نیلو: رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے


پاکستانی فلم انڈسٹری کی ماضی کی مایہ ناز اداکارہ نیلو بیگم طویل علالت کے بعد 81 برس کی عمر میں گزشتہ روز انتقال کر گئیں، 30 جون 1940ء کو سرگودھا کے کیتھولک مسیحی خاندان میں پیدا ہونے والی نیلو کا اصل نام عابدہ ریاض جبکہ پیدائشی نام سنتھیا الیگزینڈر فرنینڈس تھا۔ 16 برس کی عمر میں انہوں نے لاہور میں فلمائی گئی ہالی ووڈ فلم ”بھوانی جنکشن“ سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔

1957 میں ریلیز ہونے والی فلم ”سات لاکھ“ میں رشید عطرے کے ترتیب دیے گئے گیت ”آئے موسم رنگیلے سہانے“ پر نیلو کی پرفارمنس نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اداکارہ نیلو کی مقبولیت 1960ء میں عروج پر تھی، انہوں نے دوشیزہ، عذرا، زرقا، بنجارن بیٹی، ڈاچی، جی دار، شیر دی بچی اور ناگن سمیت متعدد یادگار فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ 2013ء میں ریلیز ہونے والی ”وار“ ان کی آخری فلم تھی۔

پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ ہدایت کار اور اسکرین رائٹر ریاض شاہد سے شادی کے وقت انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور عابدہ ریاض کا نام اختیار کیا۔ وہ پاکستانی فلم اسٹار شان کی والدہ تھیں۔

اداکارہ نیلو کو 1965ء میں آمرانہ طرز حکومت کے لیے شہرت رکھنے والے سخت گیر گورنر پنجاب نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کے عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔ نیلو کو شاہ ایران کے دورے کے موقع پر گورنر ہاؤس کی تقریب میں رقص کے لیے طلب کیا گیا لیکن نیلو نے بوجوہ جانے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد انہیں ڈرایا دھمکایا گیا اور زبردستی گورنر ہاؤس لے جانے کی کوشش کی گئی۔

مبینہ طور پر اس کوشش کے دوران ان کے ساتھ بد سلوکی بھی کی گئی اور اداکارہ نے خود کشی کی بھی کوشش کی جس کے بعد انہیں گورنر ہاؤس کے بجائے اسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی جان بچا لی۔

بعد ازاں معروف مزاحمتی شاعر حبیب جالب نے اس واقعے پر ”نیلو“ کے عنوان ہی سے نظم کہی جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے ”تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی، رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے“ ۔ بعد ازاں یہ نظم معمولی رد و بدل کے ساتھ 1969ء میں ریلیز ہونے والی فلم ”زرقا“ میں شامل کی گئی۔ اس فلم کی ہدایت کاری ریاض شاہد نے دی تھی اور اداکارہ نیلو نے فلم کی تیاری میں اپنے شوہر کا بھرپور ساتھ دیا۔ یہ ریاض شاہد کی مقبول ترین اور شاہکار فلموں میں شمار ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).