انڈیا میں زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی بھوک ہڑتال، دلی کے مضافات میں انٹرنیٹ سروس بند


انڈیا
انڈیا کی حکومت نے دارالحکومت نئی دہلی کے آس پاس کے چند علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروسز بند کر دی ہیں جہاں پر کسانوں کا نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج جاری ہے۔

انڈین وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کو تین لوکیشنز پر بند کیا گیا ہے اور یہ بندش اتوار کی رات تک جاری رہے گی تاکہ عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

یاد رہے کہ انڈیا کے کسان آج ایک روزہ بھوک ہڑتال کر رہے ہیں اور آج ہی انڈین تحریکِ آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی کی ہلاکت کا دن بھی ہے۔

دوسری جانب سنیچر کو کُل جماعتی میٹنگ کے بعد یونین وزیر پرہلاڈ جوشی نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے حوالے سے کہا کہ وہ 22-23 جنوری کو وزیرِ زراعت نریندر سنگھ تومار کی جانب سے کسانوں کی تنظیموں کو بھیجی گئی تجاویز پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کسانوں کا احتجاج مودی کی توقعات سے بھی زیادہ منظم نکلا؟

کیا انڈیا میں کسان غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں؟

کیا انڈیا میں زرعی اصلاحات کے نئے مجوزہ قوانین کسانوں کی ’موت کا پروانہ‘ ہیں؟

کسان مورچہ کا دلی میں پریڈ ختم کرنے لیکن احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا اعلان

انھوں نے کہا: ‘اگر آپ بات چیت جاری رکھنا چاہتے ہیں تو وہ فون پر دستیاب ہیں۔ کسانوں کے سامنے جو تجاویز پیش کی گئی تھیں وہ اب بھی بہتر تجاویز ہیں۔ حکومت اب بھی وزیرِ زراعت کی پیشکش کے حوالے سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔’

کُل جماعتی اجلاس کے بعد کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چوہدری نے بتایا کہ وزیرِ اعظم مودی کا کہنا تھا کہ وزیرِ زراعت کسانوں سے صرف ایک فون کال کی دوری پر ہیں۔ ‘کسان رہنماؤں کو بتا دیا گیا ہے کہ جب وہ حکومتی تجاویز کے حوالے سے ذہن بنا لیں اور کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو تومار صاحب صرف ایک فون کال دور ہیں۔’

پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاڈ جوشی کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں تقریباً تمام جماعتوں نے شرکت کی۔

انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ اس حوالے سے بل سے ہٹ کر لوک سبھا میں بحث ہونی چاہیے اور حکومت اس پر متفق ہے۔ انھوں نے کہا کہ اپوزیشن نے بھی کسانوں کے معاملے پر گفتگو کا مطالبہ کیا ہے۔ ’

کسانوں کے احتجاج کی صورتحال

انٹرنیٹ کی بندش دلی کے سرحدی علاقوں سنگھو، غازی پور، اور تکری میں بند کی گئی ہے اور یہ 31 جنوری کو رات 11 بجے تک بند رہیں گی۔

کسان ان علاقوں میں انڈین حکومت کے متعارف کروائے گئے تین نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں سے کسانوں کی بڑی تعداد کا غازی پور پہنچنے کا سلسلہ جاری ہے۔

مغربی اتر پردیش کے علاوہ دلی سے بھی لوگ یہاں جمع ہو رہے ہیں اور اب تک احتجاج پرامن انداز میں جاری ہے۔

26 جنوری کو کسان رہنما راکیش تکائت کو دلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد نوٹس بھیجا گیا تھا اور ان کے گرفتار کیے جانے کے بارے میں قیاس آرائی ہو رہی تھی۔ پھر 28 جنوری کی رات کو ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس کے بعد کسانوں نے بڑی تعداد میں غازی پور پہنچنا شروع کر دیا۔

انڈیا

کسانوں کو خدشہ ہے کہ نئے زرعی قوانین سے نجی شعبے کو فائدہ ہوگا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شہر کے شمالی مضافاتی علاقے سنگھو میں سنیچر کو پولیس کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور ہریانہ سے سینکڑوں کی تعداد میں ٹریکٹروں پر سوار مظاہرین یہاں پہنچ رہے تھے۔

ہریانہ سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ کسان مہیش سنگھ کا کہنا تھا کہ یہ کسان یہاں حمایت کے اظہار کے لیے آئے ہیں اور مزید کسانوں کی اگلے دو دن میں آمد متوقع ہے۔

اب تک انڈین حکومت اور کسان تنظیموں کے درمیان مذاکرات کے 11 دور ہو چکے ہیں مگر تنازع اب بھی برقرار ہے۔ حکومت نے پیشکش کی ہے کہ 18 ماہ کے لیے قوانین کو ملتوی کر دیا جائے مگر کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان قوانین کو مکمل طور پر واپس لیے جانے سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوں گے۔

گذشتہ ہفتے انڈیا کے یومِ جمہوریہ کے موقع پر ایک ٹریکٹر پریڈ بھی منعقد کی گئی تھی مگر یہ اس وقت ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگئی جب کچھ مظاہرین نے پہلے سے طے شدہ روٹس کی خلاف ورزی کی، رکاوٹیں اکھاڑ دیں اور اُن کا پولیس کے ساتھ تصادم ہوا جس پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔

حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا مؤقف ہے کہ زرعی شعبے میں زیادہ نجی کردار کی اجازت دینے والی ان اصلاحات سے کسانوں کی آمدنی متاثر نہیں ہو گی بلکہ یہ ان کی بھلائی کے لیے ہے۔

ان نئے قوانین سے نجی خریدار بھی مستقبل میں فروخت کے لیے ضروری اجناس ذخیرہ کر سکتے ہیں، جو کہ اس سے پہلے صرف حکومت سے منظور شدہ ایجنٹ ہی کر سکتے تھے۔

انڈیا

سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ کسان اپنی پیداوار براہِ راست نجی شعبے (زرعی کاروبار، سپر مارکیٹس اور آن لائن سودا سلف کی ویب سائٹس) کو مارکیٹ قیمتوں پر فروخت کر سکیں گے۔ زیادہ تر انڈین کسان اس وقت اپنی پیداوار کا بڑا حصہ حکومت کے زیر انتظام تھوک منڈیوں میں امدادی قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔

کم از کم کاغذات کی حد تک تو یہ اصلاحات کسانوں کو اپنی پیداوار منڈیوں کے اس نظام سے باہر فروخت کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔

لیکن کسان ان باتوں اور دلائل سے متفق نہیں ہیں۔ وہ اس حوالے سے غیر یقینی کے شکار ہیں کہ نفاذ کے بعد کیا صورتحال ہو گی۔

تحریک کے مرکزی رہنماؤں میں سے ایک گُرنام سنگھ چارونی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘اگر آپ نے بڑے کاروباروں کو قیمتوں کا تعین کرنے اور اجناس خریدنے کی اجازت دی تو ہم اپنی زمین اور اپنی آمدنی کھو دیں گے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp