عالمی ادارہ صحت کی کورونا وائرس ویکسین کی برآمد پر پابندیاں عائد کرنے پر یورپی ممالک پر تنقید


a nurse receives the Russian vaccine in Bolivia
غریب ممالک میں ابھی تک چند ویکسین پر ہی تجربہ ممکن ہو سکا ہے
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے یورپی ممالک پر کورونا وائرس کی یورپی حدود سے باہر برآمد پر پابندیاں عائد کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات سے وبا پر قابو پانے میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔

یورپی یونین نے یہ پابندی اس وقت عائد کی جب ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے یورپی ممالک کو ویکسین کی فراہمی میں کمی کے امکان پر تنازع پیدا ہوا۔

تاہم عالمی ادارہ صحت کی نائب سربراہ میرانجیلا سیماؤ نے کہا کہ یہ بہت پریشان کن رحجان ہے۔

اس سے قبل ڈبلیو ایچ او کے سربراہ تیدروس ادھانوم غبرائسس نے کہا تھا کہ ویکسین پر قومی تسلط سے اس وبا سے چھٹکارا حاصل کرنے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

ایک آن لائن اعلیٰ سطحی اجلاس، ڈیوس ایجنڈا، میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ویکسین کی ذخیرہ اندوزی سے وبا طویل عرصے تک رہ سکتی ہے، جس سے معاشی بحالی سست روی کا شکار ہو گی اور اس طرح کے اقدامات اخلاقی دیوالیہ کا سبب بنیں گے، جس سے عالمی سطح پر عدم مساوات مزید بڑھ سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان کو بر وقت کووڈ ویکسین مل سکے گی؟

کیا امیر ممالک کووڈ 19 کی ویکسین ’ذخیرہ‘ کر سکتے ہیں؟

امیر ممالک کووڈ ویکسینز ذخیرہ کر رہے ہیں: پیپلز ویکسین الائنس

کورونا کی وبا کے خاتمے میں دو برس لگ سکتے ہیں: عالمی ادارہ صحت

یوریی یونین کیا کر رہی ہے؟

ویکسین کی فراہمی میں کمی کے تنازع کے بعد یورپی یونین اب اپنی حدود میں تیار ہونے والی ویکیسن کی برآمد پر پابندیاں عائد کر رہی ہے۔

اگر ویکسین تیار کرنے والی کمپنی یورپی ممالک کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر پورا نہیں اترتی تو یہ نام نہاد قسم کا شفافیت کا نظام یورپی یونین میں شامل ممالک کو یہ اختیارات دیتا ہے کہ وہ ویکیسن کی دوسرے ممالک تک رسائی پر پابندی عائد کر دیں۔

یورپی کمیشن نے کہا ہے کہ ہمارے لیے اپنے شہریوں کا تحفظ ترجیح ہے اور اس وقت ہمیں جس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے ان میں اس طرح کے اقدامات اٹھانے کے سوا کوئی اور رستہ نہیں بچا ہے۔‘

ان پابندیوں سے دنیا بھر میں سو سے زائد ممالک متاثر ہوں گے، جس میں برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ مگر کئی اور ممالک کو اس پابندی سے استثنیٰ حاصل ہے جس میں غریب ممالک بھی شامل ہیں۔

تاہم یورپی یونین کو اس طرح کی پابندی کے اقدامات سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا، جب سرحد کی دوسری طرف آئرلینڈ، ڈبلن اور لندن میں اس کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔

یورپی یونین کا اصرار ہے کہ اس کی طرف سے پاپندی عائد کرنے کا یہ قدم عارضی ہے اس کا مقصد ویکسین کی برآمد کو روکنا نہیں ہے۔

A nurse inoculates a fellow health worker in Naples, Italy. 27 Dec 2020

ایسا اب کیوں ہو رہا ہے؟

یہ خبر اس وقت سامنے آئی جب یورپی ممالک کا ویکیسن تیار کرنے والی کمپنی آسترا زینیکا سے ویکسین کی سپلائی اور تقسیم میں سست روی پیدا ہونے پر تنازع پیدا ہوا۔

اس سے قبل جمعے کو یورپی کمیشن نے اپنے مؤقف کی حمایت میں آسترا زینیکا کمپنی کے ساتھ اپنا ایک خفیہ معاہدہ بھی عام کیا ہے، جس کے تحت یہ کمپنی یورپین ممالک کو جلد ویکسین فراہمی کے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

یہ معاہدہ فارماسوٹیکل کمپنی کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ ویکسین کی تیاری اور اس کی تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔

آسترا زینیکا نے ویکسین کی ترسیل میں تاخیر کی وجہ نیدر لینڈ اور بلجیئم میں پلانٹس میں خرابی اور اس معاہدے میں تاخیر بتائی ہے۔

یورپی یونین کی طرف سے جاری کردہ نئے ضوابط کے تحت اس کمپنی کو یورپین یونین کی حدود سے باہر ویکسین کی فراہمی سے قبل اجازت لینا ہو گی۔ کمپنی کی طرف سے برآمدگی اجازت کی درخواست پر یورپین یونین کے تمام 27 ممالک غور کریں گے۔

فائزر کمپنی کی طرف سے بلجیئم میں تیار کردہ ویکسین اس وقت برطانیہ برآمد کی جا رہی ہے۔

یورپی یونین کا اصرار ہے کہ آسترا زینیکا کمپنی کی طرف سے جو ویکیسین برطانیہ کے اندر تیار ہو رہی ہے، معاہدے کے تحت یورپی یونین کے شہریوں کا اس پر پہلا حق ہے۔

یورپین یونین کا فائزر کمپنی سے بھی ویکسین کی سپلائی پر تنازع ہے، جو معاہدے کے تحت مارچ تک یورپین یونین کو اس مقدار میں ویکسین فراہم نہیں کر سکے گی۔ فائزر نے اس کمی کی وجہ بلجیئم میں ہنگامی بنیادوں پر کمپنی میں توسیع کو بتایا ہے۔

برآمدگی پابندیوں سے کن ممالک کو استنثیٰ حاصل ہے؟

یورپی یونین نے ویکسین کی اپنی سرحد کے باہر برآمد پر 92 اسثنیٰ بھی دے رکھے ہیں، جس میں کوویکس‘ کو یہ ویکسین دی جا سکتی ہے، جس سکیم کے تحت غریب ممالک کی مدد کی جاتی ہے اور وہاں اس ویکسین کی تقسیم کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ، مغربی بالکن ریاستیں، ناروے اور شمالی افریقہ کو ان پابندیوں سے استثنیٰ حاصل ہے۔

بحریہ روم والے ممالک جس میں لبنان اور اسرائیل شامل ہیں پر بھی ویکسین فراہمی پر پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔

EU Health Commissioner Stella Kyriakides

یورپی یونین کی ہیلتھ کمشنر سٹیلا کیرائکیدز

سنیچر کو عالمی ادارہ صحت کے ترجمان مارگریٹ ہارس نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سے قبل کہ ہر ملک اس ویکسین کا بڑا حصہ لے، یہ ویکسین دنیا بھر میں تمام کمزور طبقات اور طبی عملے کو دی جانی چائیے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ جیسے امیر ممالک جب ملکی سطح پر ترجیحی طبقات کو ویکسین لگا چکے ہوں گے تو پھر انھیں ملکی سطح پر یہ مہم روک کر باہر کے ممالک میں جا کر مدد کرنا ہو گی۔

وہ کہتی ہیں کہ ہم تمام ممالک کو ایسے حالات میں ایسا کرنے کو کہہ رہے ہیں، ٹھہریے، ایسے طبقات کا انتظار کیجئے۔ بجائے اس کے کہ آپ کسی ایک ملک کے لوگوں کو جلدی سے ویکسین لگائیں۔ اس کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنا ہے اور یہ ہم نے سب نے مل کر کرنا ہے۔

ان کے مطابق ابھی تک کورونا ویکسین کے خلاف تیار کی جانے والی 95 فیصد ویکسین صرف دس ممالک کے پاس ہے جبکہ ابھی تک صرف دو کم اور متوسط آمدنی والے ممالک نے ویکسین لگانے کا عمل شروع کیا ہے۔

یورپی یونین نے مندرجہ ذیل کمپنیوں کے ساتھ ویکسین کے معاہدات کر رکھے ہیں:

آسترا زینیکا ۔۔۔ 400 ملین

سانوفی۔ جی ایس کے 300 ملین

جانسن اینڈ جانس ۔۔ 400 ملین

فائز بائیو این ٹیک ۔۔ 600 ملین

کیور ویک ۔۔ 405 ملین

موڈرنا ۔۔ 160 ملین

جیسے جیسے ممالک کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، دباؤ بڑھ رہا ہے

بی بی سی کی یورپ کی ایڈیٹر کیتیا ایڈلر کا کہنا ہے کہ کچھ یورپی ممالک برسلز سے بے صبری کے ساتھ پیش آ رہے ہیں، جسے یہ امید ہے کہ اس کی ویکسین خریدنے کی سکیم یورپین یکجہتی اور استحکام کا باعث بنے گی۔

بی بی سی کے نمائندے کے مطابق کمیشن کا مذاکراتی عمل، یورپی یونین کے میڈیکل ریگولیٹر کی طرف سے ویکسین کی منظوری کا مرحلہ اور اب ویکسین کی فراہمی میں تاخیر سے یورپی یونین کے شہری اب کئی جوابات چاہتے ہیں اور وہ اس حوالے سے سخت اقدامات کے خواہاں ہیں۔

مستقبل میں جرمنی کی ممکنہ چانسلر، مارکس سودر، نے جمعے کو زیڈ ڈی ایف ٹی وی کو بتایا ہے کہ یہ ان کا تاثر ہے کہ کمیشن نے اس ویکسین کے لیے بہت تاخیر سے آرڈر دیا ہے اور صرف چند کمپنیوں پر ہی انحصار کیا ہے۔ ان کے مطابق ان ممالک نے یورپی یونین کے لگے بندھے بیوروکریٹک انداز میں قیمتوں کا تعین کیا اور صورتحال کی درست جائزہ نہیں لیا ہے۔

جمعے کو فرانس کے صدر ایمینوئل مکخواں نے آسترا زینیکا کمپنی کی ویکسین پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ کتنی کارآمد ہے اور کہا ہے اس کا 65 سال سے زائد افراد پر اثر بہت کم ہوتا ہے۔

فرانسیسی صدر کے اس دعوے کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سر جون بیل، جو اس ویکسین کی تیاری کے مرحلے کا خود حصہ رہے ہیں، نے مسترد کر دیا ہے۔

سر جون نے بی بی سی ریڈیو فور ٹوڈے کے پروگرام میں بتایا کہ انھیں یہ شک ہے کہ یہ فرانس کے صدر کی طرف سے ڈیمانڈ مینجمنٹ کا ایک حربہ ہے۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا فرانس کے صدر نے ایسا اس وجہ سے کہا ہے کہ تا کہ اس ویکیسن کی طلب میں کمی لائی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا اگر آپ کے پاس یہ ویکسین نہیں ہے تو پھر آپ کے پاس بہتر آپشن یہی رہ جاتا ہے کہ آپ اس کی طلب میں کمی لائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32548 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp