ہم اسٹیبلشمنٹ نہیں، حکومت کے خلاف ہیں


آج صبح اٹھا ناشتہ کرنے بیٹھا تو والد صاحب اخبار پڑھ رہے تھے۔ اچانک میری نظر اخبار کی شہ سرخی پر پڑھی جس میں لکھا تھا:

”ہم اسٹیبلشمنٹ نہیں حکومت کے خلاف ہیں“

والد صاحب نے جب اخبار پڑھ کر ایک طرف رکھا تو میں نے اٹھا لیا۔ پہلے مجھے لگا یہ بیان مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی میں سے کسی کا ہو گا لیکن کیا دیکھتا ہوں کہ یہ بیان کسی اور کا نہیں بلکہ عمران خان کو ”لانے والے“ ، نظام کو ”چلتا کرنے والے“ اور ”محافظوں“ کو ان کی حد میں رکھنے کی ”جدوجہد“ کرنے والے قائد جمعیت سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کا ہے۔

چلو اچھا ہوا مولانا نے آخر کار سچ بول ہی دیا۔ میں نے اپنی پچھلی تحریر میں لکھا تھا:

پی ڈی ایم کا سویلین سپریمیسی کا بیان (کچھ لوگ اسے بیانیہ کہتے ہیں جو کسی مذاق سے کم نہیں) بھی ایک ڈیلیوژن ہے۔

2018 کے اتخابات کے بعد سے صرف ایک ہی بات پی ڈی ایم کہے جا رہی ہے کہ عمران خان آئے نہیں بلکہ ’لائے گئے‘ ہیں۔ مریم نواز صاحبہ کہہ رہی تھیں کہ ”ہمارا مقابلہ عمران سے نہیں بلکہ انہیں“ لانے والوں ” سے ہے۔ جب بڑے بات کر رہے ہوں تو بچے نہیں بولا کرتے“ ۔ اور نہ جانے کیا کیا بیانات دیے گئے۔ بلکہ عمران خان کو تابعدار خان تک کہہ دیا تھا انہوں نے (حالانکہ اپنے والد صاحب کی تابعداری کا یہ عالم تھا کہ 2014 کے دھرنوں پر بیان دینے پر اپنی جماعت کے مشاہد اللہ خان سے استعفا لے لیا تھا۔اب جب آئینہ دکھاؤ تو برا مان جاتے ہیں) پھر محترمہ نے بی بی سی کو اپنے ایک انٹرویو میں واضح طور پر بتا دیا کہ وہ حقیقت میں کیا چاہتی ہیں۔

پیپلز پارٹی پہلے سے ہی اپنا موقف بتا چکی تھی۔ لیکن پھر بھی ہمارے محترم لکھاری یہی بتاتے رہے کہ بس اب سب ختم ۔ اب آئین و قانون کا راج ہو گا۔ ”محافظوں“ کا دور ختم ، سارے فیصلے اب سویلین کریں گے۔ جیسے ہی مریم صاحبہ ایک کھوکھلی تقریر کر دیتیں یا میاں صاحب چند کھوکھلے نعرے لگوا دیتے تو ہمارے ”جمہوریت پسند“ لکھاری خوشی سے باغ باغ ہو جاتے اور جو اخبارات یا ٹی وی پر آ کر اپنا موقف نہیں دے سکتے وہ یوٹیوب یا سوشل میڈیا پر ہمیں بتاتے کہ کیسے اب سویلین سپریمیسی آنے والی ہے۔

لیکن اب مولانا بھی یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ ان کا اصل مقابلہ کس کے ساتھ ہے۔ وہ کس کے خلاف سارا احتجاج کر رہے ہیں۔ یعنی مقابلہ عمران سے ہی ہے وہ بس روانی میں ”لانے والوں“ کا نام نکل گیا تھا۔ اصل میں یہ سارا مسئلہ نوکری کا ہے۔ ہماری سیاست کی صورت حال ایک کمپنی جیسی ہے۔ جس میں ایک باس ہے ، جس نے لوگوں کو نوکری دے رکھی ہے۔ جب کبھی باس کسی ملازم سے ناراض ہو جاتا وہ اسے نوکری سے نکال دیتا ہےاور اس کی جگہ کسی اور کو رکھ لیتا ہے۔اب باس کی ناراضی کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے۔ باس اپنی ناراضی کی وجہ بتانے کا پابند نہیں اس کی مرضی جو کرے۔

یہی ہماری سیاست میں ہوا۔ باس نے پہلے پیپلز پارٹی کو نوکری پر رکھا۔ پھر ان سے باس ناراض ہو گیا تو مسلم لیگ کو نوکری مل گئی۔ پھر مسلم لیگ کو نکال کر عمران خان کو نوکری پر رکھ لیا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ نکالا گیا ملازم اپنی برطرفی پر احتجاج کرتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح پی ڈی ایم نے کیا۔ اب کچھ بے وقوف یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید ملازم اب سمجھ گیا ہے سب اور اب وہ اس کمپنی کو بند کرنا چاہتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ ملازم اپنی نوکری کی بحالی کے لیے یہ سب کر رہا ہوتا ہے۔

اسی طرح ہر کمپنی میں کچھ ملازم ایسے ہوتے ہیں جن کی نوکری پکی ہوتی ہے۔ چاہے کچھ ہو جائے ان کی نوکری کو آنچ بھی نہیں آتی بلکہ ترقی ان کی منتظر ہوتی ہے۔ اب ہماری سیاست میں ایسے ملازم کون ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ، سب جانتے ہیں۔

مولانا کے اس بیان پر مجھے کوئی حیرت نہیں۔ اگر حیرت مجھے ہے تو وہ ان لکھاریوں پر ہے جو پی ڈی ایم کو نہ جانے کیا کیا ثابت کرنے پر لگے تھے؟ سوال یہ ہے کہ عام طور پر حقائق پر مبنی دلائل دینے والے لکھاری ان معاملات میں دھوکہ کیسے کھا جاتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ جذباتی باتوں سے، جذباتی تقریروں سے بہہ جاتے۔ اب ہمارے وہ لکھاری بھی چونکہ ہماری قوم سے تعلق رکھتے لہٰذا ان کا بہک جانا بھی عجیب نہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر ہمارے ان لکھاریوں نے بھی یونہی جذبات کی رو میں بہنا ہے تو پھر کیا فرق رہ جاتا ہے ان میں اور ہمارے عوام میں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).