ڈینیئل پرل اور عمر شیخ سے شاہ محمود قریشی تک


اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وفاقی حکومت امریکی صحافی ڈینئیل پرل کے اغوا اور قتل کےمرکزی ملزم عمر شیخ کو بری اور رہا کرنے کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کرے گی۔ یہ اعلان امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے اس بیان کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں عمر شیخ کو بری کرنے کے فیصلہ کو ’دنیا بھر میں دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی توہین‘ قرار دیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے 26 جنوری کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تھا اور بدقسمتی سے پاکستان کے متعلق ان کا پہلا بیان ہی دہشت گردی اور ایک دہشت گرد کی رہائی اور بریت کے بارے میں تھا۔ انتھونی بلنکن نے آج وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بھی فون پر بات کی۔ بظاہر یہ ٹیلی فون گفتگو جنوبی ایشیا کی دونوں جوہری طاقتوں کے ساتھ نئی حکومت کے رابطے کا حصہ تھی کیوں کہ بلنکن نے شاہ محمود قریشی کے علاوہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو بھی فون کیا تھا۔ تاہم ان دونوں ٹیلی فون کالز میں بنیادی فرق یہ تھا کہ پاکستانی وزیر خارجہ کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ نے خاص طور سے ایک امریکی شہری اور صحافی کے اغوا اور قتل میں ملوث عمر شیخ کے متعلق عدالتی فیصلہ پر گفتگو کی۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے تین رکنی بنچ نے 28 جنوری کو دو ایک کی اکثریت سے عمر شیخ اور اس کےساتھیوں کو شبہ کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا تھا اور رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

ایک امریکی شہری کے اغوا اور قتل میں ملوث ایک مسلمہ دہشت گرد کی یوں ’باعزت بریت‘ دنیا کی کسی بھی حکومت کے لئے ناقابل قبول ہوتی۔ عمر شیخ کے ماضی اور اس کے خلاف سامنےآنے والے شواہد کی روشنی میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ گھناؤنے جرم میں ملوث تھا۔ اپنی گرفتاری کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت کے دوران ایک مرحلہ پر عمر شیخ نے یہ کہتے ہوئے اپنا دفاع کرنے سے انکار بھی کیا تھا کہ اس نے جو کیا وہ اس کے نقطہ نظر سے درست اقدام تھا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کے دوران عمر شیخ کے وکیل نے دو سال قبل سندھ ہائی کورٹ کو لکھا گیا ایک خط بھی پیش کیا جس میں عمر شیخ نے ڈینئیل پرل کے اغوا میں ’معمولی کردار‘ ادا کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ البتہ یہ وضاحت نہیں کی گئی تھی کہ یہ معمولی کردار کیا تھا۔ ایک وقت میں اپنے مجرمانہ اقدام کو جہاد قرار دینے کے والا اب معمولی کردار کا اعتراف کرتے ہوئے قید سے رہائی کا خواستگار تھا۔

سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف صوبائی حکومت کی اپیل پر غور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے دو فاضل جج صاحبان کو عمر شیخ اور اس کے دیگر ساتھی اس معاملہ میں معصوم اور بے گناہ دکھائی دیے۔ عدالت نے ان کے خلاف پیش کئے گئے شواہد کو تسلیم کرنےسے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلہ میں طویل مدت تک قید میں رہنے اور سندھ ہائی کورٹ کی تجویز کردہ قید بھگتنے کی وجہ سے ملزمان کو رہاکرنے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ شبہ کی بنیاد پر انہیں ایک غیر ملکی صحافی کے اغوا اور بہیمانہ قتل کے الزامات سے بری بھی کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا یہ پہلو تشویشناک اور ناقابل فہم ہے۔ ایک دہشت گرد کی بریت پر ڈینئیل پرل کے خاندان اور امریکی حکومت کا رد عمل قابل فہم ہے۔ تاہم خود داری، غیرت، خود مختاری اور اپنے فیصلے خود کرنے کی دعویدار حکومت کی طرف سے اس معاملہ پر امریکی مطالبے کے سامنے ڈھیر ہوجانا اہل پاکستان کے لئے حیران کن تجربہ تھا۔

38 سالہ ڈینئیل پرل امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا میں بیورو چیف تھے۔ ان کا ہیڈ آفس اگرچہ ممبئی میں تھا لیکن وہ اسلامی انتہا پسندی پر ایک اسٹوری کے سلسلہ میں 2002 کے شروع میں پاکستان آئے تھے۔ عمر شیخ بظاہر مڈل مین کے طور پر ان سے ملا پھر انہیں اغوا کرلیا گیا اور یکم فروری کو انہیں بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے کی ویڈیو کراچی میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی۔ اس سانحہ کے تھوڑے عرصہ بعد ہی پولیس نے دیگر لوگوں کے علاوہ عمر شیخ کو گرفتار کرلیا۔ عمر شیخ پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہے اور اس سے پہلے بھارت میں بعض برطانوی شہریوں کے اغوا کے الزام میں سزا پاچکا تھا۔ البتہ 1999 میں انڈین ائرلائنز کا طیارہ اغوا کرنے والوں نے دیگر لوگوں کے علاوہ اسے بھی رہا کروایا تھا جس کے بعد وہ طالبان کے تعاون سے پاکستان میں داخل ہؤا۔

عمر شیخ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جولائی 2002 میں سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ اور ان کے دیگر ساتھیوں کو مختلف مدت قید کی سزائیں دی گئی تھیں۔ ابتدائی طور پر ڈینئیل پرل کے قتل کو جائز قرار دے کر اس کی ذمہ داری قبول کرنے والے عمر شیخ نے بعد میں اپنی سزا کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔ سندھ ہائی کورٹ نےگزشتہ سال اپریل میں اس کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا۔ وہ چونکہ 2002 سے ہی مقید تھا اس لئے یہ فیصلہ عملی طور سے عمر شیخ اور اس کے ساتھیوں کی رہائی کا حکم نامہ تھا۔ سندھ حکومت نے البتہ ان سب لوگوں کو حفاظتی حراست میں رکھا اور ہائی کورٹ کے حکم کو تبدیل کروانے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ ڈینئیل پرل کے اہل خانہ نے بھی سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے اپیل کی۔ 28 جنوری کو حیرت انگیز طور پر سپریم کورٹ نے صرف سزا میں تخفیف یا رہائی کا حکم دینے کی بجائے عمر شیخ اور دیگر کی بریت کا حکم بھی صادر کیا۔ سہ رکنی بنچ میں شامل ایک جج نے البتہ اختلافی نوٹ لکھا ہے۔

اس فیصلہ کے درست یا غلط ہونے کی بحث میں پڑے بغیر یہ بات نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ عمر شیخ اس مقدمہ میں 2002 سے قید ہے۔ اس طرح وہ انیس برس قید کی سزا کاٹ چکا ہے۔ امریکی طریقہ کار کے مطابق تو نہیں لیکن تمام مغربی ممالک اور یورپی ہیومن رائٹس کنونشن کے مطابق کسی سنگین ترین جرم میں بھی یہ مدت عمر قید کے مساوی سمجھی جائے گی۔ اگرچہ یورپ میں دہشت گردی کے سنگین واقعات میں ملوث ملزمان کو قید کی مدت پوری کرنے کے بعد یا تو حفاظتی حراست میں رکھا جاسکتا ہے یا ان کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے تاکہ وہ عناصر دوبارہ انسانی جانوں کو ضائع کرنے کا سبب نہ بن سکیں۔ البتہ موت کی سزا دہشت گردی کے سنگین ترین جرم میں بھی نہیں دی جاتی۔ بیشتر یورپی ملکوں میں موت کی سزا ختم کی جاچکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں امریکہ سمیت ان تمام ممالک میں موت کی سزا کا طریقہ ختم کروانے کی کوشش کرتی ہیں جہاں اب تک اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر کو وسیع تائید حاصل ہے کہ کسی بھی جرم میں موت کی سزا قابل قبول طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی اس سے جرائم ختم کرنے کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں اگرچہ موت کی سزا بحال ہے اور مسلسل نہ صرف ملزموں کو مختلف جرائم میں پھانسی کی سزا دی جاتی ہے بلکہ اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے انسداد دہشتگردی عدالت کی طرف سے عمر شیخ کو دی گئی موت کی سزا کو شدید اور غیر معمولی عدالتی رد عمل نہیں کہا جاسکتا۔ عمر شیخ جیسے دہشت گردوں سے معاشرے اور انسانوں کو بچانے کے لئے ن کی تاحیات نگرانی ایک مناسب اور اہم ضرورت ہے۔ حیرت ہے کہ اس مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستانی سپریم کورٹ کے دو فاضل جج صاحبان نے اس بنیادی نکتہ کو نظر انداز کیا۔ شبہ کے الزام میں عمر شیخ کو بری کرتے ہوئے اس کے پس منظر، بھارت میں دی گئی سزا، طیارہ اغوا کے جرم کے نتیجے میں زبردستی اس کی رہائی اور دیگر معاملات کو بھی قابل غور نہیں سمجھا گیا۔ یہ پہلو بھی نظر انداز کیا گیا کہ عمر شیخ جیسا انتہاپسند شخص رہا ہونے کے بعد دوبارہ فساد بپا کرنے اور قتل و غارتگری کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ اسے بری کرنے کا حکم دہشت گردی کے رجحان کی حوصلہ افزائی اور ملکی عدالتوں پر اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا موجب بنے گا۔

دوسری طرف پاکستان کے وزیر اعظم ایک طرف خود داری و خود مختاری کے بارے میں لیکچر دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ حال ہی میں ایک انٹرویو میں انہوں نے پاکستان کا ’سافٹ امیج‘ ابھارنے کی گفتگو کو ’احساس کمتری‘ قرار دیا اور کہا کہ مغرب کی نقالی سے کوئی قوم بڑی نہیں ہوسکتی۔ تاہم اسی وزیر اعظم کی حکومت ایک مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کا دفاع کرنے اور اسے ملک کی عدالتی خود مختاری کی علامت قرار دینے کی بجائے، امریکی وزیر خارجہ کے شدید رد عمل کے بارے میں مفاہمانہ اور خوشامدانہ رویہ اختیار کررہی ہے۔ اٹارنی جنرل کی طرف سے یک بیک اس معاملہ میں فریق بننے کا اعلان حکومت کی انصاف پسندی یا دہشت گردی کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکی حکومت کو راضی رکھنے کی سعی ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی ہم منصب سے بات کرتے ہوئے ’قانون کے مطابق‘ ہر قیمت پر ڈینئیل پرل کے قتل میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ کو یہ نہیں بتایا کہ پاکستان کی عدالتیں آزاد اور خود مختار ہیں اور حکومت ان معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ حالانکہ پاکستان کی تین سابقہ حکومتیں تین امریکی صدور سے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے رابطہ کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ لیکن ہر امریکی انتظامیہ نے پاکستان کو یہی بتایا ہے کہ امریکہ کی عدالتیں آزاد ہیں اور ان کے معاملہ میں مداخلت نہیں کی جاسکتی۔ شاہ محمود قریشی اس اصول کی بنیاد پر انتھونی بلنکن کے سخت بیانات کو مسترد کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکے۔ بلکہ انہوں نے یقین ظاہر کیا ہے کہ حکومت کی کوشش سے نظر ثانی میں ایک ’ناقابل قبول ‘ فیصلہ کو تبدیل کروالیا جائے گا۔

کسی دہشت گرد کے ساتھ کسی بھی بنیاد پر کوئی رعایت روا رکھنا غلط ہے۔ لیکن ایک قانونی و عدالتی معاملہ میں غیر ملکی دباؤ پر ملک کی سیاسی حکومت کا فریق بننا، ملک کی کمزور خارجہ پالیسی، متزلزل و کم حوصلہ قیادت اور غیر واضح ترجیحات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali