عمران خان: ایک جنگجو اور دلیر کپتان


تاریخ انسانی ایسے بے شمار ہیروز سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی زندگیوں میں چند ایسے کام کر ڈالے کہ جن کا تصور بھی محال تھا۔ بعض کے اٹھائے گئے اقدامات نے آئندہ آنے والی نسلوں کو صدیوں تک اپنے کاموں کے ثمرات سے سیراب کیا اور کچھ کے فیصلوں نے انسانی تاریخ کا دھارا ہی بدل ڈالا۔ انہوں نے زمانے کوایک نئی سوچ بخشی اور ان دیکھی منزلوں کے لیے نئے راستے دریافت کیے ۔ مگر یہ وقت بہت ظالم ہے اس نے کسی کو بھی ہمیشگی کی زندگی کا ذائقہ نہ چکھنے دیا اور آب حیات پلائے بغیر ہی سب کو اگلے جہان روانہ کیا۔

بے شک جن کی زندگی دوسروں کے لئے آسانیاں ڈھونڈنے میں بسر ہوئی ہو، خدا کبھی ان کی جھولی خالی نہیں رکھتا۔ پاکستانی قوم کا آج کا ہیرو عمران خان ہے جس نے ملک دشمنوں کے خلاف اعلان بغاوت بلند کر رکھا ہے بلکہ دیکھا جائے تو یہ ایک طرح سے اعلان جنگ ہے مگر یہ اعلان جنگ کس کے خلاف ہے؟ آپ جان لیں کہ یہ جنگ انصاف اور ظلم کی ہے، قانون کی حاکمیت اور لاقانونیت کی ہے، ایمان دار اور بے ایمان کی ہے، اصول پسندی اور بے اصولی کی ہے، حسینیت اور یزیدیت کی ہے، غرباء اور امراء کی ہے، عوام و خواص کی ہے، جمہوریت اور بادشاہت کی ہے، میرٹ اور اقربا پروری کی ہے، منصفانہ تقسیم اور لوٹ مار کی ہے، انسانیت اور حیوانیت کی ہے، صبر اور جبر کی ہے، جزا اور سزا کی ہے۔

اگرچہ ہمارے ملک میں پھیلی کرپشن اور اس سے وابستہ طاقتور افراد کو گرفت میں لانا، جوئے شیر لانے کے مترادف تھا مگر ہمارے کپتان نے اپنی قوم سے بس ایک ہی وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنائے گا اور پاکستانی قوم کو ساری دنیا میں عزت والا مقام دلائے گا۔ اس کے بعد لڑاکے اور جنگجو کھلاڑی نے اس چیلنج کو بھی اپنی زندگی کے دیگر چیلنجوں کی مانند قبول کر لیا۔ بس پھر کیا تھا، کوئی کہتا ”ابھی سب محاذ کھولنا عقلمندی نہیں“ ، ایک صدا سنائی دیتی ”کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر فیصلہ کرو“ ، کوئی بولتا ”مناسب وقت کا انتظار کرو“ ، ایک کونے میں کھڑا کوئی کہتا ”چوروں اور لٹیروں کے ساتھ سودے بازی کر لو“ ، فاصلے سے آوازگونجتی ”ادھر ہم، ادھر تم والا فارمولہ“ بہترین حکمت عملی ہے۔

مگر نیازی خاندان کا چشم و چراغ جو نہ کبھی کسی کے سامنے جھکا تھا اور نہ کبھی مصلحت کا شکار ہوا تھا۔ بس ایک جنون اور ایک سوال ”میں اپنے رب کو کیا جواب دوں گا“ ؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان سے پہلے والے سب حکمرانوں کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے ہم کسی کھڑے سائیکل پر بیٹھے پیڈل زور زور سے مارتے ہوئے خوب زور لگائیں، ہلکان ہو جائیں، سانس بھی پھول جائے مگر سائیکل اپنی جگہ سے نہ ہلے اور ہماری ساری ریاضت اور محنت ضائع ہو جائے۔

لمبے عرصے سے اس کھڑی سائیکل پر ڈھیر مشقت کرنے کے بعد بھی ہم وہاں ہی کھڑے ہیں جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔ دراصل کوئی بھی حکمران، ملک کے وسائل پر قابض گروہ کا احتساب کرنے پر راضی نہ تھا اور نیب کے ادارے کے ساتھ مل کرعدل و انصاف کے ا س نام نہاد ڈرامہ میں حیلے بہانے سے کام چلایا جا رہا تھا۔ براڈ شیٹ کا کیس اس کی بہترین مثال ہے۔ دوسری مثال چور اور کرپٹ سیاسی قیادت کی طرف سے ملک میں قبضہ مافیا سے سرکاری زمین کی بازیابی کی کامیاب اور عوامی مہم کو بھی سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہے۔

کبھی جلسے جلوس، کبھی استعفے، کبھی لانگ مارچ، کبھی دما دم مست قلندر، کبھی آر یا پار کے بعد اب سینٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کا باقاعدہ اعلان۔ وائے فسانہ بربادی دل، ہے کبھی یاد، کبھی یاد نہیں۔ لگتا ہے عوام کامسترد شدہ سیاسی ٹولہ پی ڈی ایم کی شکل میں اپنی ناکام سیاسی اننگز کے برے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ جب آدمی حد سے بڑھ جاتا ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے انسانوں کا خدا بننے کا خواہشمند ہوتا ہے تو دراصل اس طرح وہ طاغوت کی راہ میں لڑ رہا ہوتا ہے جیسے کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”ایماندار لوگ وہ ہیں جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں“ ۔

آج عمران خان کی سوچ ساری قوم کی سوچ ہے اور اس کا وژن ساری نوجوان نسل کا وژن ہے۔ پاکستان کی عوام اس ملک میں انصاف کی حاکمیت اور مساوات کا قانون نافذ کرنے کی خواہش مند اور پاکستان کے شہریوں کودنیا میں باعزت مقام دلانے کی متمنی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے آج تک کے عمل سے بتا دیا ہے کہ وہ پیدائشی جنگجو اور گوریلا ہے وہ جیتنا جانتا ہے اور ہار کی وجوہات بھی سمجھتا ہے مگر سب سے بڑی بات کہ وہ گر کر سنبھلنے کے گر سے بھی واقف ہے۔ اس کو ڈرا کر، دھمکا کر یا لالچ دے کر سمت تبدیل کروانے والوں کے لیے اس کی مسلسل للکار ایک صاف پیغام ہے کہ اس کے نظریات کووقت کا ظلم اور جبر بھی نہیں بدل سکتا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کل بھی عوام میں مقبول ترین لیڈر تھا اور آج بھی اس کی مقبولیت سب سے زیادہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).