طلاق: زندگی ختم یا اک نئی شروعات؟


گزشتہ 14 برسوں میں خدا مجھے کم از کم پچاس ممالک میں لے جا چکا ہے، ان ممالک میں یورپ، عرب ممالک، افریقہ، امریکہ اور برطانیہ شامل ہیں۔ ان ممالک کے سفرکا مقصد سیر و تفریح کے ساتھ ساتھ وہاں کی روز مرہ زندگی اور ثقافت کو قریب سے جاننا ہمیشہ میری ترجیحات کا حصہ رہا ہے۔ سیکھنے کو تو بہت کچھ ملا لیکن کچھ روایتیں ایسی بھی دیکھنے کو ملی جن کو اپنے تک ہی محدود رکھنا ایک بہت بڑی نا انصافی ہو گی۔ آج میں جس موضوع پر بات کرنے کی ہمت کرنے جا رہا ہوں وہ ہماری سوسائٹی میں ایک بہت حساس موضوع ہے۔ اور وہ موضوع ہے طلاق اور اس کے بعد کی زندگی۔

میرا اس تحریر کا مقصد طلاق کو فروغ دینا ہرگز نہیں، بلکہ آپ سب تک اس کیفیت کو بیان کرنا ہے جس سے ایسے مرد وخواتین گزرتے ہیں جن کو نہ چاہتے ہوئے بھی طلاق کے کٹھن مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے۔

طلاق ایک ایسا خوفناک لفظ ہے جس کو انسان سن کر ہی دہل جاتا ہے اور وہ لوگ جن کو یہ لفظ اپنے شوہر یا بیوی سے سننا پڑے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ گھڑی ان کے لیے قیامت کی گھڑی جیسی ہوتی ہے اور بندۂ عاجز کی یہ دعا ہے کہ خدا ایسی گھڑی کسی کی بھی زندگی میں نہ لائے۔ لیکن اس حساس موضوع کا دوسرا رخ دیکھنا بھی بہت ضروری ہے یہ جاننے کے لئے کہ طلاق کن وجوہات کی وجہ سے ہوتی ہے، آخر نوبت یہاں تک پہنچتی کیوں ہے کہ وہ دو انسان جو سالوں پہلے زندگی ساتھ گزارنے کا وعدہ کر چکے ہوتے ہیں اب ایک دوسرے سے جلد از جلد چھٹکارا چاہتے ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی خوف یا ندامت نہیں کہ کبھی کبھی راستے جدا کرنے میں ہی خدا کی طرف سے کچھ بہتری ہوتی ہے۔

شروع کرتے ہیں یورپ سے، جہاں میں پچھلے 14 سال سے مقیم ہوں۔ یہاں بد قسمتی سے طلاق کی شرح 50 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہر دوسری شادی ناکام ہو جاتی ہے، آپ کے ذہن میں پہلا سوال یہ آیا ہو گا کہ آخر کیوں؟ میں آگے بڑھنے سے پہلے اس کیوں کا جواب دینا چاہوں گا۔ پہلے تو یہ کہ ہر طلاق کی کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے، کبھی بے وفائی، کبھی روز کی مار پیٹ اور کبھی دیگرخاندانی مسائل ایک طلاق کی وجہ بن سکتے ہیں۔

دوسرا ہرگز مت سوچیں کہ گوروں کے لئے طلاق لینا یا دینا کوئی عام بات ہے، یا ان کی عادت ہے، کوئی بھی اپنی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتا۔ گوروں کو بھی طلاق کے حساس مرحلہ سے بالکل عام انسانوں کی طرح دل پر پتھر رکھ کر گزرنا پڑتا ہے اور بہت وقت اور جدوجہد کے بعد وہ لوگ کسی طرح سے معمول کی زندگی کی طرف واپس آتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں طلاق کے فوراً بعد عورت کو گھر اور ضرورت کی دوسری چیزیں حکومت کی طرف سے جلد از جلد مہیا کر دی جاتی ہیں اور اگر بچے ہوں تو اور بھی جلدی ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھایا جاتا ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ قانون کے مطابق باپ ہر مہینے بچوں کے اخراجات ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ دوسری طرف مرد کے پاس نوکری ہو تو اس کو خود اپنا بندوبست کرنے کا کہا جاتا ہے اور صرف اس حالت میں جلد مدد مل جاتی ہے جب اس کے ساتھ بچوں نے رہنا ہو۔

میں یہ نہیں کہوں گا کہ ان سہولیات کی وجہ سے طلاق کے بعد ایک نئی زندگی شروع کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے، کیونکہ ہر وہ انسان جس کا تعلق جب کبھی کسی طلاق شدہ مرد یا عورت سے ہو تو وہ ضرور وجہ جاننا چاہتا ہے اور اگر اس کی نظر میں بتانے والا سچ بول رہا ہو اور اس کی غلطی بھی نہ ہو تو بات آسانی سے ایک نئی شروعات کی جانب بڑھ جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ سمجھے کہ بتانے والا جھوٹ بول رہا ہے یا اس کی غلطی تھی تو سننے والا اپنے قدم پیچھے موڑ لیتا ہے۔ لیکن سب باتوں کے باوجود زندگی اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کے مواقع ضرور دیتی رہتی ہے۔

بات کرتے ہیں عرب ممالک کی، میں ہمیشہ یہ سمجھتا رہا کہ عرب ممالک میں صرف مردوں کو زیادہ حقوق حاصل ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ تمام نہیں لیکن بہت سے عرب ممالک میں عورتوں کے حقوق کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے اور جب کسی عورت کو طلاق ہو تو حکومت اس کی ہر ممکن طریقے سے مدد کرتی ہے اور اگر بچے ہوں تو باپ بھی مالی اخراجات ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ ایک انوکھی بات جو میں نے عرب ممالک میں دیکھی کہ آج کے دور میں طلاق شدہ عورت کو نیچی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔

اگر عورت کی غلطی نہ ہو تو مرد اور اس کی فیملی بہت آسانی اور خوشی سے اس کو قبول کر لیتے ہیں۔ ایک اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ عرب ممالک میں آپ کو چار چار بیویوں والے مرد تو ملیں گے ہی، مگر وہ عورتیں بھی کم نہیں جو بہت بار طلاق حاصل کر چکی ہوتی ہیں اور موجودہ وقت میں کسی نہ کسی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہوتی ہیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کے دور میں عرب ممالک میں طلاق کو ہرگز بری نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔

بد قسمتی سے پاکستان میں بھی طلاق کی شرح آئے روز بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ طلاق کی کچھ وجوہات تو دوسرے ممالک کی طرح ہی ہیں جیسے کہ بے وفائی اور روز کی مار پیٹ لیکن چند بہت انوکھی بھی ہیں جو دنیا میں کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی، جیسے جہیز نا لانا، لڑکی کا خوبصورت نہ ہونا، بچے نہ ہونا اور خاص طور پر بیٹا نہ ہونا بھی طلاق کی وجہ بن جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں حکومت اس سلسلے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتی۔ عورت اور مرد دونوں کی مدد نہیں کرتی۔ اور اگر مسائل ہوں تو ان کو خود ایک قانونی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ پاکستان میں طلاق کے بعد مرد تو لوگوں کی نظر میں لڑکی کو برا ثابت کر کے دوسری شادی کر ہی لیتا ہے۔ لیکن بیچاری خواتین کے ساتھ جب طلاق کا لفظ جڑ جائے تو ان پر ایک نئی زندگی کے تمام نہیں مگر بہت سے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور بہت سی خواتین واپس اپنے والدین کے گھر بیٹھ کر اپنے بال سفید کر لیتی ہیں۔

میں ان خواتین کو سلام پیش کرتا ہوں جو بے بس یا بچوں کی خاطر اپنی تمام خواہشوں کا قتل خود کر دیتی ہیں۔ لیکن یہ ان کا قصور نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا قصور ہے، جہاں طلاق شدہ عورتوں کو بہت نیچی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ 100 میں سے 90 مرد تو طلاق کا سنتے ہی انکار کر دیتے ہیں اور جو 10 ہاں کرتے ہیں اس کی وجہ کسی لڑکی کا بہت ہی حسین ہونا یا امیر ہونا ہو سکتا ہے۔ کاش پاکستانی مرد اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں اور طلاق شدہ عورتوں کو بھی دوسری عورتوں کی طرح عزت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیں۔

میری اس تحریر کا مقصد یہ نہیں کہ میں درست اور غلط کا فیصلہ کروں۔ اس کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ طلاق کے بعد بھی ایک زندگی ہوتی ہے اور اس کو وقار سے جینے کا حق ہر مرد اور عورت کو یکساں ملنا چاہیے، جس کے وہ حقدار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).