کاش یہاں فلم کاکلچر ہوتا!


کاش ہمارے یہاں فلم کا کلچر ہوتا یا فلم ساز ہی دو چار موضوعات کے اسیر نہ ہوتے۔ اگرخوش قسمتی سے ایسا ہوتا تو ہماری فلم کا شہرہ چار دانگ عالم میں ہوتا۔ لوگ بھول جاتے کہ کوئی فلم ’ونس اپون آ ٹائم ان ممبئی‘ یا اس جیسی دیگر فلمیں بھی بنا کرتی تھیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ بالی ووڈ نے متنوع موضوعات پر کمال کی فلمیں بنائی ہیں۔

صرف’ ونس اپون آ ٹائم ان ممبئی‘ پر ہی کیا موقوف، اس کا سیکوئیل ہی نہیں، ایسے اور بھی بے شمار موضوعات ہیں جنھیں تشدد وغیرہ کے کھاتے میں ڈال کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے لیکن ایسا موضوع تخلیقی ذہن رکھنے والے کسی فلم ساز کے ہاتھ میں آکر دھڑکتا ہوا دل بن جاتا ہے۔

کچھ دن ہوئے ہیں، اہل خانہ کے ہمراہ بڑے شوق سے ایک فلم دیکھنے گئے،’ سات دن محبت ان۔ فلم شروع ہوئی، یہاں تک کہ بریک کا وقت قریب آپہنچا لیکن کہانی شروع ہونے کا انتظار ہی رہا ، وقفے تک پاکستانی فلم کی سرپرستی کا خمار اتر چکا تھا۔ تماش بینوں نے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھی، آنکھیں جھپکائیں اور با جماعت اٹھ کھڑے ہوئے، ایسی فلم بینی سے شکم پروری اچھی۔یہ واقعہ دو وجہ سے یاد آیا۔

ایسے ہی خبروں کے لیے سرفنگ کرتے کرتے ٹیلی ویژن کی کسی اسکرین پر نگاہ پڑی، وقفے تک بھی شائقین کو روکنے میں ناکام رہنے والی فلم کے نام کے ساتھ لکھا تھا، بلاک بسٹر۔  خیال آیا کہ حقیقت سے یوں ہی نگاہیں چرانے اور خود ستائی کے مرض سے نجات نہ ملی تو کم از کم فلم کا شعبہ تو اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو پائے گا۔ اس خیال کے آنے کی دوسری وجہ وہ خبر تھی جس میں بتایا گیا کہ اسی اور نوے کی دہائی کے افسانوی طالب علم راہ نما حافظ  سلمان بٹ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

حافظ صاحب کی زندگی بھی عجب تھی، یوں سمجھ لیجیے کہ کسی داستان کے کردارتھے۔ بد اچھا بد نام برا، حافظ سلمان بٹ کا معاملہ ایک زمانے میں ایسا ہی تھا، لاہورکے کسی تعلیمی ادارے میں تشدد کا کوئی واقعہ ہو جاتا یاکسی بے گناہ کی جان چلی جاتی، پرچہ ان کے خلاف کٹتا۔ یوں حافظ صاحب اپنی زندگی بھی اجیرن تھی اور ان کے ساتھیوں کی بھی۔ایک بار لیاقت بلوچ کے ذہن میں جانے کیا خیال آیا، حافظ صاحب کا ہاتھ پکڑااور انھیں پولیس کے سپرد کردیاکہ جتنی تفتیش ان سے کرنی ہے، کر لو۔

معلوم نہیں، کیا تفتیش ہوئی,کیا نہیں لیکن کمال یہ ہوا کہ حافظ صاحب کچھ عرصے کے بعد جیل سے نکلے اور کسی خوب صورت کہانی کے کردار کی طرح ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے ۔معلوم ہوا کہ وہ مقدمے اور پرچے لیڈری کی دین تھے۔ زمانہ طالب علمی بیتا تو آزمائشیں بھی ختم ہوئیں اور ماضی کے حریف باہم شیر و شکر دکھائی دینے لگے۔ یقین نہ آئے تو حافظ صاحب کی وفات پر خواجہ سعد رفیق کا اظہار غم اور باہمی قربت کا والہانہ اظہارایک بار پھر پڑھ لیجیے اور یہ بھی یاد کر لیجیے کہ یہی لوگ تھے جو ایک دوسرے کے خلاف بندوقیں بھی اٹھاتے اور مقدمے بھی د رج کرایا کرتے تھے۔

حافظ صاحب کے حصے میں آنے والی شہرت کا سوچیے، کیا کچھ اس میں نہیں تھا؟لڑائی جھگڑے، مار پیٹ اور تھانہ کچہری سب کچھ ہی تو تھا پھر 1985 کا انتخاب یاد کیجیے جس میں جماعت اسلامی کا یہ نوجوان راہ نما ایک ایسے حلقے سے کامیاب ہوا جس میں کوئی منصورہ یااچھرہ نہیں، بازار حسن پایاجاتا تھا۔ یہ واقعہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن اُس روز تو یہ بھی ہوا کہ اُس بازار کی مظلوم حوا زادیاں یہ کہتی ہوئی پولنگ اسٹیشنوں میں دیکھی گئیں کہ آج ہم اپنے بھائی کو کامیاب بنائیں گی۔ یہ کرشمہ کیسے ہوا اور ایک جماعت زادہ بازار ِحسن میں کس ترکیب سے ووٹ مانگنے گیا ۔ یہ مناظرکتنے مزے کے ہوں گے؟

اس انتخاب کا ایک اور پہلو بھی بڑا ڈرامائی ہے، ان کے حریف میاں صلاح الدین عرف میاں صلی تھے۔ وہی میاں صلی جو اقبال کے داماد اور یکے از رئیسان لاہور تھے۔ اقتدار اور طاقت ان کے گھر کی رونق تھی۔ یہ حقیقتیں اپنی جگہ دلچسپ ہیں لیکن یہ بات کتنے مزے کی تھی کہ اس معرکے میں ایک طرف اقبالؒ کا خانوادہ تھا اور دوسری طرف اقبالؒ کی نام لیوا جماعت اسلامی۔ مزید کمال یہ ہوا کہ اقبالؒ کا خانوادہ رہ گیا اور اقبالؒ کا نام لیوا سرخ رو ہوا۔ اب ذرا یہ مناظر ذہن میں لائیے اور سوچئے کہ کوئی مشاق فلم سازاس کہانی کو فلم میں بدل دے توکیاسانس اٹک اٹک نہ جائے؟

ہمارے معاشرے میں طلبہ سیاست کیا ہے اور اس میں حصہ لینے والوں کو کن کٹھنائیوں سے گزرنا پڑتا ہے پھر تعلیمی ادارے کی لیڈری سے پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچنے میں کیا کیا مرحلے طے کرنا پرتے ہیں؟ ایسے واقعات پر فلم بنے تو ایک تو یہی الف لیلہ سمجھ میں نہیں آئے گی بلکہ بہت سی غلط فہمیوں اور بے شمار درست فہمیوں کا ازالہ بھی ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ ایسے بہت سے لوگوں کی افتاد طبع کی خبر بھی ہو جائے گی کہ کیسے کیسے جاہ و مناصب حافظ سلمان جیسے لوگوں کا تعاقب کرتے ہیں اور یہ لوگ کنی کاٹ کر فٹ بال کے ہنگاموں میں کھو جاتے ہیں۔

لوگ کہا کرتے تھے کہ حافظ صاحب بڑی خوبیوں کے آدمی ہیں لیکن فٹ بال انھیں لے بیٹھا۔ ممکن ہے کہ ان کے بارے میں یہ تاثر درست ہو لیکن ایک تاثر یہ بھی ہے کہ فٹ بال کے دامن میں انھوں نے یوں ہی پناہ نہیں لے رکھی تھی۔ فٹ بال ان کے لیے کسی صوفی کے غار کی طرح تھا جس میں چھپ کر وہ علائق دنیوی سے بچنے کا جتن کیا کرتے تھے۔ حافظ سلمان فٹ بال میں پناہ نہ لیتے تو گردن گردن تک سیاست میں دھنس جاتے لیکن سیاست کی دنیا میں جو کھینچا تانی،لے دے اور ہٹو بچو ہوتی ہے، ان ہنگاموں سے ان کی کبھی نہ بن پائی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جاہ و منصب نے بھی زندگی بھر ان کا پیچھا کیا لیکن ہر بار وہ کنی کاٹ کر نکل گئے اور ریٹی گن روڈ پر اپنے آبائی گھر میں پناہ لی۔

ویسے فٹ بال کا معاملہ بھی خوب ہے، اس کھیل کے وہ دیوانے تھے۔ یہ خیال ان کے ذہن میں ہمیشہ رہا کہ کسی طرح وہ غریبوں کے اس کھیل کو زندہ کر دیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے فیصل صالح حیات سے ٹکر بھی لی لیکن بدقسمتی سے انھیں اس میدان میں سیاسی میدان جیسی ٹیم میسر نہ آسکی، ورنہ قبضہ مافیا کے شکنجے سے اس کھیل کو چھڑا کراپنے پاؤں پر کھڑا کر دینا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں تھی۔

ساتھیوں کا ساتھ اور چیلنج کا سامنا، حافظ صاحب کی زندگی بس ان ہی دو نکات کے گرد گھومتی ہے۔ زندگی کے کسی بھی مرحلے ان کا سامنا کسی مشکل سے ہوا ا، انھوں نے نعرہ لگایا:

’خون ہو یا رنگ ہو،ساتھیوں کے سنگ ہو۔ یہ للکار سنتے ہی ان کے ساتھی جمع ہوتے چلے جاتے اور یہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے میدان مار لاتے۔ کاش ہمارے ہاں فلم کا کلچر ہوتا یا فلم چند گھسے پٹے موضوعات کی اسیر نہ ہوتی تو اس دیس میں ایسی ایسی فلم بنتی کہ دیکھنے والے دانتوں تلے انگلیاں داب لیتے۔ ایکشن، سسپنس، محبت، نظریہ، کمنٹ منٹ اور قربانی کیسے کیسے موضوعات ہمارے گرد بکھرے ہوئے نہیں ہیں، کاش کسی کی نگاہ موضوع شناس یہ سب دیکھ پاتی۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).