خواتین کے بیگز، فیشن بھی، کارآمد بھی اور آرٹ بھی


بیگ یا پرس فیش کی ایک انوکھی قسم ہیں۔ انھیں جس کے کسی حصے کو بند کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جس کے نتیجے میں ایسی چیزیں ایجاد ہوئیں جو کہ فقط فیشن ہی نہیں بلکہ وہ فن بھی ہیں۔

حالیہ برسوں میں یہ رجحان اپنے منطقی انجام کو پہنچا ہے کیونکہ برانڈز ٹریسی ایمن اور مارک کوئن جیسے عمدہ فنکاروں کے ساتھ مل کر ایسے بیگز کی تیاری کرتے ہیں جو گیلری میں جگہ سے باہر نظر نہیں آتے ہیں۔ اور واقعی وہ جگہ ہے جہاں انہیں وی اینڈ اے کی نئی نمائش میں دیکھا جا سکتا ہے۔

لیکن یہ نہ صرف ان کی جمالیاتی کشش ہے جس کا آرٹ سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ ہرمیس ، چینل اور ڈائر جیسے برانڈز کے ذریعے کلاسیکی تخلیقات کو ان کی سرمایہ کاری کی صلاحیت کے لیے تیزی سے سراہا جارہا ہے۔

ہم بیگز کو پہنتے نہیں ہیں بلکہ ہم انھیں اٹھاتے ہیں۔ سو اس میں یہ آزادی ہے۔ انھیں غیر معمولی طور پر ڈیزائن کیا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ ان کو آسانی سے کتے، مینڈک کی شکل دی جا سکتی ہے۔

وی اینڈ اے کی نمائش کی منتظم لوسیا ساوی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کی سطح کو سجایا جا سکتا ہے یا اس پر پینٹ کیا جا سکتا۔ یہ ایک خالی کینوس ہے جس پر آپ کام کر سکتے ہیں۔ .”

17ویں صدی میں چھوٹے چھوٹے پرس جنھیں سویٹ پرس کہا جاتا تھا کو غیر معمولی شکل جیسے مینڈک کی شکل دینا اور ا میں سونے یا چاندی کے تاروں کی مدد سے خوبصورت پرس بنائے جاتے تھے۔ اشرافیہ میں انھیں بطور تحائف ایک دوسرے کو دیا جاتا تھا۔

ریٹیکیول جو کہ 19 ویں صدی میں ابھرا اور جدید ہینڈبیگ کا کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے کی ہموارسطح تھی۔ اس لیے اس نے فنکارانہ اظہار کے لیے بہترین موقع دیا۔

۔ ساوی نے کہا کہ یہاں ایک سطح سجا دی گئی ہے تاکہ خواتین انہیں مختلف شکلوں اور پھولوں سے سجائیں۔

فنکاروں کی بیگ بنانے کے لیے تخلیقی صلاحیتوں کی عکاسی 1930 کی دہائی سے ہی ہوتی ہے۔

19 ویں صدی کے دلچسپ ڈیزائن جس میں پھولوں کی ٹوکریاں ، مچھلی کے شیل اور انناس کی شکل کے بیگ شامل ہیں نے ان ناگوار چیزوں کے رجحان کو متاثر کیا جو 1930 کی دہائی میں بیگ ڈیزائن میں دکھائی دیتے تھے۔

پیرس کے این میری جیسے ڈیزائنرز نے ٹیلیفون، شیمپین کولر اور یہاں تک کہ ریڈیو کی شکل کے حیرت انگیز طور پر انوکھے بیگ تیار کیے۔

اس کے نتیجے میں ہنگری کے امریکی ڈیزائنر جوڈتھ لیبر کی جیول جیسی تخلیقات پر بھی اثر پڑا جس کی طلب کے بعد شام کے تھیلے،اسپرگس کے جھنڈ سے لے کر لپ اسٹک تک ہر چیز کی شکل کے بیگز شامل ہیں۔

1990 کی دہائی میں برطانوی ڈیزائنر لولو گینس کے پھولوں کی ٹوکری کی شکل میں آنے والے بیگز خواتین کے تین جہتی پھولوں والے بٹوے کی مثال کے طور پر دیکھتے جا سکتے ہیں۔

فنکاروں میں بیگز کی ڈیزائننگ کی صلاحیت 1930 کی دہائی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ ہیلڈے واگنر ایسچر ویانا میں وائنر ورکسٹیٹ کے ساتھ منسلک ہیں اور وہ کلچ ہاتھ میں پکرے جانے والے پرس پر گرافک ڈیزائن کا کام کرتی ہیں۔

ساوی کا کہنا ہے کہ انھوں نے بہت ہی عام اور فیشن کی شکل کو استعمال کیا لیکن اس پر کی جانے والی ڈیکوریشن اور اس کا نمونہ ان کی وائنر ورکسٹیٹ کے ساتھ نمائندگی کا مظاہر ہے۔ یہ ڈیزائن کی وہ تحریک ہے جو ویانا سے باہر نکلی اور یہ جمالیاتی قسم ہے۔

حالیہ دہائیوں میں مختلف برانڈز آرٹسٹوں کے ساتھ مل کر اپنے کلاسک ڈیزائنز میں نئی روح پھونکتے ہیں۔

لوئس وٹن نے بطور خاص اس حوالے سے آرٹسٹوں کے ساتھ کام کیا ہےاس میں انھوں نے سنہ 2001 میں سٹیفن سپروس اور ان کے نیون گرافٹی بیگز کے ساتھ شروعات کیں اور ان کے ساتھ اس کام میں فنی ماہر مارک جیکب تھے۔

تب سے اس برینڈ نے تکاشی موراکامی سے لے کر یایوئی کوساما میت سب کے ساتھ کام کیا۔

ساوی کے مطابق یہ آرٹسٹ کے فن پاروں جیسے تھے بہت کم تعداد میں دستیاب تھے اور ان میں آرٹسٹ مختلف طرح سے اپنے تجربات کیے تھے۔

خریدنا اور استعمال کرنا

جو تجربات کیے گئے ان میں بیتھن لورا ووڈ کی سیریز کے تحت ویلیکسرا کے آئسڈ اور پاسپرٹ آؤٹ بیگز کا تبادلہ شامل تھا۔ اور مارک کوئین کے بدلے لیڈی ائیر کے بیگ شامل تھے۔

راکیل کوفسکی کا کہنا ہے کہ اب بلاشبہ فیشن اور فن کے درمیان بہت مضبوط تعلق ہے۔

کوفسکی کا کہنا ہے کہ برکن کو دنیا کا سب سے پسند کیا جانے والا بیگ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ مشہور ڈیزائن ہے اپنے ہاتھ سے بنائے جانے کی وجہ سے اور یہ کاریگری کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

ہمالیہ برکن کو ہانگ کانگ میں کرسٹی نے سنہ 2017 میں بیچا اور یہ دنیا کا سب سے مہنگا بیف تھا جس کی بولی 29300ہ برطانوی ڈالر لگائی گئی۔ کوفسکی کہتے ہیں کہ اس بیگ میں 18 قیراط وائٹ گولڈ اور ڈائمنڈ کا استعمال ہوا تھا۔ یہ فقط ایک بیگ سے کہیں زیادہ تھا۔ یہ ایک زیور بھی تھا۔ یہ آرٹ کے ایک پہناوے جیسا تھا۔

یہ ایک ہینڈبیگ پر خرچ کے لیے بہت زیادہ رقم ہے لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ رقم کو اچھی جگہ خرچ کیا گیا ہے۔

کوفسکی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سنہ 2008 کے معاشی بحران کے بعد خریداروں نے پیسے خرچ کرنے میں کمی کی تھی۔ لیکن پھر بھی کچھ بیگس مثال کے طور پر ہرمز برکن کی قیمت تب بھی برقرار رہی اور ان کو جمع کرنے والوں نے اپنی رقم کو ان پر لگایا۔ یہ ان کے لیے فیشن کے بجائے ایک اثاثہ تھا۔

بلاشبہ ایک حالیہ رپورٹ میں آرٹ مارکیٹ ریسرچ نے بتایا ہے کہ برکنز کی قیمت میں بینکسی کی نسبت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

کوفسکی کا کہنا ہے کہ ان کلاسک ڈیزائنوں کے شوق کو اس احساس کے ساتھ ابھارا جارہا ہے کہ فیشن کی موجودہ ڈیزائن کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے ماضی کی جانب دیکھ رہی ہے۔

ڈائر کا سیڈلبیگ جس نے پہلی بار 1999 میں آغاز کیا تھا کو ماریا گریزیا چیوری کے تحت واپس لایا گیا ہے۔ اور گوچی میں ایلیسنڈرو مشیل گوچی کے پرانے ڈیزائنز سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔

کوفسکی کا کہنا ہے کہ آپ کی والدہ نے 1970 کی دہائی میں جو ہینڈ بیگ لیا تھا ، اچانک آپ اسے رن وے پر دیکھتے ہو اور اس کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔

ان کی مہنگی قیمت کے باوجود یہ کہیں دھول میں اٹے نہیں پڑے ہوئے۔ کوفسکی کہتے ہیں کہ کچھ لوگ ان خصوصی بیگز کو ضرور خریدیں گے اور انھیں الماریوں میں آرٹ کی طرح رکھیں گے۔

لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ میں نے جن زیادہ تر لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے وہ سب تو نہیں لیکن بہت سے محبت اور شوق میں ان بیگز کو خریدتے ہیں۔ وہ اپنی پسند کی چیزوں اور وہ کیا استعمال کر رہے ہیں اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اس قسم کی سرمایہ کاری کے فیصلے کرتے ہیں۔

یقینی طور پر ہم سب کے چینل فلیپ بیگ یا ڈائر سیڈلیی بیگ لینا اور ہرمیس برکن کو چھوڑ دینا اسے ہی ممکن نہیں جیسے ٹریسی ایمن کے کپرے کے ٹکروں یا پھر مارک کون کے پرنٹ کیے ہوئے بیگز کا۔

یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمیں خود کو انھیں گیلری میں بطور آرٹ کے دیکھ کر ہمیں خود کو مطمین کرنا ہو گا۔

ایسا لگتا ہے کہ ہمیں انھیں آرٹ کے کاموں جیسی گیلری میں دیکھنے کے ساتھ خود ہی مطمئن کرنا پڑے گا۔ جو وہ واقعی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp