اردو پر ضرب عضب


میرے ایک انگریزی زدہ عزیز نے جھنجھلا کر کہا

”I don ’t understand your infatuation with Urdu“

اور میں نے رسان سے کہا ”انفیچوئشن وقتی اور سطحی ہوتی ہے۔ غیروں سے ہوتی ہے۔ اپنوں سے تو محبت ہوتی ہے ہمیں اردو سے محبت ہے،“

اردو سے محبت ہی تو ہے جو اردو کو مجروح اور معدوم ہوتے دیکھ کر دل تڑپ اٹھتا ہے۔ اب تو ایسے لوگ قلیل ہی ہوں گے جو اردو کے فصیح وبلیغ استعمال سے واقفیت رکھتے ہوں گے اور اس پر نازاں ہوں گے۔ نجی اسکولوں میں طلبا پر اردو بولنا حرام قرار دیا جا چکا ہے۔ والدین کو ہدایت ہے کہ گھر پر بھی بچوں سے انگریزی میں ہی کلام کیا جائے۔ نیم خواندہ والدین بچوں سے ہینڈ واش کرواتے ہیں، ناشتے میں ایگ اور ملک دیتے ہیں اور سوتے وقت گڈ نائٹ کہلواتے ہیں۔

اردو شاعری پر پہلی ضرب کاری پاپ گلوکاروں کی خود ساختہ شاعری یا تک بندی سے پڑی تھی پھر روایتی شاعری بھی بحر و قافیے سے آزاد ہوتی گئی۔ جدت کے نام پر دراصل سہل نویسی کو فروغ دیا گیا۔ جدید اردو نثر نگاروں نے بھی کم ظلم نہیں ڈھایا۔ نثر کو مقفع اور مسجح بنانے کی سعی میں بنیادی قواعد کے اصول سراسر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ مشکل الفاظ و تراکیب میں الجھا کر تحریر کو وقیع بنا دیں گے مگر درحقیقت وہ اسے چیستان تو بنا دیتے ہیں مگر مستند نہیں۔

کثرت سے استعمال کی گئی اصطلاحات میں ربط اور ہم آہنگی عنقا ہوتی ہے ان کی گنجلک تحریر کی رمز کشائی کی جائے تو ایک سطر دوسری کے مقاطع اور متضاد نکلتی ہے۔ برسبیل تذکرہ یہاں کہنا چاہوں گی کہ مختلف لسانی الفاظ ایک مرکب لفظ میں جمع نہیں کیے جا سکتے جیسے سنگ گراں ہو سکتا ہے سنگ ثقیل نہیں حالانکہ گراں اور ثقیل ہم معنی ہیں مگر چونکہ سنگ فارسی ہے تو عربی ثقیل کی ترکیب میں نہیں آ سکتا۔ اس قسم کے مجہول مرکب اب عام ہیں۔

انگریزی میں مستعمل اصلاحات کا حرف بہ حرف ترجمہ معنی کے جہت بدل دیتا ہے۔ patriarchy society کا حرفی ترجمہ پدرسری معاشرہ کیا یکساں مفہوم رکھتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ پدر یعنی باپ کا لفظ ہمارے ہاں محبت اور تقدس کا مظہر ہے اسے ایک دشنام طراز اصلاح میں استعمال کرنا مجھے تو مناسب نہیں لگتا اس کے بجائے غالب مردم معاشرہ کہنا زیادہ بہتر رہتا۔

اور اف یہ رومن اردو۔ شرح اردو ہے یا اردو پر ضرب عضب گویا اردو رسم الخط کو ہاون دستے میں ڈال کر کوٹ دیا گیا ہو اور مرے پہ درے یہ کہ اس پر کوئی افسوس کوئی ندامت نہیں۔ اس انداز تحریر نے اردوئے معلی چھوڑ، روزمرہ اردو لکھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ سدا کو صدا اور حیات کو ہیاط ٹرک پر لکھی گئی شاعری میں تو دیکھا تھا مگر جب ایک کرم فرما نے ہدایت کو حدایت اور رحم کو رہم لکھا تو طنطنا کر سرزنش کر ہی ڈالی اور بڑی ڈھٹائی سے جواب عنایت ہوا اب اردو لکھتا کون ہے۔ اپنی ثقافت پر غلو کی حد تک نازاں مہاجر طبقہ بھی اردو رسم الخط کے معدوم ہونے کے خطرہ موہوم پر فکرمند نہیں۔

غم خواران اردو ذرا خبر لیں کہیں اردو رسم الخط متروک و مرحوم ہی نہ یوجائے۔ رئیس امروہوی صاحب نے تو چار دہائیوں قبل ہی اردو کا جنازہ پڑھ لیا تھا

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدہ مظلوم سے نکلے
کہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).