جیل میں ملاقاتیوں کی جنسی ہراسانی


میں کوئٹہ شہر کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی۔ ابو بینک میں ملازم تھے۔ اسکول کالج کی تعلیم مکمل ہوئی اور ابو نے اپنا فرض ادا کیا۔

میں رخصت ہو کر کراچی آ گئی۔
کوئٹہ جہاں موسم زیادہ تر سرد رہتا ہے وہیں وہاں کے لوگ بھی ٹھنڈے مزاج کے ہیں۔ کراچی جہاں موسم سال کے بارہ مہینے گرم رہتا ہے۔ موسم کے ساتھ ساتھ یہاں کے حالات بھی گرم ہی رہتے ہیں۔
انہیں گرم حالات نے میرا گھر بھی سلگا دیا۔ دو ہزار پندرہ کی درمیانی شب میرے گھر پر ایک چھاپہ مار ٹیم چھاپہ مارتی ہے۔ دھیان رہے گھر میں جوان بچی ہے لیکن اس ٹیم کے ساتھ کوئی خاتون اہلکار نہیں ہے۔

اس وقت واقعہ کی شدت اتنی تھی کہ اس بات پہ زیادہ توجہ نہیں دے پائی۔
لیکن پھر یہ سلسلہ رکا نہی۔
اپنی عزت نفس کو جگہ جگہ روندتے دیکھا۔
خواتین این جی اوز می ٹو کے ٹرینڈ چلاتی ہیں۔ بڑی بڑی اداکارائیں جنسی ہراسانی پہ کیس کرتی ہیں۔
جنسی ہراسانی کے واقعات ہونے پر بینک کے مینیجر نوکری سے نکالے جاتے ہیں۔
جنسی ہراسانی کی تعریف آخر ہے کیا!
کیا صرف ایک مرد کا ایک عورت کے جسم کو ہاتھ لگانا جنسی ہراسانی ہے۔ ؟

یا پھر ایک با پردہ ماحول میں پرورش پانے والی عورت کے جسم کو ایک دوسری عورت کا باریکی سے ٹٹولنا جنسی ہراسانی نہیں ہے؟

پولیس تھانہ واحد ایسی جگہ تھا جہاں کسی نے میرا جسمانی استحصال نہیں کیا یہ الگ بات ہے کہ لہجے خون خوار تھے۔ جیسے اصل مجرم میں ہی ہوں۔

یہ سلسلہ تھما نہیں وہ رینجرز کا مٹھا رام ہوسٹل ہو یا ایف آئی اے کی ملاقات گاہ، یا پھر اڈیالہ جیل ہو اور حد تو ساہیوال جیل میں آ کر ہوئی۔ ہر مقام پر مجھے معظم سے ملاقات کے لئے اندر جانے سے پہلے ایک جسمانی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر ملاقات پر مجھے ایسے ٹٹولا جاتا ہے، مانو جیسے میں اسلحہ سے لیس ہوں گی یا کوئی اور ہتھیار میرے پاس ہوگا۔

آپ کو حیرت نہیں ہوگی کیونکہ آپ ان حالات سے نہیں گزرے لیکن پھر بھی آپ کا شعور یہ بات سن کر سوال پوچھے گا کہ جب ملاقات کروائی جا رہی ہے تو کہیں تو ایک موٹا شیشہ بیچ میں حائل ہے یا پھر آہنی دوہری جالی۔

جہاں شکل تو دور کی بات آپ آواز بھی صاف نہیں سن سکتے۔
جیسے جیسے جیل کی سیکیورٹی سخت ہوتی گئی ویسے ویسے تلاشی کا عمل بھی سخت ہوتا گیا۔

آپ جیل ملنے جائیں تو سلیقے سے بال باندھے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب پولیس والی آپ کے بال کھکوڑ کر دیکھے گی تو سب بال الجھ جائیں گے۔

جسم پہ کوئی تعویز مت باندھئیے گا ورنہ ایک نئی کہانی بن جائے گی۔ اور آنکھیں کس کے موند لیجئیے گا جب وہ پولیس والی اوپر سے نیچے تک آپ کی تلاشی لے گی!

یہ تلاشی کا عمل جیلوں میں ہر ملاقاتی کے ساتھ ہوتا ہے۔ عام جیلوں میں کچھ نرمی مل جاتی ہے کیونکہ آپ مٹھی میں کچھ پیسے منتقل کردیتے ہیں۔ اس عمل سے پولیس والیوں کا انداز گفتگو کچھ مناسب ہوجاتا ہے ۔

لیکن وہ جیلیں جنہیں ہائی سیکیورٹی کہا جاتا ہے وہاں منظر بالکل مختلف ہے۔

میں آج تک یہ نہیں سمجھ پائی کہ یہ جیلیں ہائی سیکیورٹی وہاں قید مجرموں کی وجہ سے کہلائی جاتی ہیں یا پھر جن لوگوں نے انہیں گرفتار کر کے مقدمے بنائے ہوتے ہیں، انہیں کے اہلکار تعینات ہوتے ہیں، اس لیے کہلائی جاتی ہیں۔

پولیس کے اہلکار بھی وہاں اپنے حصے کی ڈیوٹی کرتے ہیں۔ خاص کر پولیس والیاں جو اپنے رویے سے کسی افسر کا روپ پیش کر رہی ہوتی ہے۔

جیل میں ملاقات پہ جانے کے لئے سڑک پہ کھڑے ہو کر چلتی ٹریفک کے سامنے انتظار اور پھر پولیس والیوں کی ”مکمل تلاشی“ سے لے کر اس وقت تک ان کی جھڑکیاں سنتے رہنا جب تک ملاقات سے واپس باہر نا آ جائیں۔

ہم تعلیم یافتہ ہوں، ان پڑھ ہوں، دیہاتی ہوں یا شہری ہوں، لہجے کی مار سب کو کھانی ہے جبکہ ملاقاتی کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ قید میں رہنے والے شخص کو ان کی ہائی سیکیورٹی میں ملنے آیا ہے؟

کیا یہ رویے جنسی ہراسانی میں نہیں آتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).