پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے


23 مارچ 1931 کو بھگت سنگھ ، سکھ دیو تھاپڑ اور شیورام راج گرو کو دہشت گردی کے جرم میں لاہور ڈسٹرکٹ جیل میں پھانسی دی گئی۔ فسادِ خلق کے خوف سے نوآبادیاتی انگریز سرکار نے جیل کی پچھلی دیوار توڑ کر تینوں کے جسد ایک گاڑی میں رکھے اور گنڈا سنگھ والا حسینی والا کے قریب ان کا کڑے پہرے میں انتم سنسکار کیا اور راکھ دریاِ ستلج میں بہا دی۔

آزادی کے بعد حسینی والا میں تینوں کی باقاعدہ سمادھی تعمیر کی گئی تاکہ ان کو یاد کر کے پھول چڑھانے والوں کو آسانی ہو سکے۔

انگریز سرکار کی عینک سے دیکھیں تو یہ سوچ سمجھ میں آتی ہے کہ میت کو ورثا کے حوالے کرنے اور پھر عوام کی جنازے میں ممکنہ کثیر شرکت دراصل دہشت گردوں کو ہیرو بنانے کے مترادف ہو گی۔

پیر صاحب پگارا صبغت اللہ شاہ راشدی المعروف سوریا بادشاہ کو سندھ میں ریاست کے اندر ریاست بنانے، انگریز سرکار کے خلاف بغاوت، شورش اور دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی اور 20 مارچ 1943 کو حیدرآباد جیل میں پھانسی دی گئی ۔مگر لاش ورثا کے حوالے کرنے کے بجائے کہاں دفنائی گئی۔

آج تک لوگ اندازے لگا رہے ہیں۔

انگریز سرکار کی عینک سے دیکھا جائے تو اس نے یہ اقدام یوں درست جانا کہ ایک باغی دہشت گرد کی لاش کے ہیرو جیسے استقبال کی اجازت دینے سے لوگوں کے دل پر ریاستی ہیبت نہیں رہتی۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما مقبول بٹ کو انڈین عدالت نے دہشت گردی کا مجرم قرار دیا۔ چنانچہ انھیں 11 فروری 1984 کو دلی کی تہار جیل میں پھانسی دے دی گئی اور ورثا کو آخری دیدار کا موقع دیے بغیر لاش کو جیل کے احاطے میں ہی دفن کر دیا گیا۔

آج تک سری نگر کے مرکزی قبرستان میں ایک خالی قبر موجود ہے جو مقبول بٹ کے جسد کا انتظار کر رہی ہے۔

مقبول بٹ کی برسی

اگر انڈین حکومت کی عینک سے دیکھا جائے تو عدالت کی نگاہ میں مقبول بٹ لاکھ مجرم سہی لیکن اس کی لاش ورثا کے حوالے کرنے اور جنازے کی کھلی اجازت دینے سے نقصِ امن کا شدید خطرہ ہو سکتا تھا۔

ایک اور کشمیری افضل گرو کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ دہشت گردی کی پاداش میں عدالتی سزائے موت کے بعد نو فروری 2013 کو خاموشی سے پھانسی دے کر تہار جیل میں دفن کر دیا گیا۔ بعد ازاں افضل کے خاندان کو ایک سرکاری چٹھی کے زریعے باضابطہ اطلاع دی گئی۔

اور اب یہ ریاستی رسمِ احتیاط انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں عام ہو گئی ہے کہ جو جو نوجوان مقابلے میں مارا جاتا ہے اس کی کہیں دور دراز تدفین کے بعد ہی ورثا کو اطلاع دی جاتی ہے۔

اس اعتبار سے پاکستانی ریاست قدرے غنیمت ہے۔

معزول وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے جرم میں عدالتی فیصلے کے نتیجے میں چار اپریل 1979 کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں پھانسی دیے جانے کے بعد ان کی لاش بیوہ اور بیٹی کے حوالے کرنے کے بجائے نقصِ امن کے خدشے کے پیشِ نظر ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے زریعے گڑھی خدا بخش پہنچائی گئی۔

گاؤں میں موجود معدودے چند دور پرے کے رشتے داروں کو نمازِ جنازہ پڑھنے کی اجازت ملی اور کڑے پہرے میں تدفین عمل میں آئی اور پھر اس قبر نے رفتہ رفتہ مزارِ عام کی شکل اختیار کر لی۔

پاکستان کے سابق نائب وزیرِ دفاع، سابق گورنر و وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نواب اکبر بگٹی کو کسی عدالت نے سزائے موت نہیں دی۔

جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ہلاکت کی سرکاری وجہ یہ بتائی کہ اکبر بگٹی ریاستی دستوں کی جانب سے اپنی گرفتاری کی مزاحمت کے دوران ایک پہاڑی غار میں 26 اگست 2006 کو ہلاک ہو گئے۔ مگر ریاست کو پہلے سے محصور ڈیرہ بگٹی میں بھی نقصِ امن کا خطرہ تھا۔ لہٰذا نواب صاحب کے تابوت کو تالا لگا کر محدود نمازِ جنازہ کی اجازت دی گئی اور وہیں تدفین ہو گئی۔

البتہ کریمہ بلوچ کی کہانی مندرجہ بالا کسی بھی کہانی سی مطابقت نہیں رکھتی۔

وہ نہ اشتہاری تھی اور نہ ہی کسی کے قتل یا ریاست سے بغاوت کی عدالتی مجرم۔ وہ ایک خود ساختہ جلا وطن بلوچ ایکٹوسٹ تھی جس کی لاش ٹورنٹو کی ایک جھیل میں تیرتی ہوئی پائی گئی۔ کینیڈا کے تحقیقاتی اداروں کا بھی خیال ہے کہ اس کی موت حادثاتی تو ہو سکتی ہے مگر قتل یا زور زبردستی سے ڈبوئے جانے کے شواہد دستیاب نہیں۔

کینیڈا میں پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ کریمہ کی موت کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں کیونکہ وہ پاکستانی شہری تھی۔

اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کریمہ کا جسد جب وطن واپس پہنچا تو کسی بھی عام پاکستانی شہری کی طرح اس کا تابوت ورثا کے حوالے کر دیا جاتا تاکہ وہ اپنی مرضی و منشا سے اس کی تدفین کے انتظامات کر سکتے۔ مگر جس طرح کریمہ کے تابوت کو سرکاری پہرے میں باعجلت اس کے آبائی گاؤں پہنچایا گیا اور تمام راستے بند کر کے صرف گاؤں کے لوگوں کو نمازِ جنازہ اور تدفین کے عمل میں شرکت کی اجازت دی گئی۔

اس سے یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر ریاست بھی کریمہ کی موت کا سبب جاننے میں باضابطہ دلچسپی رکھتی ہے اور کریمہ کوئی عدالتی مجرم یا دہشت گرد بھی نہیں تھی تو پھر ایک غیر نوآبادیاتی، جمہوری سویلین حکومت کو اتنی پہرے داری و عجلت کا اہتمام کیوں کرنا پڑا۔

تمب آخر کتنا بڑا گاؤں ہے، جس میں آس پاس کے سوگوار پہنچ جاتے تو ٹریفک جام ہوجاتا یا اہم سرکاری عمارتوں کو خطرہ لاحق ہو جاتا یا پروازیں معطل ہو جاتیں۔ زیادہ سے زیادہ کتنا بڑا ہجومِ سوگواراں ہوتا ؟ بے قابو بھی ہو جاتا تو کیا توڑ پھوڑ لیتا؟

نہ ہم سمجھے، نہ آپ آئے کہیں سے

پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے (انور دہلوی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).