تعلیم گاہیں طالبات کے لباس کیوں ناپتی ہیں؟


ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب اس ملک میں ایرے غیرے بڈھے اور ان کے پسر جو سر پر چڑھے ہوئے ہیں، ملک کی عورتوں پر مذہبی اور روایتی اقدار کی پھلجھڑیاں نہ برسائیں۔ ان سر پر چڑھے پدر سروں اور ان کے پسروں کے ہمراہ کبھی کچھ طاقت کا جھوٹا پیراہن پہننے دختران قوم بھی کھڑی پائی جاتی ہیں۔ ان کا گمان ہے کہ کسی عورت کے سر سے سِرکا ہوا آنچل ان کے ایمانوں اور اقدار میں بگاڑ پیدا کر سکتا ہے۔ تعجب ہے کہ عورت کا شانوں پر پڑا دوپٹہ کیسے کسی کی قبر کے امتحان بڑھا سکتا ہے؟

ان کو ایذا پہنچتی ہے جب فرانس و ہسپانیہ کے مرد وہاں کے شہریوں کے من چاہے لباس پر پابندی لگاتے ہیں، ان کو اس بابت ٹھیس پہنچتی ہے کہ وہاں پر لوگ عورت کے حجابوں پر قانون سازی کرتے ہیں۔ ان کو ویسا اضطراب تب نہیں ہوتا جب یہاں کی درس گاہوں میں خواتین کے لباس سے متعلق ضابطہ سازی کی جاتی ہے۔ یہ آنچلوں اور قمیضوں کی ساخت اور ان کی جغرافیائی حدود طے کرتے ہوئے شرمسار نہیں ہوتے ہیں۔

انہیں طالبات کی حرمت کی اس قدر فکر لاحق ہے کہ ان کے کپڑوں کا ذکر سنڈیکیٹس اور اسلامی کونسلوں میں کیا جاتا ہے۔ کوئی قمیض کس قدر طویل ہو، انگیا پر پھول ہوں نہ ہوں، لباس کا رنگ کیا ہو، لباس کون سا ہو، قومی ہو یا عقائد کو جلا بخشنے والا ہو۔ ان کا یہ رویہ واضح کرتا ہے کہ ان کی نیتوں میں فتور اور سوچوں میں کمتری کا احساس ہے۔

اذان کے وقت مسجد کی مخالف سمت جانے والے اس ملک کے غلیظ بڈھے لڑکیوں کے آنچلوں پر نظریں جمائے رہتے ہیں کہ کب وہ سِرکیں اور یہ اپنے نہ اٹھائے جانے والے عقائد کا بوجھ عورت پر ڈال دیں۔ خدا تعالیٰ کے نام پر خدا ہونے کا گماں رکھنے والوں کے چہرے دیکھنے ہوں تو اس ملک کے خاندانی نظام، چوراہوں، منبروں اور اب تعلیمی درس گاہوں میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

موجودہ دور میں عورت کو دہشت زدہ کرنے کا جو کھیل تعلیم گاہیں کھیل رہی ہیں،  اس سے یہ نکتہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے عورت دشمن اعتقادات کی کل کائنات ہی نسوانی لباس اور بدن ہے۔ عربوں کے ثقافتی لباس جلباب المعروف برقعے سے اس قدر جنونی لگاؤ سے یہ خدشہ ہے کہ آنے والے کچھ وقت میں عرب سرزمین کے مقامی لباس جلباب کی یہاں پرستش نہ شروع ہو جائے۔

عرب سر زمین اور وہاں کے لباس سے عقیدت بھی فقط خواتین تک ہی محدود ہے۔ مردوں کو کہا جائے کہ وہ بھی عقیدت اور محبت میں توپ(جبہ) پہننے کا اعزاز حاصل کریں تو ان کے منافقانہ چہرے لائق دید ہوتے ہیں ۔ یعنی عقیدت کی حد ہے تو عورت کے لئے ہے حالانکہ ہزاروں واقعات ثابت کر چکے کہ عورت کی حفاظت کا تعلق مجرموں اور مجرمانہ پدرسری سے ہے نہ کہ ان لباس سے۔

بالغ اور سمجھدار یونیورسٹی طالبات سے ناروا سلوک ثابت کرتا ہے کہ درس گاہیں تعلیم نہیں جبر سکھا رہی ہیں۔ جامعات کا طالبات پر ایسی غیر منطقی پابندیاں لگانا سچائی سے آنکھیں چرانا ہے ، طالبات کے ساتھ بے توقیری کا رویہ روا رکھنے والی درس گاہیں اعلیٰ تعلیمی مراکز قرار نہیں دی جا سکتیں۔

درس گاہوں میں تعلیم کے معیار اور سہولیات کی جانب عدم توجہی یہاں کا معمول بن چکا ہے۔ ہزارہ یونیورسٹی کی نصابی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی 12500 درسگاہوں میں اس کا عدد آٹھ ہزار چار سو تیرہواں ہے۔ جبکہ غیر ملکی لباس جلباب طالبات پر لاگو کرنے والی باچا خان یونیورسٹی کا شمار 12500 درس گاہوں میں نو ہزار آٹھ سو اٹھارہواں ہے۔

پاکستان کی تمام جامعات اگر طلبہ کی تعلیم، سہولیات اور مسائل پر بلا امتیاز اور بلا صنفی تفریق توجہ مبذول کریں تو شاید علمی کی دنیا میں ہماری جگ ہنسائی میں کچھ کمی واقع ہو سکے۔ کبھی کسی طالب علم کی جان ناقص مواد سے تعمیر کی گئی عمارت کے گرنے سے ہوتی ہے اور کبھی کوئی طالب علم احتجاج میں قتل کر دیا جاتا ہے ، اور اس سب سے یونیورسٹی انتظامیہ کو رتی برابر فرق نہیں پڑتا۔ انسانوں کی جان کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہیں،  خواہ وہ بحریہ کی طالبہ ہو یا یو ایم ٹی کا طالب علم۔

ان تمام بدحالیوں اور بدانتظامیوں پر مبنی واقعات کے بعد بہتری کی بجائے ان جامعات کی عورت دشمنی اور علم دشمنی بڑھتی جا رہی ہے۔ جب درس گاہیں بالغ انسانوں کو بدترین رویوں اور پابندیوں کا شکار بنائیں گی تو وہ اعلیٰ تعلیمی دانش گاہیں کہلانے کی لائق نہیں رہتیں۔شرم و حیا کے نوٹس طالبات کو جاری کرنے سے کہیں بہتر ہوتا کہ اپنے مرد اساتذہ، اسٹاف اور طلبہ کے منفی رویوں کو قابو میں کیا جاتا، انہیں کچھ صنفی برابری کے اصول سکھائے جاتے، کچھ جنسی بدتہذیبوں کو ختم کیا جاتا۔

جامعات کی انتظامیہ اور ان کی مقتدر اعلیٰ کے کردار اور سوچ میں موجود خودسری اور پدرسری پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے تاکہ طالبات بحیثیت آزاد شہری زندگی سکون سے گزار سکیں اور ان کی جانیں اور مستقبل محفوظ رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).