الحمرا کے محلات اور باغات


غرناطہ ریلوے اسٹیشن پر اتر کر سب سے پہلے واپس میڈرڈ جانے کے لئے سیٹ بک کروا کر ٹکٹ خریدا۔ اگلی رات کو روانہ ہونے والی گاڑی منتخب کی تھی جسے صبح کے وقت میڈرڈ پہنچنا تھا۔ بکنگ کلرک کو برتھ کے لئے کہا تھا تاکہ رات آرام سے گزرے۔ ٹکٹ لینے کے بعد جب تصدیق کرنا چاہی تو اس کے تاثرات سے اندازہ ہوا کہ شاید وہ بات نہیں سمجھ سکا تھا۔ میں نے اشارے سے بتایا کہ میں سوتے ہوئے سفر کرنا چاہتا تھا تب اس نے بات سمجھی اور مجھ سے تقریباً اتنی ہی رقم مزید طلب کی جس کی ادائیگی کے بعد اس نے مجھے برتھ کے لئے ایک چٹ دے دی۔

غرناطہ ریلوے سٹیشن قرطبہ سے بڑا تھا اور با رونق بھی۔ اس شہر میں سیاحوں کی تعداد بھی قرطبہ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ سٹیشن سے باہر نکلا اور ایک ٹیکسی والے سے کہا کہ شہر میں کسی ہوٹل پر لے جائے۔ بیس پچیس منٹ کی مسافت پر بارونق جگہ میں ایک ہوٹل کے سامنے اس نے اتار دیا۔ سپین میں ہر ہوٹل کے باہر معیار کے مطابق ستارے لگے ہوتے تھے جس سے ہوٹل کے چناؤ میں آسانی رہتی ہے۔ میرا انتخاب تین ستاروں کا ہوتا جہاں سہولتیں اور نرخ تقریباً ایک جیسی ہوتیں۔ کاؤنٹر سے کمرے کی چابی لی اور لابی میں دوسرے کاؤنٹر سے رات کا ایک ٹور بک کروا لیا۔

کمرے میں ریلیکس کرنے کے بعد باہر جا کر گھومتے ہوئے کچھ وقت گزرا۔ بازاروں اور سڑکوں پر رونق تھی۔ سپین تو یورپ کے مقابلے میں سستا ملک ہے مگر غرناطہ میں دوسرے شہروں کی نسبت ارزانی زیادہ ہے۔ مغرب سے پہلے ہوٹل پہنچ گیا اور کمرے میں جانے سے پہلے اگلے روز کے لئے دو ٹور مزید بک کروا لئے۔ ایک صبح کا اور دوسرا بعد از دوپہر۔ کمرے میں گھنٹہ بھر آرام کرنے کے بعد گروپ کے ساتھ رات کے ٹور کے لئے روانہ ہو لیے۔ پہلے تو مختلف مقامات پر گھماتے رہے اور رنگا رنگ روشنیوں میں ابھرتے ہوئے غرناطہ کے عکس دکھاتے رہے۔

آخر میں ایک ہوٹل میں کھانا کھایا۔ بعد میں وہیں پر ایک ثقافتی پروگرام کا اہتمام تھا جس میں نمایاں پیشکش فلیمنگو ڈانس تھا۔ یہ سپین کا خصوصی ڈانس ہے جس میں ڈانسر کے جوتے کی ایڑی ڈانسنگ فلور پر لگنے سے پیدا ہونے والی ٹک ٹک کی آواز کو ڈانس کے سٹیپس کی ترتیب ایک دھن میں بدل دیتی ہے۔ یہی دھن اس ڈانس کا میوزک ہے یا ساتھ ایک گٹار بھی پلے ہوتا ہے۔ خاتون ڈانسر روایتی طور پر پولکا ڈاٹس والا فرل لگا فراک پہنتی ہے جبکہ مرد سیاہ پتلون کے ساتھ سفید یا سرخ شرٹ یا پھر سیاہ سوٹ۔ ڈانس کے لئے جوتے مخصوص ہوتے ہیں جن کی ہیل اور ٹو کے نیچے کیل لگے ہوتے ہیں۔ پروگرام کے اختتام پر اپنے ہوٹل پہنچے تو گیارہ بج چکے تھے۔

اگلی صبح نو بجے گروپ روانہ ہوا۔ یہ ٹور الحمرا محلات اور باغات کے لئے مخصوص تھا جسے دیکھنا غرناطہ جانے والے ہر سیاح کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ الحمرا محلات ایک چھوٹی سی پہاڑی پر سطح مرتفع پر بنائے گئے ہیں اور غرناطہ شہر اسی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔ ٹور کی تفصیلات بتانے سے پہلے گائیڈ نے پوچھا کہ امید ہے کہ سب شرکاء ہسپانوی یا پرتگیزی زبان سمجھتے ہیں۔ سب کا جواب ہاں میں تھا مگر میری خاطر گائیڈ نے اپنا تحاطب انگریزی زبان میں رکھا۔محلات کے ساتھ ساتھ وہاں خوبصورت باغات بھی نظر آتے ہیں۔ یہ تعمیرات تیرہویں، چودھویں اور پندرہویں صدی کی ہیں۔ ابتدا تو کچھ تعمیراتی کام 889 عیسوی سے شروع ہوا لیکن اصل تعمیرات سقوط قرطبہ کے بعد کے زمانے کی ہیں جب خاندان بنو نصر نے قرطبہ میں شکست سے دو چار ہونے کے بعد غرناطہ کو باقی ماندہ سلطنت کا دارالحکومت بنایا تھا۔

الحمرا محلات کی درجہ بندی تین حصوں میں کی گئی ہے جن میں سے ایک فورٹریس ہے ، دوسرا سلطان کے تخت اور امور سلطنت والا اور تیسرا رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہونے والا۔ ان محلات کو الحمرا کا نام ان کی سرخ رنگت کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ فورٹریس کی تعمیر سب سے پرانی ہے۔ تعمیر کے اعتبار سے بہت مضبوط بنا ہوا ہے۔ اس کی دو حفاظتی دیواریں ہیں ، اس قلعہ کو کوئی بھی حملہ آور فتح نہ کر سکا حتی کہ سقوط غرناطہ کے وقت بھی سلطان نے ہتھیار ڈال دیے تھے اور اسے جنگ کر کے فتح نہیں کیا گیا۔ قلعہ کی دیواریں تو اب بھی ویسی ہیں لیکن اندر کی تعمیرات کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔محلات ابھی تک شکست و ریخت کا شکار نہیں ہوئے جس کی ایک وجہ تو ان کی مضبوط تعمیر اور دوسرے ان کی مناسب دیکھ بھال۔

الحمرا کے محلات کی تعمیر کی خصوصیت یہ ہے کہ بہت کشادہ اور روشن ہیں۔ در و دیوار پر خوبصورت نقش و نگار کے علاوہ ہر جگہ لا غالب الا اللہ اس طرح لکھا گیا ہے کہ عبارت آسانی سے پڑھی جاتی ہے اور نقش و نگار کا جزو بھی بنی ہوئی ہے۔ دیواروں کے نچلے حصے میں رنگ برنگی ٹائلوں سے پچی کاری کی گئی ہے اور اوپر والے حصے گلکاریوں سے مزین ہیں۔چھتیں بھی اس طرح منقش ہیں کہ انسان دیکھتا ہی رہ جائے۔ چھتوں پر باہمی سہارا دیتی ہوئی چھوٹی چھوٹی محرابیں بنی ہیں جن پر مختلف رنگوں سے نقاشی کی گئی ہے۔ برآمدے و راہداریاں بھی تعمیراتی حسن کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔ برآمدوں کی چھتیں خوبصورت ستونوں کے درمیان بنی ہوئی متناسب جالی دار محرابوں پر سہارا لیے ہوئے بہت دلکش لگتی ہیں۔

سلطان کے تخت اور دفتری امور والے محل میں برآمدے صحن میں کھلتے ہیں جس کے درمیان میں حوض بنا ہوا ہے۔ حوض کے پانی میں برآمدوں کا خوبصورت عکس ایک حسین منظر پیش کرتا ہے۔اسی طرح سلطان کی رہائش والے محل میں برآمدے جس صحن میں کھلتے ہیں وہاں درمیان میں ایک خوبصورت فوارہ ہے جس کا بڑا سا بیسن بارہ شیروں نے اٹھایا ہوا ہے۔ شیروں کے منہ ایک دائرے میں باہر کی طرف ہیں اور ان کے منہ سے پانی کا اخراج ہو رہا ہے جو دائرے میں بنی ہوئی نالی میں گرتا ہے۔ یہ پانی چار اطراف میں بنی نالیوں میں بہہ کر نکل جاتا ہے۔ اس محل کو شیروں والا محل بھی کہتے ہیں۔ محلات کے لئے پانی یہاں سے آٹھ کلو میٹر دور دریائے درو سے لانے کا انتظام کیا گیا ہے اور ایسا نظام وضع کیا گیا کہ پانی اب تک مسلسل رواں ہے اور بالکل صاف پانی ہر طرف بہتا نظر آتا ہے۔

محلات کے قرب میں حمام بھی بنائے گئے ہیں۔ شاہی حمام کے تین حصے ہیں۔ پہلے ایک بڑا سا مساج والا کمرہ ہے۔ اس کے بعد بھاپ والا کمرہ جہاں سٹیم باتھ کا انتظام ہے۔ ایک کمرے میں گرم اور ٹھنڈے پانی کا انتظام ہے اور آخر میں لباس تبدیل کرنے والا کمرہ۔ حمام میں بھی پانی کا بہاؤ ہمہ وقت ہے۔محلات کی حدود سے باہر کچھ فاصلے پر الحمرا کے باغات ہیں جہنیں جنۃ العریف کا نام دیا گیا ہے۔ اس کمپلیکس میں بہتے پانی اور فواروں کے بیچوں بیچ خوبصورت پھولوں اور پودوں سے مزین باغات ہیں جہاں پر باریک سفید سنگریزوں سے مزین گزر گاہیں بھی ہیں اور پر شکوہ آرام گاہیں بھی۔ پانی کی پھواروں کے ساتھ گزرتے راستے میں فضا کی خاموشی کو توڑتی ہوئی پانی کی جلترنگ پس پردہ موسیقی کا تأثر دیتی ہے۔

الحمرا کے باغات شاہی خاندان نے گرمیوں کا وقت گزارنے کے لئے بنوائے تھے۔ دنیا میں قدیم دور کے یہ واحد باغات ہیں جو اصلی حالت میں قائم ہیں۔جنۃ العریف کی سیر پر ٹور کا اختتام تھا جس کے بعد ہم ہوٹل واپس پہنچ گئے۔ کچھ آرام کرنے کے بعد ہوٹل سے باہر نکلا۔ قریب ہی بس سٹاپ تھا۔ ایک بس آئی اور میں اس میں سوار ہو گیا۔ بس کے اوپر والے ڈیک میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میرا خیال تھا کہ شہر میں گھومنے کے لئے یہ بہتر طریقہ ہے۔ جن راستوں سے بس گزرتی رہی سبھی جگہیں بارونق تھیں اور شہر کی عمارات کا طرز تعمیر جدید تھا۔ میں دیکھتا ہی رہ گیا کہ شاید کوئی پرانی عمارت نظر آ جائے مگر ایسا نہ ہوا۔ تقریباً گھنٹے بھر کے بعد بس وہیں پہنچ گئی جہاں سے میں سوار ہوا تھا۔

چار بجے ہم اگلے ٹور کے لئے تیار تھے۔ ٹور گائیڈ کوسٹر لے کر پہنچ چکے تھے۔ ہم الحمرا والے راستہ پر ہی جا رہے تھے لیکن آخر میں پہاڑی کی بجائے اس کے دامن میں واقع غرناطہ شہر میں پہنچ گئے۔ یہی اصل غرناطہ ہے۔ دراصل پرانا شہر بغیر کسی تبدیلی کے محفوظ کر لیا گیا ہے اور معمولات زندگی کے لئے نیا شہر بسا لیا گیا ہے۔ پرانے شہر میں زیادہ تر ایسے لوگ رہائش پذیر ہیں جو وہیں پر گھریلو دستکاریوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ سیاحوں کو قدیم غرناطہ ثقافتی ورثہ کے طور پر دکھایا جاتا ہے اور ہم یہی دیکھنے آئے تھے۔پرانی گلیاں اور چوراہے اسی طرح پرانے ناموں کے ساتھ محفوظ ہیں۔

گائیڈ نے ایک چوراہے میں بتایا کہ اس کا نام فاطمہ سکوائر تھا۔ قدیم شہر الحمرا محل کی کھڑکیوں سے دیکھنے میں بہت خوبصورت نظر آتا ہے۔ ہم چند گھروں کے اندر بھی گئے جہاں کاریگر مختلف قسم کی سوغاتیں تیار کر رہے تھے۔ تقریباً سبھی نے سوغات کے طور پر اشیاء خریدیں۔اس کے بعد غرناطہ کا گرجا گھر دکھایا گیا جو وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا۔ یہ کافی بڑا گرجا ہے جو ایک مسجد کی جگہ پر بنایا گیا ہے۔ مسلمانوں کی شکست کے بعد عیسائی بادشاہ کے حکم پر شروع میں تو مسجد میں ہی عیسائی عبادت کرتے رہے لیکن بعد میں وہاں پر گرجا بنا دیا گیا۔گرجا دیکھنے کے بعد سورج غروب ہونے کو تھا۔

ہم کوسٹر میں بیٹھ کر روانہ ہوئے۔ کچھ دیر میں ہم غرناطہ کی حدود سے باہر ایک تنگ سی ویران سڑک پر آ گئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اب ہم خانہ بدوشوں کی بستی میں جا رہے تھے۔ یہ دلچسپ بستی غرناطہ سے اونچائی پر ایک پہاڑ کے اندر واقع ہے۔ اس پہاڑ کو یہ لوگ مقدس پہاڑ کہتے ہیں اور بستی کے گھر پہاڑ کے اندر غاریں کھود کر بنائے گئے ہیں۔ ایک خوبصورت جگہ پر کوسٹر رکی اور ہم نیچے اترے۔ساتھ ہی ایک راستہ اوپر پہاڑ میں بنے گھروں ( غاروں ) کی طرف جا رہا تھا۔ تمام گھروں کا فرنٹ جو کہ ایک کمرے کی چوڑائی کے برابر ہے، دیدہ زیب رنگوں سے سجا ہوا تھا۔ چونکہ غار کے منہ پر ہی روشنی ہوتی ہے اس لئے شروع میں ہی باورچی خانہ اور کھانے کے لئے بیٹھنے کی جگہ بنی ہوئی ہے۔ اس سے پیچھے کسی غار میں ایک کمرہ ہے تو کسی میں دو، غار کی لمبائی پر منحصر ہے۔

یہاں کے باسی خانہ بدوشوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شمالی ہندوستان سے سولہویں صدی کے آغاز میں آ کر آباد ہوئے تھے۔ ہمارا گائیڈ بتا رہا تھا کہ یہ لوگ انڈس ویلی سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ ان کا پیشہ گانا بجانا اور ڈانس ہے۔ فلیمنگو ڈانس انہی کی اختراع ہے۔ دن کے وقت یہ علاقہ بے رونق ہوتا ہے۔ رات کو لوگ خاص طور پر سیاح تفریح کی غرض سے یہاں آتے ہیں۔ سیاحوں کو خاص طور پر یہاں کی وزٹ کرائی جاتی ہے۔ ہمیں چند گھر اندر سے بھی دکھائے گئے۔ اور ایک گھر میں ہمارے لئے ڈانس دکھانے کا انتظام بھی کیا ہوا تھا۔ غاروں کے اندر بنے گھروں کی اندرونی سجاوٹ بڑی عجیب و غریب تھی۔ دیواروں اور چھتوں پر دھات کے بنے برتن مثلاً دیگچے، پراتیں، فرائینگ پین، چھاننے اور بڑے چمچے وغیرہ لٹکائے ہوئے تھے۔ میں نے ان کی تصویر اتاری تھی۔اس کے بعد ہوٹل واپس آئے۔

رات کے کھانے کے بعد میں ریلوے سٹیشن کے لئے روانہ ہوا۔ دن بھر کی مصروفیت سے تکان محسوس ہو رہی تھی۔ گاڑی میں اپنی برتھ والی بوگی تک پہنچا۔ کچھ دیر میں گاڑی چل پڑی۔ چند منٹ بعد ریلوے اہلکار پہنچا میں نے اپنا ٹکٹ دکھایا اور برتھ کے بارے میں استفسار کیا۔ اس نے بتایا کہ میرے لئے برتھ نہیں ہے۔ میں نے تحفظ برتھ والی چٹ بھی دکھائی مگر وہ اڑا رہا کہ میرے لئے کوئی برتھ نہیں۔ چند منٹ تکرار ہوتی رہی جس کا زیادہ تر مفہوم نہ وہ سمجھ رہا تھا نہ میں۔آخر اس نے مجھے ایک نشست پر بیٹھنے کا کہا اور چلا گیا۔ میں پریشان تھا کہ اس طرح کے معاملات ہمارے ملک میں تو ہوتے ہیں مگر یہاں میں توقع نہیں کر رہا تھا۔

پندرہ بیس منٹ بعد وہ اہلکار واپس آیا اور مجھے ایک کمپارٹمنٹ میں خالی پڑی ہوئی برتھ دے دی۔ میں نے اللہ کا شکر کیا ورنہ رات بھر بیٹھنا مشکل تھا۔ برتھ پر بستر لگا ہوا تھا۔ اوڑھنے کے لئے قرینے سے کمبل کے ساتھ چادر جوڑ کر تکیے کی طرف باہر کو فولڈ کی گئی تھی۔ تکیہ بھی صاف اور آرام دہ تھا۔ یہ سفری بچھونا ہوٹل کے بستر کی طرح آرام دہ تھا فرق صرف چوڑائی کا تھا۔ برتھ پر لیٹنا تھا کہ نیند نے آ لیا۔ آنکھ کھلی تو گاڑی میڈرڈ ریلوے سٹیشن پہنچ چکی تھی اور غرناتطہ میں گزرا وقت ایک سہانا خواب لگنے لگا۔ میڈرڈ میں دو روز مزید قیام کے بعد اگلی منزل پر روانہ ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).