ایہہ پتر ہٹاں تے نہیں وکدے!


کورونا کی عالمی وبا کے دوران دنیا بھر کے طلبا پہ کیا گزری یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ ہی پتا چلے گا لیکن چونکہ ہم پاکستانی ہر صورت حال میں بدترین مثال بن کے سامنے آنا اپنا فرض سمجھتے ہیں چنانچہ اس معاملے میں بھی ہم سب پوری تندہی سے مشغول ہیں۔

گذشتہ سال مارچ میں جب تعلیمی ادارے بند کیے گئے تو تمام امتحانات کو ملتوی نہیں بلکہ منسوخ کر دیا گیا۔ جن طلبا کو یونیورسٹی کے لیے اپلائی کرنا تھا انھیں اس قدر چھوٹ ضرور دی گئی کہ اگر وہ چاہیں تو اگلی بار ہونے والے امتحانات دے سکتے ہیں۔ باقی طلبہ کو ان کے سابقہ ریکارڈ پہ اگلی جماعتوں میں بھیج دیا گیا۔

اس طریقے میں بے شمار گھپلے ہوئے اور کیمبرج جیسے ادارے پہ بھی حرف آیا۔ پہلے بھیجا گیا رزلٹ تبدیل کیا گیا لیکن طلبا کا اعتماد ادارے سے اٹھ گیا۔ نجی سکولوں کی خود غرضی اور فیس خوری کھل کر سامنے آئی۔ اس وقت ثابت ہوا کہ یہ ادارے نہیں فقط عمارات تھیں جہاں تعلیم بیچی جاتی تھی۔

آن لائن تعلیم سے ناآشنا استادوں اور شاگردوں نے یہ برس کیسے گزارا، مت پوچھیے۔ ایک استاد کی حیثیت سے مجھے اس تکلیف کا بھی اندازہ ہے اور ایک ماں کی حیثیت سے میں نے اپنے بچوں کو آن لائن تعلیم کی مشکل سے نمٹتے بھی دیکھا۔

ایک طرف کورونا کا گراف تھا اور دوسری طرف نجی تعلیمی اداروں کا دباؤ کہ کوئی جیے یا مرے سکول کالج کھول دیے جائیں تاکہ گلشن کا کاروبار چلے۔ آن لائن کلاسز کے اس دور میں یہ نجی تعلیمی ادارے فیس بٹورنے کو مستعد تھے۔ طلبا کے مسائل میں ان کی دلچسپی کا تمام والدین کو بخوبی ادراک ہو چکا ہے۔

اسی دوران میڈیکل اور انجینئرنگ اور دیگر پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں کے داخلہ امتحانات بھی منعقد ہوئے۔ میڈیکل کے داخلہ امتحانات میں جی بھر کے ہڑبونگ مچائی گئی۔ کبھی امتحان ملتوی کر دیے گئے، کبھی کورس تبدیل کردیا، جب پرچہ آیا تو کئی سوال سلیبس سے باہر تھے۔

طلبا نے احتجاج کیا، معاملہ عدالت تک گیا، مظاہرے ہوئے، بچےآخر بچے ہی ہوتے ہیں، تھک کر محاذ چھوڑ گئے، جیسے تیسے نتائج پہ داخلے جاری ہیں۔

نومبر کے آخری عشرے میں بند کئے گئے سکول دو فروری سے دوبارہ کھولے جارہے ہیں۔ اس دوران کچھ سکولوں میں امتحانات بھی لیے گئے۔ آن لائن پڑھنے والے بچوں نے خاموشی سے امتحان دیے۔ نتائج کو بھی اسی خاموشی سے تسلیم کر لیا جائے گا۔

مگر یہیں ہم نے دیکھا کہ ایک نجی ادارے کے طلبہ نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ بہت سی جامعات آن لائن امتحانات لے رہی ہیں۔

پھر ہوا یوں کہ احتجاج کرنے والے ان طلبا پہ لاٹھی چارج ہوا، کریک ڈاؤن ہوا ، گرفتاریاں ہوئیں اور ہم سب بے حسی سے دیکھتے رہے کیونکہ ہم سب کا یہ ہی خیال ہے کہ ’لڑکوں نے کچھ کیا تو ہوگا۔‘

لڑکوں نے زیادہ سے زیادہ کیا کیا ہوگا؟ نعرے بازی، جلسہ، جلوس؟ لڑکوں نے کم سے کم وہ نہیں کیا ہو گا جو آج کی اکثر جامعات کے مالکان اپنے زمانہ طالب علمی میں کرتے رہے۔ آن کلاسز لینے والے طلبا اگر آن لائن امتحانات کا مطالبہ کر رہے تھے تو اس پہ کیا پولیس بلا لی جاتی ہے؟

پانچ سو کے قریب طلبا پہ مقدمہ درج کیا گیا، پانچ طلبا لیڈرز کو گرفتار کیا گیا اور ان پہ جو دفعات لگائی گئیں ان کو پڑھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ معاملہ کیا ہے۔ اس وقت بیالیس طلبا گرفتار کیے گئے، جنہیں مبینہ طور پہ بعد میں آزاد کر دیا گیا پانچ کا جسمانی ریمانڈ لیا گیا۔ اور سارا ملک ایسے خاموش ہے جیسے یہ بچے کسی اور کے بچے ہیں۔

پاکستان کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پہ مشتمل ہے۔ بہت سے بچے تو سکول کی شکل ہی نہیں دیکھ پاتے لیکن جو خوش نصیب یہاں سے ہوتے ہوئے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کو پہنچ جاتے ہیں وہ غنڈے موالی نہیں ہمارا مستقبل ہیں۔

ان نوجوانوں کو پہلے ہم نے میکاولے کے بنائے نظام کے حوالے کیے رکھا، باقی ماندہ کو درس نظامی کے سپرد کیا۔ دونوں نظاموں کو سنوارنے اور ان کی اصلاح کرنے کی بجائے سیٹھوں کو دھڑا دھڑ تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔

مجھے ان نام نہاد یونیورسٹیوں کے ماحول کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ کوئی برس نہیں جاتا کہ کسی ادارے میں کوئی طالب علم خود کشی نہ کرے۔ بے شمار طالب علم ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔

بے حس معاشرے نے کبھی ان کے ذہنی، جسمانی اور دیگر مسائل پہ غور ہی نہیں کیا۔ یہ بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ان یونیورسٹیوں میں ہانکے جا رہے ہیں۔

ایسی صورت حال میں اگر کوئی ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر جاتا ہے تو قصور وار کیا یہ بچے ہیں؟ ان طلبا کے سروں پہ سیاست کرنے والے کئی دہائیوں سے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے ہمارے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ سب کو سب کچھ یاد ہے تفصیل میں جانا بے کار ہے۔

نجی تعلیمی نظام ایک مافیا کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پولیس کی پھرتیاں، ماں باپ کی بے بسی، آج سب خاموش ہیں، کل بھی سب خاموش رہیں گے۔ ایک کے بعد ایک ایسٹ انڈیا کمپنی حاکم بنتی رہے گی اور ہم خاموشی سے انگوٹھے کٹواتے رہیں گے۔

شفقت محمود صاحب بچوں کے وزیر تعلیم ہیں۔ اس وقت انہیں نہ صرف ان مسائل پہ نظر کرنی چاہیے بلکہ نجی تعلیمی اداروں کے دباؤ کو رد کرتے ہوئے اس ملک کے مستقبل کو محفوظ کرنا چاہیے۔

اس نسل کو سوائے دہشتگردی اور پچھلی نسل کے گندے رویوں کے کچھ نہیں ملا۔ آج ان کے ایک بے ضرر مطالبے پہ ان کر گرفتار کر کے ان کے جسمانی ریمانڈ دیئے جائیں گے تو کل ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟

یہ آہنی ہاتھ جس سے ان معصوم بچوں کے مطالبے کو کچلا جا رہا ہے، سنبھال کر رکھیے ۔ جہاں اس آہنی ہاتھ کی ضرورت ہے وہاں دست شفقت پھیرنے کی بجائے اسے استعمال کیجئے۔ طلباء کے مسائل کا حل تلاش کیجئے ان کے جسمانی ریمانڈ مت مانگیے۔ ایہہ پتر وی ہٹاں تے نہیں وکدے، آہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).