اینکر، سینیئر تجزیہ کار بننے کا آسان اور صحیح طریقہ


ہوسٹ سے گھوسٹ اور پھر اینکر بننے کا سلسلہ نیا نہیں لیکن جو تیلی اس کو پچھلے چند سال میں لگی اس سے بہت سوں کی پانچوں گھی میں اور تھوبڑے براہ راست سکرینوں تک جا پہنچے ہیں۔

اگر کسی کا خیال ہے کہ جہاز کو لنگرانداز کرنے کے لیے استعمال ہونے والا آلہ ’اینکر‘ ٹی وی اینکری تک اس وجہ سے پہنچا ہے کہ اس کا کام بھی ’جہازوں‘ سے متعلق ہے تو وہ بھلے سوچتا رہے مگر اظہار نہ کرے۔

سینیئر تجزیہ کاری، اینکری اور دانشوری کے شوقین ان نکات کو پڑھ کر سوشل میڈیا پر یا پھر جہاں موقع ملے، پرجوش اظہار شروع کر دیں۔ رات کو پڑھ کر پانی پہ چوف کریں، پئیں اور سو جائیں، جاگنے پر نصیبہ جاگ جائے گا۔ بالکل اس موصوف کی طرح جو اب اینکری کو کہہ سکتے ہیں ’میرے پاس تم ہو‘ ارے وہی جن کے پاس پہلے صرف ڈرامے ہوا کرتے تھے۔

اذیت گردی

ویسے تو سیڈسٹ یا سیڈزم کا مطلب اذیت پسندی ہے لیکن آپ نے اسے صرف پسند نہیں کرنا بلکہ اس کی گرد بھی اڑاتے رہنا ہے۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ اینکری یا سینیئر تجزیہ کاری میں اذیت کہاں سے آ گئی تو اس سینیئر تجزیہ کار کے وہ کلپ نکال کر سن لے جس میں وہ کہہ رہے ہیں ’پورے سسٹم کو تیزاب سے غسل دو، یہاں گلوٹین لگنا چاہیے اور جلاد تین شفٹوں میں گلے کاٹیں تو حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں۔‘

چونکہ وہ سالہاسال سے معروف چینل کے پروگراموں میں بیٹھ کر ہمارے دماغوں کا ٹکاٹک کر رہے ہیں اس لیے یہی اس پوائنٹ کی کامیابی کی دلیل ہے۔

دہشتوری

اس لفظ سے دہشت زدہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں یہ ایک نیا لفظ ہے جو اس وقت بولا جاتا ہے جب کیمرہ آن ہو، بیک گراؤنڈ میں کتابوں کی شیلفس نظر آئیں، خوبصورت سوٹ یا شلوار قمیض میں ملبوس کوئی شخصیت سامنے کافی کا مگ اور مہنگا موبائل رکھے بیٹھی ہو، بڑا خوبصورت اور پڑھا لکھا ماحول لگ رہا ہو لیکن تب تک جب وہ منہ نہ کھول دیں۔

چخچخاہٹ

یہ ایک ایسا پتہ ہے جو آج کل اینکری یا تجزیہ کاری کے لیے سب سے کارآمد ہے۔ پہلی چخ اس وقت چھوڑنی ہے جب کوئی کسی بھی پیرائے میں اختلاف کرے، دوسری پہ آواز اونچی کر لیں، اسے بولنے نہ دیں جواب میں اگر وہ کچھ کہنا چاہے تو سننے کے بجائے اس قدر ٹھٹھا لگائیں کہ بے چارے کے پاس سوائے چپ ہونے کے کوئی راستہ نہ رہے۔

شمہوریت

یہ لفظ ہمیشہ جمہوریت کے بعد بولنا ہے۔ فنکاری والا کام یہ ہے کہ آپ نے ایک طرف جمہوریت کی بات کرنی ہے اور دوسری جانب تمام خرابیوں کی جڑ بھی اسی کو قرار دینا ہے، کبھی اقبال کے مصرعے ’جدا ہوں دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘ کا حوالہ دینا ہے اور کبھی نامعلوم بابوں کے ایسے اقوال اور واقعات سنانے ہیں جو جذبات کو سان پر چڑھا دیں، بغیر اس فکر کے کہ کوئی ان کی تحقیق نہ کرنے بیٹھ جائے۔

کرپشن کرپشن

ملک میں جو مرضی ہو رہا ہو آپ کی سوئی کرپشن پر اٹکی رہنی چاہیے اور وہ بھی سابقہ کرپشن پر، خیال رہے کہ کسی ایسے موجودہ منظر کی جانب توجہ دلائی تو پھر یوٹیوب پر جا کر ہی پناہ ملے گی اور بار بار لوگوں سے چینل سبسکرائب کرنے اور گھنٹی دبانے کی درخواست کرنا پڑے گی جیسا کہ آج کل کئی بڑے نام کر رہے ہیں۔

پرائمری کی کلاس

ہر جگہ چخچخاہٹ سے کام نہیں چلے گا۔ اگر آپ کو ’دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر‘ کے محاورے کا مطلب نہیں معلوم تو یہ کیجیے کہ ٹی وی پر اپوزیشن کو چھوڑ کر صاحبان اقتدار کی پریس کانفرنسز دیکھتے رہیں ان میں آپ کو ایک نہ ایک روز ایسی پریس کانفرنس دکھائی دے جائے گی جس میں صحافیوں کے انداز گفتم و نشستم کو دیکھ کر پرائمری کی کلاس یاد آ جائے۔ بس یہی ہے وہ ماڈل جس کی آپ کو ضرورت ہے۔

بحرالجاہل

جس حد تک ممکن ہو عوام کو بے وقوف بلکہ بحرالجاہل ثابت کریں اور بتائیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ جمہوری نظام کیا ہوتا ہے اسی لیے وہ ماضی میں ایسے لوگوں کو ووٹ دیتے رہے ہیں جنہوں نے ان کو اس حال میں رکھا لیکن ایسے وقت میں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اگر موجودہ سسٹم کی بناوٹ پر بات آ جائے تو قلابازی ایسی لگانی ہے کہ دوسرے کا ذہن قلابازی کھا جائے۔

شش و پنج

بغیر کسی شش و پنج کے یہ بات پلے باندھ لیں کہ ہمیشہ ایسی بات کرنی ہے کہ جس کا کوئی واضح مطلب نکل ہی نہ سکے۔ جمہوریت کے لیے مثالیں امریکہ اور یو کے کی دینی ہیں لیکن وہاں کے نظام کو ہمیشہ کوسنا ہے۔ کبھی چین کے سسٹم کی بات کرنی ہے تو کبھی ایرانی انقلاب کی، سزا کے لیے ہمیشہ بڑے اسلامی ممالک کی مثال دینی ہے۔

پڑوسی ممالک

مختلف ممالک کا ذکر مختلف انداز سے کرنا ہے تاہم ایک کا تذکرہ کچھ یوں کرنا ہے جیسے منہ میں کوئی کڑوی دوا رکھی ہو۔ اس کا نام آتے ہی نتھنوں کے پھولنے پر اضافی مارکس مل سکتے ہیں۔

کچھ رہنما جملے

فلاں فلاں چہرے سے ہی فراڈیا لگتا ہے۔ ملک ٹھیک کرنا ہے تو 500 افراد لٹکانا پڑیں گے، فلاں ادارہ نہ ہو تو ہم سکون کی نیند نہ سو سکتے۔ جو مرضی کہیں فلاں کرپٹ نہیں ہے۔ فلاں فلاں بندہ بچوں کا دودھ پی گیا۔ بھاڑے کے ٹٹو، شکریہ فلاں فلاں جی وغیرہ

سازشیات

بات کوئی بھی ہو اس میں سے سازش تلاش کرنا آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہونا چاہیے۔ جیسا کہ کئی نامی گرامی لوگ کورونا کو ڈرامہ قرار دیتے اور ویکسین کے ذریعے جسم میں چپ لگانے کا تذکرہ کرتے رہے۔

سرٹیفیکیٹس

آپ کو کچھ سرٹیفیکیٹس دائیں جیب میں رکھنا ہوں گے، جیسا کہ غداری، ملک دشمنی، ایجنٹ وغیرہ کے، اسی طرح کچھ اسناد لیڈر، شکریہ، بصیرت، ویژن جیسے الفاظ پر مشمتل ہوں وہ دوسری جیب میں رکھیں۔

ٹو ان ون

بیک وقت ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی بننا ہے اور سرجن بھی، جس کے پاس ڈراپر بھی ہے اور نشتر بھی، حکومتی شخصیت سے ایسا سوال پوچھیں کہ وہ صرف ’بالکل‘ کا اضافہ کر کے جواب میں وہی سوال دوہرا دے، یعنی دو قطرے صبح دوپہر شام، رہ گیا کوئی حکومت مخالف شخص تو اس دوسری چیز کا جائزہ لیں جو آپ کے پاس ہے۔

ان باتوں کے بعد اگر ذہن میں یہ سوال آ رہا ہے کہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود میں کیوں ادھر ادھر ’قلم گھیسیاں‘ کرتا رہتا ہوں، اینکر کیوں نہیں بن جاتا؟ تو بالکل بجا ہے۔

بس کیا بتاؤں یہ تمام باتیں خود پر طاری کر کے جب بھی کیمرے کے سامنے بیٹھتا ہوں بائیں آنکھ پھڑکنا شروع کر دیتی ہے، ہر چوتھی پھڑک پر ہچکی آتی ہے اور ساتھ پیٹ میں گھڑم، پھر ہر تیسری گھڑم عجیب سے ڈکار پر ختم ہوتی ہے اسی لیے ابھی تک میں اینکری یا اینکری مجھ سے بچی ہوئی ہے۔

ویسے سچ یہ بھی ہے کہ سارے اینکر ایک جیسے نہیں کچھ ’ذرا ہٹ کے‘ بھی ہیں لیکن سنا ہے وہ بھی آج کل ’ذرا سمٹ کے‘ ہیں۔

اگر آپ خود کو ان نکات کے بغیر ہی اینکر اور سینیئر تجزیہ کار کہلوانا چاہتے ہیں تو پھر آواز میں آواز ملا دیں۔

آ ہم نصیب مل کے کریں اپنی اینکریاں
تو ہائے سچ پکار، میں پکاروں ہائے، بچ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).