تتلی کے پنکھ مضبوط ہوتے ہیں


ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے منفرد، مضبوط، انوکھے اور ولولہ انگیز کالموں کا مجموعہ آپ کے ہاتھ میں میں ہے۔ مجھے اس بات کی ازحد خوشی ہے کہ طاہرہ نے اپنی دل جمعی اور استقلال سے لکھی ہوئی تحریروں کو ایک سنجیدہ، بامقصد اور بامعنی کام سمجھ کر مجتمع کیا اور یوں اپنے پڑھنے والوں کے لئے آسانی کر دی۔ اب ہم جب جی چاہے، انہیں ہاتھ میں لے کر پڑھ سکتے ہیں۔

جہاں تک مجھے علم ہے یہ خوبصورت کالم گزشتہ ڈیڑھ برس میں ”ہم سب“ پر باقاعدگی سے شائع ہوئے اور مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔

میں طاہرہ سے ان کی تحریروں کے ذریعے متعارف ہوئی اور پھر جوں جوں انہیں پڑھا، گرویدہ ہوتی چلی گئی۔ بانو قدسیہ، عمیرہ احمد، نمرا احمد اور دیگر رجعت پسند مصنف خواتین کے دیے گئے آدرشوں کے درمیان جہاں عورت کی حیثیت ہمیشہ کمتر سمجھی گئی، ڈاکٹر طاہرہ جیسی باغیانہ، مجاہدانہ اور متوازن سوچ والی تحریریں نا انصافیوں سے مسلسل برسر پیکار نظر آتی ہیں۔ وہ ہارتی نہیں، ڈٹی رہتی ہیں۔ ان کی جدوجہد کی حیثیت اگر چہ طوفانی ہواؤں کے سامنے ننھے دیے کی سی ہے مگر اپنے حصے کی شمع جلانا تو ہر باشعور انسان کا فریضہ ٹھہرتا ہے اس سے مفر ممکن ہی نہیں، سو ڈاکٹر طاہرہ ڈٹ کر لکھ رہی ہیں۔

کچھ لوگ زندگی کے سفر میں یونہی سر راہ چلتے چلتے مل جاتے ہیں آپ انہیں آسانی سے اپنے ساتھ شامل سمجھنے لگتے ہیں اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی ہستی اور ذات کے جگ سا پزل کا کوئی کھویا ہوا حصہ تھا جو اچانک آپ سے آن ملا اور اپنی مخصوص اور متعین جگہ پر خوبصورتی سے فٹ ہو گیا۔ مجھے بھی ڈاکٹر طاہرہ سے مل کر کچھ یونہی لگا گویا یہ میری اپنی ہی ہیں، یہ بھی مجھ جیسی باؤلی ہیں، میں نہ مانوں والی شخصیت ہیں، ہمارا ذہنی قبیلہ چونکہ ایک ہے لہذا ہمیں ایک دوسرے سے قطعی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ ان کی طاقتور اور متاثرکن تحریریں پڑھ کر میں قائل ہو گئی کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں، جو حق سچ بات کہنے کا سلیقہ رکھتے اور ہنر جانتے ہیں۔

یہ خالی خولی طبی ڈاکٹر نہیں بلکہ سماج کی ایک ماہر جراح بھی ہیں۔ وہ برصغیر کی عورت کے مسائل اور رستے ہوئے ناسوروں کی کامیابی سے جراحی کر کے ان پر پھاہے رکھتی ہیں اور مرض کی وجوہات پر کھل کے تنقید کرتی ہیں۔

ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے خواتین کے ذہنی، نفسیاتی، جنسی، معاشی اور معاشرتی مسائل پر ان کی گہری نظر رہتی ہے۔ ایک مشہور ڈرامہ نگار جب عورت دشمنی میں ٹی وی اور پریس میں زہر اگلنے لگے تو طاہرہ تلوار سونت کر ان پہ تیز وار کرنے سے نہیں گھبرائیں اور اس کے خوب لتے لئے۔ ان کی اسی ادا پر ہم مر مٹے اور ان کے مداحین میں شامل ہو گئے۔

دعا ہے کہ طاہرہ طویل عمر پائیں، اپنے مشن پر ڈٹی رہیں اور گیدڑ بھبھکیوں سے نہ گھبرائیں۔ ان کے قلم میں بہت طاقت ہے۔ انہیں خرابی کی نشاندہی کرنے اور ذمہ داروں کو چوٹ لگانے کا طلسماتی ہنر خوب آتا ہے افسوس کہ تنگ نظری اور مذہبیت کی گھٹن کی وجہ سے آج بھی ہماری عورت پورن بھگت کے کنویں میں الٹی لٹکی ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور اس کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ ہم تیسری دنیا کے لوگ گلوبل ولیج کے باسی ہونے کے باوجود ابھی تک ازمنہ قدیم کے نظریات کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ عورت کو پس چلمن بٹھانے ہی پر اصرار ہے، جدیدیت کی حمایت کو فحاشی سمجھا جا رہا ہے اور ترقی کو روایت سے بغاوت۔

تو ایسے میں طاہرہ جیسی لکھنے والیاں پڑھنے والوں کو چونکانے میں سینہ سپر ہو جاتی ہیں اور جرات کا پیکر بن کر اپنی بات کہنے سے کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتیں۔ اس لئے میں ان کی مکمل تائید اور سپورٹ کرتی رہوں گی کہ احساس کی نایاب دولت سے مالامال ایک باشعور لکھنے والے کا یہی وصف ہوتا ہے اور یہ صلاحیت ان میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ بالغ نظری کی تصویر کھینچتے ہوئے، گھن گرج کے ساتھ فرسودہ خیالات اور رسومات کو تہ تیغ کرنے میں مصروف عمل رہتی ہیں تو حوصلہ ہوتا ہے

وہ بدنما موضوعات پر ایسے اجلے اجلے کالم لکھتی ہیں کہ مجھ جیسی بے کار مگر مضطرب لکھنے والی بھی عش عش کر اٹھتی ہے اور رشک آتا ہے کہ کاش میں بھی ایسا ہی لکھ سکتی۔

ہمارے بہت سے لکھنے والے ایک بھیڑ چال میں مبتلا ہو کر پہلے سے موجود روایتی خیالات کے پرچار کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں مذہب کی آڑ لے کر سماجی پستیوں کی پردہ داری اور تحفظ کے لئے لٹھ لے کر نکل آتے ہیں تو ڈاکٹر طاہرہ جیسی بہادر لکھنے والی آنکھ کھول کر زمین اور فلک دونوں کو دیکھتی ہیں، پھر اپنی کالم نگاری کی ہنڈیا میں ایسے مسالے ڈالتی ہیں کہ پریشر ککر کے ڈھکن اڑ کر دور جا گرتے ہیں، شوں شوں سے رولا پڑ جاتا ہے اور لوگوں کے لئے انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہتا۔

جس معاشرے میں معاشی انصاف اور مساوات نہ ہو، مرد مگر مچھ بن کر عورت کی شخصی آزادی اور زندگی ہڑپ کرنے کو تیار رہتے ہوں، وہاں طاہرہ اور مجھ جیسی کالی بلیاں بساط بھر ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی رہیں گی ہم انتظار کریں گے اس صبح کا جب ہمارا سماج انسانی حقوق کی دستاویزات مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی تھمائے گا۔ اور وہ اپنے جسم اور اپنی زندگی کی خود مالک و مختار ہوں گی۔

عورتیں کی تقدیر کنول پھول کی صورت مڑے تڑے پاؤں اور لڑکھڑاتی ہوئی چال نہیں، کائنات کے اس پھول کو کھلنے کے لئے پوری دھرتی چاہیے۔ عورت کے تتلی جیسے مضطرب پنکھ تو ہوتے ہی اڑنے کے لئے ہیں، اگر ہمارے بیچ ایسے شعور نے جڑیں پکڑ لی ہیں جیسا ہم ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی تحریروں میں دیکھ رہے ہیں تو تو انہیں اڑنے، اپنی صلاحیتیں آزمانے اور اپنی ذات کو منوانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).