طلبہ کا احتجاج اور متعلقہ اداروں کی بے حسی


کورونا وبا کے دور رس اثرات کا مکمل احاطہ کرنے میں کافی وقت لگے گا۔ خانگی تنازعات سے لے کر قومی معیشت تک اس وبا نے بہت ہی منفی اثرات ڈالے ہیں۔ چونکہ وبا اب بھی جاری ہے ، اس لئے یہ منفی اثرات گہرے بھی ہو رہے ہیں اور پھیل بھی رہے ہیں۔ آج کل پاکستان کے مختلف شہروں کو طلبہ کے احتجاج کا سامنا ہے۔ آج سے کوئی چالیس سال پہلے طلبہ کے مظاہرے معمول کا درجہ رکھتے تھے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیاسی جماعتوں کی ذیلی طلبہ تنظیمیں قائم تھیں۔

یہ تنظیمیں سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے کے تحت متحرک ہو جاتی تھیں اور پر زور احتجاج دیکھنے میں آتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ طلبہ یونینوں پر پابندی لگ گئی۔ یہ پابندی آج تک برقرار ہے جس کی وجہ سے وہ مثبت اور تعمیری پہلو بھی ختم ہو گئے ہیں جو طلبہ یونینوں سے جڑے تھے۔ تقریری مباحثے، ڈرامے، مشاعرے، تفریحی سرگرمیاں سب کچھ ہی ختم۔ کبھی کبھی آواز اٹھتی ہے کہ آمرانہ دور کی یہ پابندی ختم کی جائے لیکن چار دہائیوں سے اسے کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں سمجھا جا رہا۔ نتیجہ یہ کہ اب لسانی، علاقائی، نسل اور قبائلی بنیادوں پر جتھے بن گئے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے درس گاہوں کا امن خراب کرتے رہتے ہیں۔

طلبہ و طالبات کا حالیہ احتجاج اس مطالبے کے لئے ہے کہ ان کے امتحانات با ضابطہ روایتی طریقے سے کیمپس میں ہی لینے کے بجائے آن لائن ہی لئے جائیں۔ سندھ کی بیش تر جامعات نے آن لائن امتحان کی اجازت دے دی ہے جب کہ پنجاب میں اور ملک کے باقی حصوں میں یکساں پالیسی اختیار نہیں کی جا سکی۔ احتجاج کرنے والے طلبہ کی ایکشن کمیٹی کے ایک نمائندے نے گزشتہ روز ایک قومی ٹی وی چینل پر تفصیل سے اپنا موقف بیان کیا۔ بڑی دلیل یہ ہے کہ ہمیں آن لائن تعلیم دی جاتی رہی جس میں بے شمار مسائل تھے۔ ہم کمرہ جماعت کے ماحول سے محروم رہے۔ تعلیم اور تدریس کا معیار کلاس روم والا نہیں تھا۔ اس ناقص تعلیم کے بعد طلبہ کو با ضابطہ ”آن کیمپس“ امتحان پر مجبور کرنا، زیادتی ہے۔

طالب علم رہنما نے ایک دلیل یہ پیش کی کہ نجی یونیورسٹیاں ہمیں اس لیے آن کیمپس امتحان پر مجبور کر رہی ہیں کہ ہمیں فیل کر کے پھر سے فیس بٹوریں اور ہماری تعلیم کا عرصہ طویل ہو جائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ کورونا کی تعطیلات کے باعث دور درازعلاقوں کے طلبہ اپنے گھروں میں چلے گئے ہیں۔ اب صرف امتحان کے لئے یونیورسٹیوں میں آنے اور ٹھہرنے پر ان کے بہت سے اخراجات اٹھیں گے۔

میں نے بڑی توجہ سے یہ دلائل سنے۔ سچی بات یہ ہے کہ ان میں کوئی زیادہ وزن نہ تھا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ کورونا نے ہم سب کو کسی حد تک سست اور کاہل بنا دیا ہے۔ کہاں یہ کہ علی الصبح بیدار ہو کر کالج یا یونیورسٹی جانا، باقاعدگی سے لیکچر سننا، اساتذہ کی طرف سے دیا گیا کام کرنا، باقاعدہ ٹیسٹس یا امتحانات دینا، اساتذہ کی روک ٹوک کا سامنا کرنا۔ اور کہاں یہ صورتحال کہ اساتذہ بھی گھروں میں بیٹھے ہیں اور طلبہ ملک کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے ہیں۔

بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت ہی نہیں۔ ہے بھی تو کہیں سگنل اتنے کمزور ہیں کہ طالب علم کو پہاڑی یا درخت پر چڑھ کر لیکچر سننا پڑتے ہیں۔ ایک جائزے میں بتایا گیا تھا کہ ساٹھ فی صد طالب علم کسی نہ کسی وجہ سے آن لائن تعلیم سے استفادہ نہیں کر سکے۔ مجموعی طور پر آن لائن لیکچرز کا معیار بھی کلاس روم لیکچرز سے بہت کم زور اور کم تر رہا۔ اس کی ذمہ داری اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ ساتھ تکنیکی مسائل پر بھی عائد ہوتی ہے۔ یہ ہمارے لئے اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا جو ظاہر ہے کہ اپنے اندر کئی خرابیاں رکھتا تھا۔ یہ بات تو درست ہے کہ اس طرح کے کمزور اور ناقص تدریسی عمل کے بعد روایتی انداز کا مکمل اور جامع ”آن کیمپس امتحان“ طلبہ کے ساتھ زیادتی ہے۔ اس کا کوئی مناسب حل سوچنا چاہیے۔

توجہ طلب بات یہ ہے کہ کیا یہ افتاد اچانک آن پڑی؟ کیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس صورتحال کا اندازہ نہیں تھا؟ تعلیم کی مرکزی اور صوبائی وزارتیں کیا کر رہی تھیں؟ پاکستان کا ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی کمشنر کیا کر رہے تھے؟ صورتحال سب کے سامنے تھی۔ سب کو علم تھا کہ طلبہ نے ناقص قسم کی آن لائن تعلیم پائی ہے۔ سب جانتے تھے کہ یکم فروری سے جامعات کھل رہی ہیں۔ سب کو معلوم تھا کہ آن لائن یا آن کیمپس امتحانات کا تنازعہ اٹھے گا۔ تو پھر بروقت اس پر کوئی واضح فیصلہ کیوں نہ لیا گیا؟ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ذمہ داری کیا یہی ہے کہ وہ وفاق سے ملنے والی رقم یونیورسٹیوں میں بانٹ دے؟ اس نے پاکستان بھر کی سرکاری اور نجی جامعات کی انتظامیہ اور وائس چانسلر صاحبان کے ساتھ مشاورت کا اہتمام کیوں نہ کیا؟ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود اگر اس معاملے پر کئی کئی اجلاس بلا سکتے ہیں کہ سکولوں، کالجوں اور جامعات میں چھٹیوں کا شیڈول کیا ہو گا تو وہ اس بات کا ادراک کیوں نہ کر سکے کہ موجودہ صورتحال میں امتحانات کا طریقہ کار کیا ہو گا؟

اسلام آباد میں ایک سرکاری یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی اسی طرح احتجاج کیا۔ سڑکیں بند ہوئیں۔ لاٹھی چارج ہوا۔ پتھر برسائے گئے۔ طلبہ یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ لے گئے۔ جہاں جسٹس بابر ستار نے فیصلہ دیا کہ آن لائن یا آن کیمپس امتحان کے بارے میں طے کرنا ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا کام ہے۔ طلبہ کی درخواست کو قبول نہ کرتے ہوئے فاضل جج نے یہ معاملہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو بھیج دیا۔ ظاہر ہے کہ اب کمیشن کو رہنما اصول دینے تھے۔ لیکن کمیشن نے ایک بار پھر یہ ذمہ داری اپنے سر لینے کے بجائے، جامعات پر ڈال دی۔ گویا معاملہ وہیں آ گیا، جہاں سے شروع ہوا تھا۔

اس سارے قضیے کے ساتھ جڑا ایک اور مسئلہ بھی ہے اور وہ ہے فیسوں کا۔ طلبہ اور ان کے والدین مہنگائی کے اس دور میں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ جب آن لائن تعلیم کا سلسلہ ٹوٹ گیا، طالب علم گھروں کو چلے گئے، صرف آن لائن تعلیم رہ گئی جو اساتذہ گھروں میں بیٹھ کر دیتے تھے تو جامعات کے اخراجات جاریہ میں کافی کمی آ گئی۔ لیکن اس کمی کا کوئی فائدہ طلبہ و طالبات کو نہیں ملا۔ ان سے مسلسل وہی فیسیں وصول کی جاتی رہیں جو معمول کے دنوں میں لی جا رہی تھی۔

جامعہ پنجاب نے اس کورونائی صورتحال میں قابل تحسین فیصلہ کیا۔ جامعہ کے وائس چانسلرنے آن لائن تعلیم کے ہنگام طالب علموں کی سہولت کے پیش نظر ٹیوشن فیس کے علاوہ دیگر تمام فیس معاف کر دی۔ طالب علموں کو اس پالیسی سے بہت فائدہ ہوا۔ دیگر جامعات کے طلبہ کے لئے آن لائن تعلیم لے کر پوری فیس کی ادا کرنا بے چینی کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس مسئلے کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

بلاشبہ طلبہ کا آن لائن امتحانات کا مطالبہ، زیادہ مناسب نہیں۔ مگر دوسرا پہلو بھی نہایت تکلیف دہ ہے۔ احتجاجی طلبہ کو پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں حوالات میں ڈال دیا گیا اور ایسا پہلی بار سنا ہے کہ انہیں ضمانتیں بھی نہیں ملیں اور وہ پھر سے پولیس ریمانڈ میں دے دیے گئے۔ آخر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ یہ مسئلہ مرکزی یا صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشن طے کر دے؟ اگر یہ ممکن نہیں تو جامعات، طلبہ سے بات چیت کر کے مسئلے کا کوئی مناسب حل نکال سکتی ہیں۔

صورتحال کو جوں کا توں چھوڑ دینا اور تماشا دیکھنا مناسب نہیں۔ یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ پاکستان کے مستقبل کا سوال ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اساتذہ اور طلبہ مل بیٹھیں تو کوئی حل نہ نکل سکے۔ موجودہ صورتحال نہایت افسوس ناک ہے جس سے یہ تأثر قوی ہو رہا ہے کہ ہمارے ادارے اور کرتا دھرتا لوگ، عمومی مسائل حل کرنے کی استعداد بھی نہیں رکھتے۔ ایک عام سے انتظامی مسئلے کو بہت بڑا قومی بحران بنا دیتے ہیں۔

بشکریہ: روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).