1950ء کی دہائی: گورنمنٹ کالج لائل پور میں میرے اساتذہ کرام


ہمارے کالج کی تعلیم کے چار سال اب وہ آخری چند سال محسوس ہوتے ہیں جب طلبا تعلیم کے حصول اور اساتذہ کی تکریم کو فرض سمجھتے تھے۔ اساتذہ پوری لگن سے پڑھا کر اور تربیت کر کے سکون محسوس کرتے تھے۔ ان یادوں کو دہرانے کا محرک چند روز قبل فیس بک پر مشہور لیڈر اور ضیاء دور کے وزیر میاں زاہد سرفراز کے ذکر پر فلم کی طرح ذہن کے پردے پہ آنے والے وہ مناظر تھے جب انہوں نے انتہائی لگن سے پڑھانے والے پروفیسر شمس التوحید کو کلاس پڑھاتے ہوئے ان کی کرسی نیچے سے کھینچ کر انہیں گرایا تھا اور یوں تعلیمی ماحول کی تباہی کی ابتدا کی تھی۔
انیس سو چھپن میں میٹرک کے نتائج آنے کے بعد گھر کے مالی حالات انتہائی ابتر ہو چکے ہونے کے باوجود گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں داخل ہو گئے کہ چلو سکالر شپ کا کچھ سہارا رہے گا۔ آج سوچتا ہوں کہ اگر یہ اساتذہ اتنی لگن سے اور طلبا میں علم واقعی تقسیم کرنے کی نیت سے نہ پڑھاتے تو ہم جن کی پڑھائی صرف ہر لیکچر توجہ سے سننے کی حد تک تھی ہمیشہ معقول نمبروں میں پاس نہ ہو سکتے۔ گزری ہوئی دلچسپیوں کو یاد کرتے اکثر اساتذہ اور ان کی شفقت اور احسانات روشنی بکھیرتے ہیں۔ آج یادیں ان کے لئے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے بھی مذکور ہوں گے جن سے شاید ایک پیریڈ بھی نہ پڑھا ہو
یاد رہے وہ زمانہ شاہی سواری کا تھا یعنی محمود و ایاز زیادہ سے زیادہ بائیسکل پر ہی سفر کرتے۔ اور کالج جاتے جب کہیں کوئی پروفیسر اپنے سے آگے ذرا آہستہ جاتے نظر آتے تو طلبا کبھی ان سے آگے نکلنے کی کوشش کو بے ادبی خیال کرتے رستہ تبدیل کر لیتے۔ ہاں جب ذرا شناسائی بڑھی وقت ہوتا تو ساتھ شامل ہو جاتے چار پانچ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتے کئی بار چار پانچ اساتذہ اور آٹھ دس شاگردوں کا قافلہ اکٹھے کالج پہنچتا۔ چھپن کے اوائل تک ہماری رہائش ستیانہ روڈ پر لائل پور کا تقریباً آخری گھر تھا اور پیپلز کالونی کی سڑکیں مکمل ہونے کو تھیں۔ مگر کالج کے پہلے سال ہی میں آبادی ہونے سے وہاں رہائش پذیر ہونے والے آٹھ دس پروفیسر صاحبان سے مشایعت کا شرف بھی حاصل ہونے لگ گیا۔
گورے چٹے دراز قد متاثر کن شخصیت والے ظفر اقبال دھیمی آواز اور چاشنی بھرے انداز میں انگلش پڑھاتے۔ ایک روز باتوں کے موڈ میں آئے بتانے لگے۔ ”میں تقسیم ملک سے پہلے اسی کالج میں پڑھا ہوں۔ ہمیں حساب پڑھانے والے سردار پنجاب سنگھ تھے۔ اسی کمرے میں کلاس میں داخل ہوئے تو بلیک بورڈ پر چاک سے لکھا دیکھا۔ پنجاب از آور مدر لینڈ۔ دوبارہ پڑھا۔ لیکچر پورا کیا۔ چاک اٹھایا۔ اس کے نیچے لکھا۔ پنجاب از یوؤر فادر لینڈ ٹو۔ اور بغیر کچھ کہے ہلکا مسکراتے کمرہ سے باہر نکل گئے۔“
ہمیں کالج چھوڑے دو تین سال ہی ہوئے تھے کہ خبر ملی کالج سے واپس بھوانہ بازار میں مجید بک ڈپو کے سامنے اچانک سائیکل سے گر کر ظفر اقبال خدا کے حضور حاضر ہو گئے۔ خدا مغفرت فرمائے۔
مکرم سعید الدین احمد ڈار صاحب تاریخ کے پہلے لیکچرر کے تبادلہ کے بعد تشریف لائے۔ ہلکی داڑھی۔ پاٹ دار مخصوص لہجہ۔ ایم اے کا تھیسس تغلق بادشاہ محمد تغلق پہ لکھا تھا۔ اس کے متعلق پھیلی کہانیوں کا مدلل رد کرتے انہیں بس وقت سے دو سو سال پہلے آ جانے والا ثابت کیا تھا۔ کالج کی ڈرامہ کلب کے انچارج ہو گئے۔ ڈار صاحب۔ سرور نیازی مع چھوٹے بھائی اور ایک دو اور لیکچرر 564 بی پیپلز کالونی میں مشترکہ میس بنا کر رہائش پذیر ہوئے۔ ادھر 492۔بی میں اشرف چوہدری، ان کا چھوٹا بھائی سلیم اختر (میرا کالج کے رستے میں بنا پہلا دوست)، انور چوہدری ( بعد میں کھیلوں کی کسی فیڈریشن کے سربراہ بنے) ان کا چھوٹا بھائی اور شاید ایک اور لیکچرر رہتے۔ سلیم سے دوستی کے باعث اس گھر آنا جانا شروع ہوا تو ان دونوں گھروں کے باسیوں سے شناسائی ہو گئی۔ اور مشایعت بھی ہو جاتی۔
1958ء کے اوائل میں کالج کی ہسٹری سوسائٹی کا کوئی پچیس لڑکوں کا گروپ ان کی سربراہی میں ٹور پر نکلا۔ دو تین لڑکوں کا تو ٹرین ہی کا پہلا سفر تھا۔ کراچی سٹی سٹیشن کے پاس آسٹوریا ہوٹل میں قیام ہوا سارا دن ایوب مارشل لا سے کچھ قبل کا کراچی دیکھتے۔ رات کو وہ دھما چو کڑی مچتی کہ الامان۔ یہ دورہ میرے لئے روشن مستقبل کا پیش خیمہ اور رہنما بنا۔ ڈینسو ہال مع فیضی رحیمن آرٹ گیلری دیکھنے گئے تو سامنے ہارڈویئر ہول سیل مارکیٹ کے ایک کیبن والے چھوٹے سے دکاندار کے پاس کھڑے ہو کر کچھ پتہ کیا۔ تو اس نے ایک روزی کے لئے جدوجہد کرتا طالب علم سمجھتے ہوئے بہت شفقت سے کراچی سے مال منگوانے کے طریقے اور کچھ رموز بتائے۔ نرخ لاہور سے بہت کم تھے۔
اسی طرح قائد اعظم مقبرہ کی زیارت سے واپسی پیدل آتے ایم اے جناح روڈ پر پلازا سکوائر آٹو مارکیٹ میں چند منٹ رکنا آج ایک خدائی مدد نظر آتا ہے۔ ڈار صاحب کے آثار قدیمہ شعبہ سے وابستہ ایک دوست ساتھ شامل ہو گئے اور کراچی۔ نواب شاہ وہاں سے بھٹ شاہ۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے روضہ سے نکل کوئی چھ میل پیدل ریلوے لائن کے ساتھ چلتے ہالہ میں مخدوم نوح کا مزار اور واپس کوٹری سے موہنجوڈرو سکھر میں بیراج دیکھتے واپسی کا یہ چکر ایک پر لطف بہت کچھ سکھاتے یادگار اور ڈار صاحب کی معیت کی سعادت کا باعث بنا۔ کالج کے بعد بس 80ء کی دہائی میں ان کو اور پروفیسر مرزا محمد منور مرحوم کو ضیا دور میں ان کی حمایت میں ٹی وی پروگرام میں دیکھا۔

بی اے میں انگریزی محترم پروفیسر سعید الحسن رضوی صاحب سے پڑھی۔ خاصے معمر (پچپن سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ ملنے کے زمانے میں پچاس سے اوپر نکلنے والا شاید خود بھی نفسیاتی طور اپنے آپ کو بوڑھا محسوس کرتا ہوگا) سفید بال ہر وقت مسکراتا چہرہ اور بے مثال حاضر جوابی اور ہلکے مزاح کی حس سے بھر پور یہ بوڑھا جوان کمال کا کا استاد تھا۔ لیکچر سے توجہ ہٹتی ہی نہ تھی۔
چارلس ڈکنز کے ناول کے تذکرہ میں جب مصنف کے آخری عمر میں ایک گھناؤنے (اب تو اکثر ممالک میں باعث افتخار قانونی اجازت یافتہ) جرم میں جیل جانے کا ذکر کیا تو ہمارے ایک خلیفہ ساتھی نے جو چار پانچ سال سے اسی کلاس ہی میں تھے بآواز بلند پوچھنا شروع کیا۔ ”سر وہ کیا کر رہا تھا“؟ سر سوال نظر انداز کر گئے مگر جب اس نے شرارتی انداز میں لیکچر میں تیسری مرتبہ دخل اندازی کرتے یہی سوال داغا۔ تو رضوی صاحب نے کتاب میز پر رکھی اسے کھڑا ہونے کا کہا اور بڑے اطمینان سے بغیر ناراضی ظاہر کیے۔ صرف اتنا کہا۔ ”جو تم بھی اکثر کرتے ہو گے۔ بس تم پکڑے نہیں جا سکے وہ پکڑا گیا تھا“ کلاس زعفران تھی اور رضوی صاحب اسی اطمینان سے اپنا لیکچر دوبارہ شروع کر چکے تھے۔
بھیرہ سے تعلق رکھنے والے محترم پروفیسر مرزا محمد منور صاحب انتہائی رکھ رکھاؤ کے ساتھ ہمیشہ شلوار قمیض اور سردیوں میں شیروانی پہنے نظر آئے۔ ہم براہ راست ان کے شاگرد کبھی نہیں رہے ایف اے میں عربی کے استاد چھٹی پہ گئے یا بی اے میں اردو آپشنل کے تو چند روز ان کی علمیت کی گہرائی کا ذائقہ چکھا۔ ایسے پیریڈز میں کورس کی پڑھائی کم اور دیگر موضوعات پہ بات زیادہ ہوا کرتی۔ عربی کے پیریڈ میں انکشاف کیا کہ زندگی کی جدوجہد میں ریلوے کی ملازمت سے ابتدا کی۔ ساتھ ساتھ تعلیم کی پیاس بجھاتے عربی میں خاصی روانی اور استعداد پیدا ہو چکی تھی۔ برطانوی دور میں جب مصری لیڈر نحاس پاشا ہند آئے اور خیبر پاس کا دورہ کرتے لنڈی کوتل یا اس کے کسی قریبی سٹیشن پر رکے تو یہ وہاں کے اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر تھے۔ ان سے عربی میں ہی گفتگو کرتے رہے جس پہ نحاس پاشا بہت خوش ہوئے۔
ایک دفعہ پروفیسروں کی دماغی غیر حاضری کا ذکر چلا تو یہ دلچسپ واقعہ سامنے آیا۔ فرمایا۔ ”میری عادت رہی کہ نماز فجر کے بعد حوائج ضروریہ سے فارغ ہوتے ایک ہلکی سی چھوٹی کلہاڑی ہاتھ میں لئے سیر کو نکل جاتا اور رستہ میں کلہاڑی ہاتھ میں گھماتا جاتا۔ کلہاڑی سے پھلاہ کے درخت سے مسواک کے لئے شاخ کاٹ تراش کر مسواک کرتا واپس آتا۔ ایک دن حسب معمول گھر سے خاصی دور آ کر جونہی کلہاڑی گھمائی میرے اوپر پانی کے چھینٹے آ گرے۔ دیکھا تو بجائے کلہاڑی میرے میں ہاتھ میں پانی والا لوٹا ہی تھا“

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3