کپاس کا بحران اور پی سی سی سی کا مقدمہ


گزشتہ سیزن میں کپاس کی انتہائی کم پیداوار پر تمام اسٹیک ہولڈرز اور معاشی ماہرین اپنی اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ کپاس چونکہ ہماری معیشت کی شہ رگ ہے اس لئے جب تک کپاس کی بحالی و ترقی اور اس کی اچھی فی ایکڑ پیداوار پر توجہ نہیں دی جائے گی تو ہمارا ملک کسی صورت معاشی لحاظ سے ترقی نہیں کر سکتا۔ کپاس ہماری ملکی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہے۔

کپاس کا ہماری قومی جی ڈی پی میں 0.8 فیصد اور زرعی مصنوعات کی تیاری میں 7 فیصد حصہ ہے جبکہ کپاس سے منسلک افراد کا روزگار 40 فیصد، خوردنی تیل 70، 60 فیصد اور ملکی برآمدات کا 50 تا 60 فیصد انحصار بھی کپاس پر ہے۔ ہماری ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی کل ضروریات تقریباً ً ڈیڑھ کروڑ گانٹھیں ہیں جبکہ گزشتہ برس ہماری پیداوار کا سائز 60 لاکھ گانٹھوں کے گرد گھوم رہا ہے۔ اس طرح ہمیں ملکی انڈسٹری کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تقریباً 90 لاکھ کپاس کی گانٹھیں بیرون ممالک سے درآمد کرنا پڑیں گی جس کے لئے ہمیں ملکی خزانے سے تقریباً 5 ارب ڈالرز خرچ کرنا پڑیں گے۔

کپاس کی کم پیداوار سے ہمیں نہ صرف درآمدی کپاس پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے بلکہ اس سے ملک میں کھل بنولہ اور خوردنی تیل کی پیداوار میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ان اشیاء کی درآمد پر بھی ہمیں اربوں روپے خرچ کرنا پڑیں گے۔ اس کے علاوہ ہمارے دیہاتوں میں کپاس کی چھڑیوں کو بطور ایندھن بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن کپاس کی کم پیداوار کی وجہ سے ایندھن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دیہاتوں میں بڑی تعداد میں درختوں کی کٹائی سے نہ صرف ماحول پر برے اثرات مرتب ہوں گے بلکہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ملک بھر میں جاری کی گئی شجرکاری مہم کو بھی ایک بڑا دھچکا لگے گا۔ اس کے علاوہ کپاس کی چنائی سے منسلک تقریباً ً 5 لاکھ خواتین کا روزگار بھی خطرے میں پڑ چکا ہے۔

جیسا کہ آج کل ہر طرف کپاس کی کم پیداوار کا رونا رویا جا رہا ہے اور کپاس کی بحالی و ترقی کی بات زور و شور سے کی جا رہی ہے مگر عملی اقدامات اٹھائے بغیر زبانی جمع خرچ سے کچھ انقلاب نہیں آنے والا۔ پالیسی ساز اداروں کے لئے یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ ملک میں کاٹن کی بحالی تحقیق و ترقی کے بغیر نہیں ہو سکتی اور ریسرچ پر سرمایہ کاری کیے بغیر آپ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے اس کے لئے ارباب اختیار کو کپاس کے تحقیقی اداروں میں انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس وقت کپاس کے تحقیقی میدان میں ملک کا سب سے بڑا کپاس کا قومی ادارہ پی سی سی سی یعنی پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی ہے جو بدقسمتی سے آج مالی و انتظامی اعتبار سے بدترین صورتحال کا شکار ہے۔

پی سی سی سی وہی ادارہ ہے جسے ماضی میں ملکی و بین الاقوامی سطح پر کپاس کی تحقیق و ترقی میں شان دار خدمات پر اعلیٰ ترین ایوارڈز دیے گئے۔ اور اس ادارے کی کپاس کی اقسام ملک بھر میں 80 فیصد سے زائد رقبے پر کاشت کی جاتی رہی ہیں۔ جب اس ادارے کو تشکیل دیا گیا تو اس وقت ملک میں صرف دو ٹیکسٹائل ملیں تھیں جبکہ آج ملوں کی تعداد لگ بھگ 500 کے قریب ہے، ملوں کی تعداد میں اضافہ کپاس کے تحقیقی میدان میں شاندار کامیابی کی ایک مثال ہے جس سے نہ صرف ملک میں کپاس کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا بلکہ کثیر تعداد میں لوگوں کو روزگار بھی میسر آیا اور ملکی معیشت کے استحکام میں پی سی سی سی نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ماضی پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے پاکستان میں کاٹن کی پیداوار 1947 / 48 میں 1.7 ملین گانٹھیں تھیں جو کہ بڑھ کر 1992 میں 12.8 ملین گانٹھوں کی ریکارڈ کی پیداوار تک پہنچ گئیں۔ 2003 / 04 میں 14.6 ملین گانٹھوں اور 2013 / 14 میں 14.8 ملین گانٹھوں کی پیداوار حاصل کی۔ یہ صرف پی سی سی سی کے سائنس دانوں کی کوششوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔

کپاس کی پتہ مروڑ بیماری جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 1967 میں ملتان میں دیکھی گئی جس سے اس وقت نہ صرف کپاس کا ہزاروں ایکڑ رقبہ شدید متاثر ہوا بلکہ کاشت کاروں کو پیداوار میں کمی کے باعث سخت مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تو یہ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے ذیلی ادارے سی سی آر آئی ملتان کے سائنسدان ہی تھے جنہوں نے اس بیماری کے خلاف ہر پہلو سے تحقیق کی اور اس مرض کی نشاندہی وائرس کے جمنئی گروپ سے ثابت کی، اس بیماری کی شناخت، میزبان پودے اور بیماری سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر سے آگاہ کیا اور یہ کوئی معمولی کام نہ تھا۔

اسی طرح 1993 میں جب کاٹن لیف کرل وائرس نے پاکستان میں وبائی شکل اختیار کر لی تو اس شعبہ کے سائنس دانوں نے شب و روز محنت کر کے 1996 میں ملکی تاریخ میں سب سے پہلی وائرس کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی اقسام سی آئی ایم 1100 اور سی آئی ایم 448 اقسام تیار کیں۔ کپاس کی ان اقسام کی تیاری سے نہ صرف پتہ مروڑ بیماری سے بچاؤ ممکن ہو سکا بلکہ کاشتکاروں کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا۔ جس سے ملی خزانے کو اربوں روپوں کا فائدہ ہوا۔

اسی طرح پی سی سی سی کے زرعی سائنس دانوں نے کپاس کے ایک دوسرے خطرناک کیڑے ملی بگ کے نقصان سے بچاؤ سے متعلق بھی اپنی تحقیقات کی روشنی میں اس کے طبعی و کیمیائی انسدادی طریقے بتائے جس سے نہ صرف کاشتکاروں کو اس کیڑے بارے آگاہی فراہم ہوئی بلکہ اس سے نجات بھی ممکن ہوا۔ کمیٹی کے زرعی سائنسدانوں نے ملی بگ کا ایک اہم طفیلی کیڑا/ پیراسٹائڈ اینشیس سپیشی دریافت کیا یہ سب کچھ آناً فاناً نہیں ہوا بلکہ زرعی سائنسدانوں کے شب و روز کے تحقیقی عمل سے ہی حاصل کردہ نتائج ہیں۔

کپاس کی گلابی سنڈی کی طرف جسے برصغیر میں سب سے پہلے 1942 میں ریکارڈ کیا گیا۔ یہ سنڈی فصل کے پھل کو نقصان پہنچاتی ہے جس سے 20 فیصد تک پیداوار کا نقصان ہوتا ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے اس موذی کیڑے کی وجہ سے ہر سال 1.2 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ کمیٹی کے ذیلی ادارے سی سی آر آئی میں سفید مکھی اور گلابی سنڈی پر تحقیقی پروگرام کے لئے عالمی معیار کی لیبارٹری قائم ہے جہاں ماہرین حشریات ان کیڑوں پر تحقیقات کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کپاس کی گلابی سنڈی جس کے پھیلنے کا واحد سبب کپاس کی چھڑیوں میں لگے بچے کچھے کچے پکے ٹینڈے ہیں، ان ٹینڈوں کی تلفی اور گلابی سنڈی سے بچاؤ کے لئے سی سی آر آئی کے سائنس دانوں نے مقامی دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مناسب قیمت میں کاٹن بول پکر مشین بھی تیار کی ہے جس کے استعمال سے نہ صرف گلابی سنڈی سے نجات مل سکے گی بلکہ ملکی سطح پر کپاس کی مجموعی پیداوار میں 660 ملین کلوگرام کا اضافہ بھی ہو گا جس کی مالیت پاکستانی روپوں میں تقریباً ً 57 ارب ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں گلابی سنڈی کی پی بی روپس کے ذریعے مینجمنٹ کا طریقہ کار بھی پہلی مرتبہ پی سی سی سی کے زرعی سائنس دانوں نے متعارف کرایا۔ کپاس کی سفید مکھی کے خلاف موثر زہر پاشی کے لئے صبح کے وقت کا تعین بھی کمیٹی کے زرعی ماہرین کی تحقیقات کی بدولت ہی ممکن ہو سکا۔

اس وقت کپاس کی چنائی کے ریٹ زیادہ ہونے اور چنائی کرنے والی خواتین کی کمی کی وجہ سے کاشت کاروں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کپاس کی چنائی کا مشینی طریقہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے ادارے سی سی آر آئی ملتان نے شروع کیا ہے۔ اس کے علاوہ زہر پاشی کے رہنما اصول، کپاس کے مختلف کیڑوں کے خلاف مزاحمتی مینجمنٹ کی حکمت عملی، کپاس کے کیڑے مکوڑوں کے معاشی حد کے نقصان کا طریقہ کار، کیڑوں کے حملے کا پیشگی ماڈل، مارکیٹ میں دستیاب کیڑے مار زہروں کی اسکریننگ، کیڑے مار زہروں کے نتائج بارے نئی کیمسٹری کی معلومات کی جانچ پڑتال و فراہمی بھی کمیٹی کے زرعی ماہرین کی تحقیقاتی سرگرمیوں کا اہم کردار ہے۔

کمیٹی کے زرعی ماہرین کپاس کے نہ صرف نقصان دہ کیڑوں بلکہ کسان دوست کیڑوں پر بھی تحقیق کرتے ہیں۔ ان کی تحقیقاتی سفارشات کا فائدہ نہ صرف کسان بلکہ دیگر پبلک و پرائیویٹ سیکٹر بھی اٹھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پیسٹ اسکاؤٹنگ کا طریقہ کیڑوں کا مربوط طریقہ انسداد، زرعی ادویات کے خلاف قوت مدافعت اور بی ٹی کپاس کی بہتر نگہداشت کے حوالہ سے قابل قدر تحقیقی سرگرمیوں کے نتائج قابل تعریف ہیں۔ کپاس کے نئے نقصان دہ کیڑوں مثلاً کپاس کی مٹیالی اور سرخ بھونڈی پر تحقیق اور ان کے خلاف بہتر انسداد حکمت عمل بنانے میں کمیٹی کے زرعی سائنس دانوں کا اہم کردار رہا ہے۔

کھیلیوں پر کاشت کا طریقہ سب سے پہلے کمیٹی کے زرعی سائنس دانوں نے ہی متعارف کرایا ہے جس سے 30 فیصد پانی کی بچت ممکن ہوئی اور آج تقریباً ً 70 فیصد کاشت کار کھیلیوں پر کاشت کے طریقہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح کھڑی کپاس میں گندم لگانی ہو یا کھڑی گندم میں کپاس اگانی ہو اس کے طریقہ کار کو متعارف کرانے کا سہرا بھی پی سی سی سی کے سائنس دانوں کے سر ہے۔ لمبی ریشے والی کپاس جس کی ملکی و غیر ملکی مارکیٹ میں بڑی ڈیمانڈ ہے، اس کے لئے پی سی سی سی کے سائنس دانوں نے کپاس کی ایسی اقسام بھی تیار کی ہیں جو نہ عالمی معیار کے عین مطابق ہیں بلکہ شارٹ دورانیہ کی بھی ہیں جس کے ذریعے گندم کی فصل کا دورانیہ ڈسٹرب نہیں ہوتا۔

1996 میں پی سی سی سی کے سائنس دانوں نے 27 ملی میٹر ریشے والی خصوصیات کی حامل کپاس کی اقسام تیار کیں اور آج سی سی آر آئی کے زرعی سائنسدانوں نے 35 ملی میٹر ریشے کی خصوصیات والی اعلیٰ معیار کی کپاس کی قسم تیار کر کے ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو زبردست استحکام بخشا ہے جس کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی ضرور ہونی چاہیے۔ پی سی سی سی کے زرعی سائنسدان ہمہ وقت نئی اقسام کی دریافت کی تحقیق میں مصروف عمل رہتے ہیں تاکہ ایسی اقسام کاشت کاروں کو مہیا کی جائیں جن کی پیداواری صلاحیت بہتر، ریشے کی لمبائی اور کن (GOT) بھی زیادہ ہو اس شعبہ نے تمام دنیا سے تقریباً 6143 کپاس کی اقسام اکٹھی کی ہیں۔

ان جنیاتی اقسام کو جین بنک میں طویل دورانیہ ( 100 ) سال، درمیانی مدت ( 50 ) سال اور مختصر مدت ( 25 ) سال کے لئے محفوظ کیا جاتا ہے تاکہ بوقت ضرورت ان کو پاکستان اور بیرون ملک تحقیقاتی پروگرام میں استعمال کیا جاسکے۔ پی سی سی سی کے ماہرین نے دنیا میں پائی جانے والی 34 جنگلی کپاس کی اقسام کو محفوظ کیا ہوا ہے۔ یہ سائنس دان ان جنگلی اقسام سے موجودہ کاشت کی جانے والی اقسام میں ایسی خصوصیات منتقل کرنے میں مصروف عمل ہیں جن سے ان میں نقصان دہ کیڑوں اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کی جاتی ہے۔ اور اس تحقیقی عمل میں کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

قدرتی رنگ دار کپاس کی تحقیق و ترقی میں پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کی کاوشوں کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس وقت کمیٹی کے زرعی ماہرین نے مختلف قدرتی رنگوں کی کپاس کی کئی اقسام تیار کی ہیں۔ حکومت کی مکمل سپورٹ کے باعث قدرتی رنگ دار کپاس کی ویلیو ایڈڈ کے ذریعے ہم بین الاقومی مارکیٹ میں کافی زرمبادلہ کما سکتے ہیں اور عالمی سطح پر قدرتی رنگ دار کپاس کی مصنوعات کی کافی ڈیمانڈ بھی ہے جس کی طرف اگر توجہ دی جائے تو ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔

کمیٹی کے سائنس دان کپاس کی فصل پر مختلف عوامل کے پڑنے والے اثرات پر تحقیق کر رہے ہیں جن میں کپاس پر ماحول کے اثرات کا جائزہ لینا، پودوں کی نشو و نما آب پاشی سے متعلق امور، کھادوں کا متناسب استعمال اور کپاس پر اس کے اثرات کی بھی تحقیق کی جا رہی ہے۔ سائنس دان گرمی اور پانی کی کمی برداشت کرنے والی اقسام تیار کرنے میں بریڈرز کی مدد کر رہے ہیں۔ کپاس کی بی ٹی اقسام پر مختلف تجربات ہو رہے ہیں تاکہ کاشتکاروں کی بہتر رہنمائی کی جا سکے۔

نیز کپاس کے بیج پر اثرانداز مختلف عوامل پر تحقیقات ہو رہی ہیں۔ زمین کی زرخیزی اور کپاس میں کھادوں کی سفارشات تجویز کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کپاس کی پیداوار میں اضافہ کے لئے فولیئر سپرے کی سفارشات، ہائیڈرو پونک تجربات، غذائی عناصر کی کمی بیشی سے پودوں کی نشوونما پر پڑنے والے اثرات و علامات کی پہچان سے متعلق تحقیقات کپاس کے کاشت کاروں کے لئے مفید ثابت ہو رہی ہیں۔ کمیٹی کے زرعی ماہرین کپاس کے ریشے کی خصوصیات کی جانچ پڑتال، نئی اقسام کے ریشہ کی کوالٹی پر موسمی اثرات کا جائزہ، ریشے پر پانی کی کمی اور وائرس سے متاثرہ پودوں کے ریشے پر بھی تجربات کر رہے ہیں۔

فائبر ٹیسٹنگ کے حوالہ سے عالمی شہرت یافتہ جرمنی کے فاضر انسٹیٹیوٹ کی طرف سے سی سی آر آئی میں قائم کردہ فائبر ٹیکنالوجی لیب کے نتائج کو عالمی معیار کے عین مطابق دیا گیا ہے اور سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ جرمن انسٹیٹیوٹ فاضر کی جانب سے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے لئے یہ شناخت ایک اعزاز سے کم نہیں۔

پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کی جانب سے کپاس کے کاشتکاروں کے لئے ٹیلی کاٹن سروس بھی مہیا کی گئی ہے جس کے تحت ملک بھر کے 30 ہزار سے زائد رجسٹرڈ کپاس کے کاشت کاروں کو ان کے موبائل فون پر بغیر چارجز ادائیگی کے مفت تحریری پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔ ان پیغامات میں کپاس سے متعلق کاشت کاروں کے مسائل کے حل، کپاس کی صورتحال، موسمی حالات سے آگاہی، ملک بھر کی کاٹن مارکیٹ کی قیمتوں کی معلومات وغیرہ فراہم کی جاتی ہیں۔ ٹیلی کاٹن سروس حاصل کرنے کا طریقہ کار بہت آسان بنایا گیا ہے۔

ٹیلی کاٹن کی رجسٹریشن کے لئے ملک بھر سے کپاس کے کاشتکار اپنا، نام، پتہ اور موبائل نمبر ٹیلی کاٹن کے نمبر 0334 1 12 12 13 پر موبائل پیغام بھیج کر اپنا مفت اندراج کرا سکتے ہیں۔ کپاس کے کاشتکاروں کی رہنمائی و تربیت فراہمی کے لئے پی سی سی سی کی پندرہ روزہ فارمرز ایڈوائزری کمیٹی کے ذریعے سفارشات پیش کی جاتی ہیں جن پر عمل کر کے کاشت کار اپنی فصل کی دیکھ بھال کو بہتر بنا کر پیداوار بڑھا سکتے ہیں اس کمیٹی کی سربراہی ڈائریکٹر سی سی آر آئی کرتا ہے اور اس کمیٹی میں کپاس پر تحقیق کرنے والے مختلف شعبہ جات کے ماہرین شامل ہوتے ہیں۔

اس کمیٹی کے اجلاس ملک کے چاروں صوبوں میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس طرح چاروں صوبوں کے کپاس کے زرعی ماہرین میں ہم آہنگی کی فضاء قائم رہتی ہے اور ملک بھر کے کپاس کے کاشت کاروں کو مفید مشوروں سے کپاس کی بہتر پیداوار میں اضافہ کو یقینی بنانے کے عملی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے ادارے سی سی آر آئی ملتان کی جانب سے ملک بھر کے کپاس کے کاشت کاروں کے لئے کپاس کی کاشت سے پہلے بیج کے اگاؤ کا مفت لیبارٹری ٹیسٹ کی سہولت بھی شروع کی جا چکی ہے جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ملک کے کسی بھی جگہ سے تعلق رکھنے والا کپاس کا کاشت کار اپنے موبائل نمبر کے ساتھ 100 گرام بیج کو ادارہ کے پتہ پر ارسال کر سکتا ہے اور 5 دن بعد ادارہ کی جانب سے متعلقہ کاشت کار کو اس کے بھیجے گئے موبائل نمبر پر فون کال کے ذریعے نتائج بتا دیے جاتے ہیں۔ یاد رہے ادارہ کے پتہ پر بیج بھیجے جانے پر ڈاک کے اخراجات کی ادائیگی بھی ادارہ سی سی آر آئی کے ذمہ ہے۔ کمیٹی کے زرعی سائنسدان کپاس پر ہونے والے تحقیقاتی نتائج سے مرتب کردہ سفارشات کو محکمہ توسیع کے عملہ اور زمینداروں تک بھی پہنچاتے ہیں۔

اس سلسلہ میں محکمہ توسیع کے عملہ، زمینداروں اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری محکمہ کے عملہ کی ہر سال کپاس کی کاشت سے پہلے اور آف سیزن بروقت ٹریننگ پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں کپاس کی کاشت سے لے کر چنائی تک کی جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات اور کتابچے کے ذریعے بھی جدید پیداوار ٹیکنالوجی کاشت کاروں تک پہنچائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سائنسدانوں کے لئے سیمینار، میٹنگز اور ورکشاپس منعقد کرانے کے تمام انتظام کرنے کے علاوہ زرعی نمائشوں میں بھی بھرپور شرکت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے مستقبل کی پلاننگ میں نیو جنیٹیکل ٹیکنالوجی کی حامل کپاس کے بیج کی تیاری، موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر کپاس کی نئی اقسام، آرگینک کپاس، بی سی آئی کے قواعد کے مطابق بہتر کپاس کی پیداواری ٹیکنالوجی، کپاس کی تحقیق و ترقی کے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ باہمی تعاون اور کپاس کے بیج کی ملٹی پیکیشن اور کمرشل بنیادوں پر ترقی و ترویج کے منصوبہ جات شامل ہیں۔

پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کی تیار کردہ کپاس کی اقسام ہر سال نیشنل کو آرڈینیٹڈ ورائٹل ٹرائل میں پہلے اور دوسرے سال کے نتائج کے اعتبار سے نمایاں پوزیشنز حاصل کرتی چلی آ رہی ہیں جو کہ پی سی سی سی کی بہترین کارکردگی کا حقیقت پسندانہ پیمانہ ہے۔ سال 2019۔ 20 کے نیشنل کو آرڈینیٹڈ ورائٹل ٹرائل کے پہلے اور دوسرے سال میں پی سی سی سی کی تیار کردہ کپاس کی اقسام اول قرار پائیں۔ نیشنل کو آرڈینیٹڈ ورائٹل ٹرائل ملک بھر میں ہر سال 26 مختلف مقامات پر لگایا جاتا ہے جس میں پبلک و پرائیویٹ سیکٹرز کی 100 سے زائد کپاس کی اقسام لگائی جاتی ہیں۔

ان سو سے زائد اقسام میں پی سی سی سی کی کپاس کی اقسام کا اول نمبر پر آنا ایک بڑے اعزاز سے کم نہیں۔ یاد رہے پی سی سی سی کے مینڈیٹ میں کپاس کے کاشت کاروں کے لئے کپاس کی نئی نئی اقسام کو تیار کر کے متعلقہ اداروں کو فراہم کرنا شامل ہے جبکہ کپاس کی ان تیار شدہ اقسام کی کپاس کے کاشتہ علاقہ جات میں زیادہ سے زیادہ رقبہ پر کاشت کو یقینی بنانا پی سی سی سی کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ پی سی سی سی اپنے متعین کردہ قواعد و ضوابط کے تحت کپاس کے تحقیقی میدان میں اپنی تحقیقاتی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ متعلقہ اداروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک بھر میں پی سی سی سی کی تیار کردہ کپاس کی اقسام کو زیادہ سے زیادہ رقبہ پر کاشت یقینی بنائیں۔ اور پی سی سی سی کی تیار کردہ کپاس کی اقسام کی ملٹی پیکیشن کر کے انہیں زیادہ سے زیادہ عام کسانوں تک پہنچایا جائے۔

کمیٹی کے زرعی ماہرین کی کپاس کی فصل کی بہتری کے لئے کی گئی کاوشوں کو عالمی اور ملکی سطح پر بے حد سراہا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں پی سی سی سی کے زرعی ماہرین کو بہت سے ہم ملکی و غیر ملکی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ کپاس کے میدان میں ہونے والی اعلیٰ تحقیق و ترقی کی بدولت FAO، ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کی طرف سے پی سی سی سی کے ذیلی ادارے سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان کو ترقی پذیر ممالک کے زرعی سائنس دانوں کے لئے ایک بہترین تربیت گاہ حاصل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان اپنی قابل قدر تحقیقی کاوشوں کی بدولت اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے کپاس پیدا کرنے والے ایشیائی رکن ممالک کے سائنس دانوں اور کاشت کاروں کے لئے تربیتی مرکز بن چکا ہے۔ گزشتہ چھ دہائیوں سے ملک میں کپاس کی تحقیق و ترقی کے حوالے سے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی نے جو گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں، ان کی ملکی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ زراعت سے وابستہ زرعی ماہرین، ریسرچرز، کاشت کار، پالیسی ساز افراد، مختلف جامعات سے تعلق رکھنے والے پروفیسرز وغیرہ سبھی جانتے ہیں ملک میں آج کپاس کی ریسرچ کے حوالہ سے جو صوبائی حکومتی محکمہ جات اور دیگر نجی ادارے کام کر رہے ہیں ان سب کی بنیادی تربیت پی سی سی سی کے پلیٹ فارم سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ اور اس وقت تک ملک بھر میں کپاس پر جتنی بھی تحقیق ہوئی ہے یا ہو رہی ہے وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ پی سی سی سی کی تحقیقی سرگرمیوں سے ہی منسلک ہے۔

مگر افسوس اس وقت حالت یہ ہے کہ آج پاکستان میں سب سے بڑا کپاس کا تحقیقی ادارہ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی سنگین مالی و انتظامی بحران کا شکار ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کو شاید حکومت کی جانب سے بھاری فنڈز مہیا کیے جاتے ہیں اور پی سی سی سی ملازمین کو غیر معمولی مراعات حاصل ہیں تو ان لوگوں کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی جو کہ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے ماتحت کام کرتا ہے اس ادارے کو حکومتی خزانے سے ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیا جاتا۔

پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی یعنی پی سی سی سی کا ذریعہ آمدن کاٹن سیس ہے جو کہ 50 روپے فی گانٹھ کے حساب سے ہے۔ کاٹن سیس ایکٹ کے تحت تمام ٹیکسٹائل ملز مالکان پی سی سی سی کو کاٹن سیس ادا کرنے کے قانونی طور پر پابند ہیں اور اس فنڈز سے حاصل ہونے والی آمدن کو ملازمین کی تنخواہوں، پینشنز، کپاس کی تحقیق و ترقی اور دیگر آپریشنل چارجز پر خرچ کیا جاتا ہے۔ یاد رہے یہ سیس کاٹن پروڈکشن کی بجائے کاٹن کنزمپشن یعنی استعمال ہونے والی ایک گانٹھ پر عائد ہے مگر ستم ظریفی یہ کہ گزشتہ چند برسوں سے غیر قانونی طور پر ٹیکسٹائل ملز مالکان نے پی سی سی سی کو کاٹن سیس دینا بند کر دیا ہے جس سے پی سی سی سی کی مالی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نہ صرف کپاس کی تحقیقی سرگرمیاں جمود کا شکار ہو چکی ہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں پی سی سی سی ملازمین کو تنخواہیں اور پینشنز نہ ملنے کے سبب معاملہ فاقوں تک پہنچ گیا ہے۔ و ذرات نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کاٹن سیس کی وصولی کے لئے پورا زور لگا رہی ہے مگر مل مالکان کا گروپ اس قدر طاقتور اور با اثر افراد پر مشتمل ہے کہ ان کے آگے کسی کا زور چلتا دکھائی نہیں دے رہا اور یوں یہ مل مالکان پی سی سی سی کے تقریباً اڑھائی ارب روپے سے زائد کی رقم دبا کر بیٹھے ہیں۔

اس وقت کپاس کے مرکزی تحقیقاتی ادارے کو جن سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کا فوری حل ڈھونڈنا بہت ہی ضروری ہے۔ کپاس کے تحقیقاتی اداروں اور کپاس کے محققین پر جب تک سرمایہ کاری نہیں کی جائے گی، انہیں مالی مشکلات کی دلدل سے نہیں نکالا جائے گا، اس وقت تک تحقیق کے مثبت نتائج کی امید لگانا غلط ہو گا۔ اس وقت فوری طور پر کپاس کے زرعی ماہرین کے لئے گزشتہ کئی سالوں سے محروم ایڈہاک ریلیف اور ریسرچ الاؤنسز کی بحالی و فراہمی بہت ضروری ہے۔

اس کے علاوہ کپاس کے سائنس دانوں کے سروس اسٹرکچر کی تشکیل، کے پی آئی کا ضابطہ کار اور سالہا سال سے ترقیوں سے محروم کاٹن ایکسپرٹس کے معاملات ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوں گے۔ تحقیقاتی اداروں میں ایک دہائی سے زائد موجود درپیش انتظامی مسائل جن میں کلیدی پوسٹوں پر افسران کی عارضی تقرریوں کی بجائے مستقل تعیناتی اور افرادی قوت کی کمی پورا کرنے کے لیے سینکڑوں خالی آسامیوں پر فی الفور بھرتی کا عمل شروع کیا جانا اہم ہے۔

یاد رہے تحقیق ایک طویل المدتی عمل کا نام ہے جس کے فوری ثمرات نظر نہیں آتے۔ چولہے پر رکھا ہوا گرم سرخ توا پانی کے چھینٹوں سے اس وقت تک ٹھنڈا نہیں ہو گا جب تک چولہے کے نیچے جلتی آگ کو نہ بجھایا جائے۔ اسی طرح آپ کپاس کے مسائل کے جتنے بھی حل ڈھونڈتے رہیں، یہ اس وقت تک بارآور ثابت نہ ہوں گے جب تک کپاس کے تحقیقی اداروں اور ان میں کام کرنے والے محققین کے بنیادی مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جاتا۔

کپاس کی پیداوار میں اضافے کا دوسرا اہم مسئلہ سیڈ ٹیکنالوجی کا ہے۔ کپاس کے سب سے بڑے تحقیقاتی ادارے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے پاس کپاس کا سب سے بہترین بریڈنگ میٹیریل موجود تو ہے لیکن ہمیں پرانی ٹیکنالوجی چھوڑ کر فوری طور پر نئے جین فراہم کرنے والی بین الاقوامی کمپنیوں سے بیج کی جدید ٹیکنالوجی لینا ہوگی تاکہ ہم اس ٹیکنالوجی کو اپنی مقامی کپاس کی اقسام کے ساتھ استعمال میں لا کر کپاس کے کیڑے مکوڑوں خاص کر سفید مکھی اور گلابی سنڈی کے تدارک، گلائفوسیٹ رزسٹینس، کھادوں کے کم سے کم استعمال اور زیادہ درجہ حرارت اور کم پانی میں کامیاب کپاس کی اقسام اپنے کاشت کاروں کو دے سکیں۔

کپاس کی نئی سیڈ ٹیکنالوجی سے نہ صرف کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ممکن ہو سکے گا بلکہ کاشت کاروں کے لئے فصل بھی منافع بخش ثابت ہو گی۔ نئی سیڈ ٹیکنالوجی کی بدولت کپاس کی فصل کے اخراجات میں نمایاں کمی آنے اور فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافے سے کاشت کار کپاس کی فصل کی طرف دوبارہ بخوشی لوٹ آئیں گے۔

ماضی میں پی سی سی سی کو مالی و انتظامی لحاظ سے کسی بھی طرح کے مسائل کا سامنا نہ تھا اور نہ ہی افرادی قوت کا سامنا تھا اور اس کے نتائج آپ سب کے سامنے ہیں جبکہ آج موجودہ حالات میں پی سی سی سی کو مالی و انتظامی طور پر سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ایک ملازم پانچ پانچ بندوں کا کام کر رہا ہے اور ستم ظریفی یہ کہ کمیٹی کے ملازمین کو گزشتہ سال ستمبر سے نصف تنخواہ ادا کی جا رہی ہے جبکہ باقی نصف تنخواہ کی ادائیگی کا کچھ معلوم نہیں اور اس کے علاوہ کپاس کی تحقیق کے لئے فنڈز کی فراہمی بھی رکی ہوئی ہے۔

سادہ سی بات ہے جب ایک گھر کا مستقل سربراہ ہی موجود نہ ہو اور نہ کوئی ذریعہ آمدن ہو تو وہ گھر کیسے چل سکتا ہے اور جب بات پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی جیسے اہم قومی ادارے کی ہو جہاں گزشتہ دہائی سے کوئی مستقل سربراہ تعینات نہیں کیا گیا اور بڑے مل مالکان نے گٹھ جوڑ کر کے کاٹن سیس دینے سے انکار کر دیا ہو تو پھر یہ ادارہ ماضی کی طرح کیسے اپنی شاندار روایات کو برقرار رکھتے ہوئے صد فیصد نتائج دے سکتا ہے۔ سبب اور نتیجہ کے مابین تعلق سمجھے بغیر یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آنے والی، اچھے نتائج اسی صورت سامنے آتے ہیں جب اچھے اسباب موجود ہوں لیکن کمال بات یہ ہے کہ انتہائی قلیل دستیاب وسائل کے باوجود پی سی سی سی کی کپاس کی اقسام ملک بھر میں ٹاپ پوزینشنز برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

گزشتہ برس کپاس کی کم ترین پیداوار کی وجہ سے کپاس کے ریسرچ اداروں کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مگر حقائق کا ادراک کیے بغیر اور خالی باتوں یا دعوؤں کی بجائے مسائل کے اسباب معلوم کر کے ٹھوس منصوبہ بندی کے ذریعے ہی ان چیلنجز سے نمٹا جا سکتا ہے۔

اس وقت دنیا جدید سیڈ ٹیکنالوجی کی طرف جا رہی ہے جبکہ ہمارے پاس موجود ٹیکنالوجی تقریباً دو دہائی پرانی ہے، ہمیں موجودہ حالات میں کپاس کی ریسرچ پر کثیر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور ہمارے زرعی سائنس دانوں کی جدید تربیت و رہنمائی ناگزیر ہو چکی ہے تاکہ کاٹن کی بحالی و ترقی میں انقلاب برپا کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).