاٹھی ان کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘احمد اللہ شاہ ایک سپہ سالار تھے۔ وہ ہاتھی پر ہودے میں بیٹھ کر چلتے تھے۔ ان آگے ایک ہاتھی چلتا تھا، جس پر ایک ڈنکا (ناگاڑا) بجایا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کا نام ڈنکا شاہ تھا اور زیادہ تر لوگ انھیں اسی نام سے جانتے ہیں۔’

وہ فیض آباد کے مولوی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ مولوی احمد اللہ شاہ نے لکھنؤ، شاہجہان پور، بریلی اور اودھ کے دیگر علاقوں میں تحریک کی قیادت کی اور اسی وجہ سے باغیوں کو بہت سی جگہوں پر انگریزی فوج کو شکست دینے میں کامیابی بھی ملی۔

ترپاٹھی مولوی احمد اللہ شاہ کے بارے میں ایک اور اہم بات بتاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ احمد اللہ شاہ نے سنہ 1857 کے انقلاب میں کبھی بھی لوگوں کو اسلام کے نام پر جمع نہیں کیا۔ بلکہ انھوں نے لوگوں کو مادر وطن کے نام پر جدوجہد کرنے کے لیے متحد کیا۔ اسی وجہ سے انھیں گنگا – جمنی تہذیب کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

ترپاٹھی کہتے ہیں کہ ان کی فوج میں ہندو اور مسلم دونوں مذاہب کے سردار تھے۔

انھوں نے فیض آباد کی مسجد سرائے کو اپنا ہیڈکوارٹر بنایا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے فیض آباد اور اودھ کے ایک بڑے حصے کو انگریزوں سے آزاد کرا لیا تھا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جنگ میں انھیں ایک بہترین جنرل کے طور پر دیکھا گیا۔ اگرچہ انھوں نے فوجی تربیت نہیں لی تھی لیکن انھوں نے کانپور سے لکھنؤ اور دہلی سے بریلی اور شاہجہاں پور تک انگریزوں کے خلاف جنگ میں بہادری سے جنگ کی۔

کہا جاتا ہے کہ ان کا نام انگریزی افواج میں خوف و ہراس کی لہر پیدا کرتا تھا۔ لکھنؤ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو شکست دینے میں احمد اللہ شاہ کی قیادت اور بہادری کے چرچے عام ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ وہ سنہ 1787 میں مدراس (اب چینئی) میں پیدا ہوئے تھے اور بچپن میں ان کا نام سکندر شاہ رکھا گیا تھا۔

شہادت کیسے ہوئی؟

شاہجہاں پور کی پوائياں ریاست کے راجہ نے مدد کے لیے مولوی احمد اللہ شاہ کو بلایا۔ بادشاہ انگریزوں سے مل گئے اور انھوں نے احمد اللہ شاہ کو قتل کروا ڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے سر اور جسم کو شاہجہاں پور میں مختلف مقامات پر دفن کیا گیا تھا۔

ترپاٹھی نے بتایا: ‘شاہجہان پور کے جگناتھ سنگھ نے دھوکے سے انھیں قتل کر دیا تھا۔’

اطہر حسین کہتے ہیں کہ پوائياں ریاست کی عوام نے جن میں ہندو، مسلمان سب شامل تھے انھوں نے راجہ کے اس عمل کی سختی سے مخالفت کی تھی۔ یہاں تک کہ آج بھی انھیں حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ان کا قتل پانچ جون سنہ 1858 کو ہوا تھا۔

بابری مسجد کی جگہ نئے ریسرچ کمپلیکس کی مخالفت

آئی آئی سی ایف کے سکریٹری اطہر حسین نے کہا کہ یوم جمہوریہ کے علامتی دن کے موقع پر میں مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا ہے۔

انھوں نے کہا: ‘ہم نے پھلدار درخت کا پودا لگا کر کام شروع کیا ہے۔ ہم اسے دنیا میں جاری موسمیاتی تبدیلی سے بھی جوڑنا چاہتے ہیں۔’

تاہم مسلمانوں کی بڑی تنظیم، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بابری مسجد کی جگہ اس مسجد کی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔

بورڈ کے ممبر ظفریاب جیلانی نے اس مسجد کو وقف ایکٹ کے خلاف اور ‘شریعت کے منافی’ قرار دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp