نظام تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت


غربت کسی بھی ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستانی میں جہاں اشرافیہ مقیم ہے وہیں بڑی تعداد میں پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان حالات میں بہت سے کم عمر بچے غربت کی وجہ سے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ UNICEF کی ایک رپورٹ کے مطابق 17.6 % پاکستانی بچے اپنے گھروں کا چولہا جلانے کے لئے تعلیم کی قربانی دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں حکومت کا کردار اور تعاون ناگزیر ہے۔

پاکستان میں سیاست و حکومت جاگیرداروں کے زیر اثر نظر آتی ہے۔ جاگیردارانہ نظام خواندگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی نظام کی بدولت یہ وڈیرے سالہا سال سے مختلف علاقوں میں حکومت کرتے نظر آتے ہیں۔ مزاری، لغاری اور کئی خاندانوں کے سپوت بیرون ملک تعلیم میں مصروف ہیں جن کو ملک واپسی پر اس قوم کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے کا کام سونپ دیا جاتا ہے۔

جنوبی پنجاب کا جائزہ لینے کے بعد کئی حقائق سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک چونکا دینے والی چیز وڈیروں کا غریب عوام کو ڈومی سائل بنوانے سے روکنا اور اس کام میں ہر ممکن روڑے اٹکانا قابل ذکر ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے خواہان افراد کو اس بیڑی سے جکڑا جاتا ہے تاکہ وہ تعلیم حاصل کر کے جاگیردار کے سامنے کھڑا ہونے کی جسارت نہ کر سکے۔

پاکستان ان 12 ملکوں کی فہرست میں شامل ہے جہاں GDP کا 2 فیصد سے بھی کم حصہ تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔ تعلیم نسواں پاکستان میں ایک سنگین صورت حال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ تعلیم نسواں کی طرف عدم توجہ کی وجہ لڑکیوں کی کم عمر میں شادی، والدین کی ناخواندگی، مالی وسائل کی عدم دستیابی اور معاشرے میں جنسی ہراساں کرنے کے بڑھتے ہوئے کیسز میں اضافہ شامل ہے۔

یہ ستم فقط صنف نازک پر ہی نہیں کیا جا رہا بلکہ لڑکے بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ بہت سے والدین سے جب میٹرک کے بعد لڑکوں کو تعلیم سے روکنے کی وجہ معلوم کی تو بیشتر نے مالی حالات کی سنگینی کا عذر پیش کیا۔ جبکہ لڑکیوں میں میٹرک کے بعد تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں کمی کی ایک وجہ والدین کا کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ماحول کو قبول نہ کرنا ہے۔ کیا پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک اس ناخواندگی کا متحمل ہو سکتا ہے؟

حدیث نبوی ﷺ ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ مسلمانوں کا اقوام عالم سے پیچھے رہ جانا اور مغرب کا تسلط، مسلمانوں کی دین سے دوری اس کا سبب ہے۔ پاکستان میں بہت سے ادارے اپنی مدد آپ کے تحت دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم دینے میں مصروف ہیں تاکہ وہاں سے فارغ التحصیل طلبا و طالبات اپنے دینی امور احسن انداز میں سرانجام دینے کے علاوہ دنیاوی کاموں میں بھی حصہ ملاتے ہوئے فعال شہری بن سکیں۔

دینی و عصری تعلیم کو ایک ہی ادارے سے منسلک کرنے سے معاشرے کے مختلف حلقوں میں پائی جانے والی ہیجانی صورت حاصل پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور پڑھے لکھے نوجوان دوران ملازمت اپنی فرائض سر انجام دیتے ہوئے اس کے دینی پہلو کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں گے۔

جہاں ہر شعبے میں کرپشن کا ناسور موجود ہے وہیں تعلیمی نظام میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو بغیر پڑھے ڈگریاں ڈپلومے الاٹ کرتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں کرپشن کا خاتمہ بے حد ضروری ہے تاکہ میرٹ کی بنیاد پر صرف قابلیت رکھنے والے افراد کو آگے لایا جائے۔ جب یہ لوگ ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ ضرورت اس امر ہی ہے کہ نظام تعلیم میں اصلاحات لاتے ہوئے یکساں نظام تعلیم قائم کیا جائے تاکہ امیر غریب کے فرق کے بغیر تعلیم کا حصول ممکن ہو۔

اس سے شرح خواندگی میں نمایاں اضافہ ہو گا اور ہم ایک نئی پڑھی لکھی نسل تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو تحقیق و تالیف کے شعبوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرے گی۔ پاکستان ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرے گا، ملکی برآمدات میں اضافہ ہو گا جس سے زرمبادلہ حاصل ہو گا اور مجموعی طور پر عام آدمی کو زندگی کی بنیادی سہولیات کا حصول ممکن ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).