ثانی اباچا: نائیجیریا کے سابق رہنما کے مرنے کے بعد ان کے ہاتھوں لوٹی ہوئی دولت دنیا بھر سے کیسے واپس لائی گئی؟


ثانی اباچا
ثانی اباچا نومبر سنہ 1993 میں ایک فوجی بغاوت کے بعد نائیجیریا کے سربراہ بن گئے
جب نائیجیریا کے سابق سربراہ ثانی اباچا نے اربوں ڈالر چوری کیے اور لوٹی ہوئی دولت خرچ کرنے سے پہلے ہی ان کی موت ہو گئی تو اس چھپائی گئی دولت کا سراغ لگانے کی کوششیں شروع ہوئی۔ سراغ لگانے کی یہ کوششیں کئی دہائیوں پر محیط تھیں۔

اس پیسے کا سراغ لگانے کے لیے جس شخص کی خدمات حاصل کی گئیں، انھوں نے بی بی سی کو کیسے انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اس دولت کا کھوج لگانے میں صرف کیا۔

ستمبر 1999 میں سوئس وکیل اینرکو مونفرینی کو نصف شب ایک ایسی فون کال موصول ہوئی جس نے اُن کی زندگی کے اگلے 20 برس بدل کر رکھ دیے۔

‘فون کرنے والے نے مجھے آدھی رات کو کال کی اور پوچھا کہ کیا میں اُن کے ہوٹل آ سکتا ہوں؟ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اس کے پاس مجھے بتانے کے لیے کوئی انتہائی راز کی بات ہے۔ میں نے کہا کہ اگرچہ اس وقت رات بہت ہو چکی ہے لیکن کوئی بات نہیں، میں آتا ہوں۔‘

سوئس وکیل کو فون کرنے والا شخص نائیجیرین حکومت کا ایک اعلیٰ عہدیدار تھا۔

یہ بھی پڑھیے

20 شہر جہاں سب سے زیادہ ارب پتی رہتے ہیں

کرپٹو کوئین: وہ خاتون جس نے اربوں لوٹے اور غائب ہو گئی

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ: پاکستان سے متعلق ’استعمال کیا گیا ڈیٹا پرانا نہیں ہے‘

کیا آپ پیسے ڈھونڈ سکتے ہیں؟

سوئس وکیل مونفرینی کا کہنا ہے کہ اس عہدیدار کو اس وقت کے نائیجیریا کے صدر اولوسگن اوباسنجو نے جنیوا بھیجا تھا تاکہ ثانی اباچا، جنھوں نے سنہ 1993 سے سنہ 1998 تک حکومت کی تھی، نے جو سرکاری دولت لوٹی تھی اس کا پتا لگایا جا سکے۔

ایک وکیل کی حیثیت سے مونفرینی کے 1980 کی دہائی سے ہی نائیجیریا میں کلائنٹس تھے۔ انھیں شبہ ہے کہ اس وقت کی نائیجیریا کی حکومت کو کسی پرانے کلائنٹ نے ہی اُن کا نام تجویز کیا ہو گا۔

انھوں نے مجھ سے پوچھا: ’کیا آپ لوٹی ہوئی دولت ڈھونڈ سکتے ہیں اور کیا آپ یہ رقم نائیجیریا واپس لانے کا بندوبست کر سکتے ہیں؟‘

میں نے کہا ’ہاں۔‘

‘لیکن حقیقت میں مجھے اس وقت کام کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں اور مجھے بہت جلدی سیکھنا تھا لہذا میں نے یہ کیا۔‘

اینرکو مونفرینی

Enrico Monfrini
ستمبر 1999 میں سوئس وکیل اینرکو مونفرینی کو ایک ایسی فون کال موصول ہوئی جس نے ان کی زندگی کے اگلے 20 برسوں کو بدل دیا

مونفرینی نے اپنی کتاب Recovering Stolen Assets میں لکھا ہے کہ ابتدائی طور پر نائیجیریا کی پولیس نے سوئس بینک کے کچھ بند اکاؤنٹس کی تفصیلات ان کے حوالے کیں، جن کے بارے میں ایسا لگتا تھا کہ اباچا اور ان کے ساتھیوں نے جو رقم لوٹی تھی وہ ابتدا میں ان ہی اکاؤنٹس میں جمع ہوئی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ نومبر 1998 میں پولیس کی ابتدائی تفتیش میں پتہ چلا کہ اباچا اور ان کے ساتھیوں نے ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ کی چوری کی تھی۔

’ٹرکوں کے حساب سے ڈالر‘

اس انتہائی بڑی رقم کو جمع کرنے کا ایک طریقہ تو انتہائی جرات مندانہ تھا۔

اباچا بطور سربراہ ریاست اپنے کسی مشیر سے کہتے کہ وہ سکیورٹی کے کسی مبہم معاہدے کی مد میں ان کے پاس سمری منظوری کے لیے بھیجیں اور اس معاہدے کی مد میں سرکاری پیسے کی درخواست کریں۔

اباچا پھر اس درخواست پر دستخط کرتے جس کے بعد ان کے مشیر اس درخواست کو سینٹرل بنک لے جاتے اور بینک اس پراجیکٹ کے عوض انھیں درکار اور منظور شدہ رقم کی ادائیگی کر دیتا، یہ ادائیگی اکثر اوقات نقد ہوتی۔

مشیر تھوڑا بہت اپنا حصہ رکھتے اور زیادہ تر رقم اباچا کو دے دیتے۔ مونفرینی لکھتے ہیں „بعض اوقات تو ٹرکوں کے حساب سے ڈالر اباچا کے گھر پہنچائے جاتے۔‘

اپاچا اور ان کے ساتھیوں کا دولت لوٹنے کا ایک طریقہ تو یہ تھا۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور طریقہ اپنے دوستوں کے ساتھ انتہائی مہنگے داموں ریاستی معاہدے کرنا اور پھر غیر ملکی کمپنیوں سے ملک میں کام کرنے کے لیے بھاری معاوضے کا مطالبہ کرنا تھا۔

ثانی اباچا

یہ سب تقریباً تین برس تک جاری رہا اور آٹھ جون سنہ 1998 کو 54 برس کی عمر میں اپاچا کی اچانک موت نے سب کچھ بدل دیا۔ جب اباچا کی موت ہوئی اس وقت بھی وہ سربراہ ریاست تھے۔

ان کے ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ واضح نہیں کہ انھیں دل کا دورہ پڑا تھا یا انھیں زہر دیا گیا کیوںکہ پوسٹ مارٹم نہیں ہوا تھا۔

اباچا چوری شدہ اربوں کی رقم خرچ کرنے سے پہلے ہی دم توڑ گئے اور کچھ بینک تفصیلات سے یہ سراغ ملا کہ یہ رقم کہاں چھپائی گئی تھی۔

اینرکو مونفرینی کہتے ہیں ’اکاؤنٹس کی تفصیلات ظاہر کرنے والی دستاویزات نے مجھے دوسرے اکاؤنٹ کے کچھ لنک فراہم کیے۔‘

اور اس معلومات سے لیس وہ یہ معاملہ سوئس اٹارنی جنرل کے پاس لے گئے اور پھر ایک بڑی پیشرفت ہوئی۔

مسٹر مونفرینی نے کامیابی کے ساتھ یہ استدلال کیا کہ اباچا خاندان اور ان کے ساتھیوں نے ایک مجرمانہ تنظیم تشکیل دی۔ یہ ایک ایسی کنجی تھی جس نے بہت سی اور راہیں کھولیں کہ حکام کس طرح ان بینک اکاؤنٹس سے نمٹ سکتے ہیں۔

ثانی اباچا کون تھے؟

  • خانہ جنگی کے دوران وہ نائیجیریا کی فوج کا حصہ تھے
  • اگست سنہ 1993 میں وزیر دفاع بننے سے پہلے وہ ملک میں ہونے والی دو بغاوتوں میں اہم کھلاڑی تھے
  • نومبر سنہ 1993 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے وہ ریاست کے سربراہ بن گئے
  • ان کی حکومت پر انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کا الزام رہا
  • ان ہی کے دورِ حکومت میں سنہ 1995 میں انسانی حقوق کے نو کارکنوں کو پھانسی دینے کے بعد نائیجیریا کو دولت مشترکہ سے معطل کر دیا گیا
  • آٹھ جون 1998 کو 54 سال کی عمر میں وہ اچانک وفات پا گئے
  • وہ دس بچوں کے والد تھے
ثانی اباچا

اٹارنی جنرل نے سوئزرلینڈ کے تمام بینکوں کو الرٹ جاری کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ اباچا اور ان کے ساتھیوں کے نام سے کھلے اکاؤنٹس کی تفصیلات کو سامنے لائیں۔

‘48 گھنٹوں میں 95 فیصد بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں نے ان تفصیلات کا اعلان کیا جن کا تعلق اس خاندان سے نظر آتا تھا۔‘

اس سے پوری دنیا میں موجود بینک اکاؤنٹس کا جال بے نقاب ہونا شروع ہو گیا۔

مونفرینی نے بی بی سی کو بتایا: ’بینک جنیوا میں پراسیکیوٹر کو دستاویزات فراہم کرتے اور میں پراسیکیوٹر کا کام کرتا کیونکہ ان کے پاس یہ کام کرنے کا وقت ہی نہیں تھا۔‘

بینک اکاؤنٹ بات کرتے ہیں

’ہم ہر اکاؤنٹ کے بارے میں معلوم کرتے کہ اس میں پیسہ کہاں سے آیا اور کہاں گیا۔‘

’ان بینک اکاؤنٹس میں پیسے آنے اور جانے کی تفصیلات سے مجھے دوسرے ممالک میں بھیجی گئی اور موصول ہوئی دیگر ادائیگیوں کے بارے میں مزید معلومات ملی۔‘

’تو جو معاملہ چند اکاؤنٹس سے شروع ہوا تھا وہ بڑی تعداد میں بینک اکاؤنٹس سے مل کر ایک بڑا بین الاقوامی آپریشن بن گیا۔‘

’بینک اکاؤنٹس اور ان کے دستاویزات نے بہت سی معلومات دیں۔‘

’ہمارے پاس بہت سے ثبوت موجود تھے کہ یہاں اور وہاں بہاماس، ناسو، کیمن جزائر میں رقم بھیجی جا رہی ہے۔ آپ بس کسی بھی جگہ کا نام لیں۔‘

اباچا نیٹ ورک کے لیے مونفرینی کو بہت محنت اور کوششیں کرنا پڑیں۔

’کسی کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ مجھے بہت سے لوگوں کو کام نکلوانے کے لیے تنخواہ دینی پڑی، مختلف ملکوں میں بہت سے اکاؤنٹنٹ اور وکیلوں کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔‘

مونفرینی نے نائیجیریا کو واپس بھیجی گئی رقم پر چار فیصد کمیشن پر اتفاق کیا تھا۔ جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ’انتہائی کم‘ شرح تھی۔

رقم ڈھونڈنے کا عمل نائیجیریا رقم واپس بھیجنے سے زیادہ تیز رہا۔

دوسری جانب اس دولت کے لیے اباچا کا خاندان ‘جانوروں کی طرح لڑ رہا تھا۔‘ وہ ہر چیز کے بارے میں اپیل کر رہے تھے۔ اس وجہ سے رقم واپسی کا عمل خاصا سست رہا۔

مزید تاخیر اس وقت ہوئی جب سوئس سیاستدانوں نے اس پر زور دیا کہ اگر رقم واپس کر دی گئی تو یہ پھر چوری ہو سکتی ہے۔

کچھ رقم پانچ سال بعد سوئزرلینڈ سے واپس بھیجی گئی۔

مونفرینی نے سنہ 2008 میں لکھا کہ اباچا کے خاندان کے سوئس اکاؤنٹس سے ملنے والے 508 ملین ڈالر سوئزرلینڈ سے نائیجیریا سنہ 2005 سے 2007 کے درمیان بھیجے گئے۔

سنہ 2018 تک سوئزرلینڈ سے نائیجیریا پہنچنے والی رقم ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی تھی۔

ثانی اباچا

ثانی اباچا آٹھ جون 1998 کو 54 سال کی عمر میں اچانک وفات پا گئے تھے

دوسرے ممالک رقم واپس کرنے میں سست تھے۔ ’مثال کے طور پر لیچٹینسٹن تباہ کن تھا۔ یہ ایک خوفناک خواب تھا۔‘

جون 2014 میں لیچٹینسٹن نے بالآخر نائیجیریا کو 277 ملین ڈالر واپس بھیج دیے۔

چھ برس بعد مئی سنہ 2020 میں جرسی کے جزیرے پر ایک اکاؤنٹ سے 308 ملین ڈالر بھی نائیجیریا واپس آ گئے۔ یہ تب ہی ہوا جب نائیجیریا کے حکام نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس رقم کا استعمال خاص طور پر دوسرے نائجر پل، لاگوس ابادان ایکسپریس وے اور ابوجا کانو سڑک کی تعمیر کے لیے کیا جائے گا۔

بہت سے ممالک کو ابھی یہ لوٹی ہوئی رقم واپس بھیجنا باقی ہے۔

مونفرینی اب بھی 30 ملین ڈالر ملنے کی توقع کر رہے ہں جو برطانیہ سے آنے ہیں، فرانس سے 144 ملین ڈالر جبکہ جرسی سے مزید 18 ملین ڈالر ملنے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مجموعی طور پر ان کے کام سے 2.4 ارب ڈالر کی وصولی ہوئی۔

’شروع میں لوگوں نے کہا اباچا نے کم سے کم چار سے پانچ ارب ڈالر کی چوری کی۔ مجھے یقین نہیں آیا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم کم و بیش زیادہ تر پیسہ واپس لے آئے۔‘

مونفرینی نے افواہیں سُنی کہ اباچا کا خاندان اب اتنا امیر نہیں رہا اور جب مونفرینی واپس دیکھتے ہیں تو وہ اپنے کام سے مطمئن نظر آتے ہیں۔

’جب میں اپنے بہت سارے بچوں سے اس معاملے کے بارے میں بات کرتا ہوں تو میں کہتا ہوں کہ میں نے رقم ڈھونڈ لی اور میں نے رقم بلاک کر دی، میں نے حکام کو اس بارے میں رضا مند کیا کہ ان لوگوں کا پیچھا کریں اور یہ رقم نائیجیریا کی عوام کی بھلائی کے لیے واپس لائیں۔‘

’اور ہم نے یہ کر دکھایا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp