حکومت اور بیوروکریسی کا قبلہ درست ہونا ناگزیر


رسم بدلی، رواج بدلا، نئے انداز نے زمانے کا چلن بدلا۔ افراد کی تعداد پر جنگیں لڑی جاتی تھیں، ساز و سامان کی کثرت فتح و شکست کا فیصلہ کرتی تھی۔ حالات نے کروٹ لی تو ذہن کی بلند پرواز  نے سوچ کو نیا رنگ دیا اور پھر معیشت نے سب کو پچھاڑ دیا۔ اب جس ملک کی اقتصادی حالت اچھی ہے وہ ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے دنیا میں عزت پا رہا ہے۔ اقتصادیات کی اس جنگ میں افراد کی اہمیت اب اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ تمام ممالک اپنے خام مال یعنی افراد کی صلاحیت کو بہترین اور موثر انداز میں استعمال کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

یہ خام مال جب مناسب کام کرے گا تو لامحالہ وہ ملک معیشت کی جنگ میں سب کو مات دے گا۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں اقتصادی ماہرین ایسی پالیسیاں ڈیزائن کرتے ہیں جن کی بنیاد پر ملک میں پہلے سے قائم انڈسٹریز وسعت کی طرف مائل ہو کر اپنی پیداوار میں اضافہ کریں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس ملک میں کاروبار کے لیے اچھی اقتصادی پالیسیاں بنائی جائیں گی ، وہاں ملازمتوں کے دروازے کھلنے کے ساتھ ساتھ حکومتی ریونیو میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔

یاد رہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں عوامی نمائندوں اور سرکاری افسروں کے عمدہ تال میل کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔مہذب اور زندہ معاشروں میں فرض شناس اور سمجھ دار عوامی قیادت اور بیورو کریسی، تفویض کردہ فرائض کی بجا آوری اپنے ایمان کا حصہ سمجھ کر کرتی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو دنیا میں حکومت کرنے والی اقوام کی سیاسی قیادت اور اعلیٰ افسران کی مثبت سوچ ہی ان اقوام کو بام عروج تک لے جانے میں معاون ثابت ہوئی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں بہت ہی کم جگہوں پر قابل افراد کا تقرر کیا جاتا ہے اور عموماً اقربا پروری اور سفارش کی بنا پر عہدے بانٹے جاتے ہیں ، جس کی وجہ سے ٹھوس اور بہتر پالیسیاں صرف ایک سہانا خواب بن گئی ہیں اور کرسیوں پر براجمان نالائق افراد اپنے مفادات اور ذاتی ترجیحات کی بنیاد پر منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اس طرح کی پلاننگ میں ہمیں یقیناًملکی اقتصادی حالت کو بہتر کرنے کی سوچ کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہمارے چہیتے سیاست دان جب ملکی معیشت کی بربادی کا رونا روتے ہیں تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب قابل لوگوں کو چھوڑ کر پسندیدہ افراد کو من پسند عہدے بانٹے جائیں گے تو برے نتائج کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا۔

جب سے غلط روش پہ ہے انسان چل پڑا
سمتیں اجڑ کے رہ گئیں، آفاق مر گئے
انساں کی زندگی بھی ہے مثل چراغ شب
شب بھر سلگ کے ساعت اشراق مر گئے

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم محنت کے عادی نہیں ۔ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند پر صدیوں تک حکومت کی اور اس حکمرانی کے نشے نے اس قوم کو عیش و آرام طلبی کا عادی بنا دیا۔ صدیوں تک حکومت کرنے کے بعد تقریباً ایک صدی تک غلامی کی زنجیریں بھی اس خطہ زمین کے مکینوں کے حصے میں آئیں۔ انگریزوں اور ان کے مددگار ہندوؤں نے ایک سازش کے تحت شاندار ماضی اور دین اسلام کی روایات کی حامل مسلمان آبادی کو ذات ، برادری اور فرقوں میں تقسیم کر دیا۔

دین اسلام کے شیدائیوں کو نسلی، علاقائی، جغرافیائی اور لسانی گروپ بندیوں کا شکار کر دیا گیا اور آج ہمارے اندر یہ تقسیم اس قدر شدید ہے کہ معاشرے کے افراد انسانی واخلاقی قدروں سے تقریباً اپنا دامن چھڑا چکے ہیں اور دنیا کی رنگینیوں میں اپنے لیے سکون تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ آج کے انسان کی خواہشیں کیا ہیں؟ ”کسی بھی قیمت پر دنیا کی آسائشیں مل جائیں“ ، ”اہم عہدہ حاصل ہو جائے“ ، ”حکمرانوں سے تعلق داری بڑھ جائے“ ، ”بینک بیلنس میں اضافہ کیسے ممکن ہو“ ، ”بس دنیا کی سب چیزیں حاصل کر کے، چند دن کا سکون مل جائے“

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اگرچہ حد سے زیادہ نکمے، بدکار، سرکش اور متکبر ہو چکے ہیں مگر ہمارا رب ہمارا رزق بند کیوں نہیں کر رہا؟ سوچو! اگر اللہ چاہے تو ہم سب ایک ”کن“ کی مار ہیں۔ جس مالک کی توفیق کے بغیر ہم ایک سانس بھی نہیں لے سکتے، اس کا در چھوڑ گئے ہم؟ افسوس کتنے بدقسمت ہیں۔ آج پاکستانی معاشرے اور افراد کی ترکیب میں بے ترتیبی کی وجہ سے ساری سوسائٹی افراتفری کا شکار ہے ، جس کی وجہ سے عوام کے ایک انصاف پسند اور میرٹ والے معاشرے کے خواب ٹوٹنے کے قریب ہیں۔

افراد سوچتے ہیں کیا ہمارے حصے میں نا انصافی رہے گی؟ کیا ہم یونہی ظلم کا شکار رہیں گے؟ کیا بدکردار لوگ تخت شاہی کا مزا لوٹتے رہیں گے؟ کیا انسانیت کا جنازہ یونہی اٹھایا جاتا رہے گا؟ کیا احتساب کا عمل یونہی رکا رہے گا؟ کیا کسی لاچار کا کوئی مددگار بنے گا؟ یہ چند سوالات عوام کے اپنے عوامی وزیراعظم سے ہیں۔ یاد رہے کہ حکومتی اداروں کے فعال کردار سے کرپٹ عناصر کو قرار واقعی سزائیں ملنے سے معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہو گا، دراصل اس طرح کا عمل ہی ایک زندہ قوم کے افراد کا آئینہ ہوتا ہے۔

ہر شخص چاہتا ہے کہ ملک میں عفریت کی طرح پھیلی نا انصافی، کرپشن، ملاوٹ، رشوت ستانی، بد عنوانی اور اقربا پروری کا خاتمہ ہو اور ہم ایک مہذب ملک کے شہری کہلائیں۔ ساری دنیا میں ہماری بحیثیت ایک قوم کے عزت اور پہچان ہو، ہمارے گرین پاسپورٹ کی عزت ہو۔ اس طرح کے معاشرے کی تشکیل کے لیے سیاسی حکومت کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ایسے سرکاری افسران کی بھی ذمہ داری بنتی ہے جو اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں اور اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔

ایسے دیانت دار اور فرض شناس افسروں کا بھی فرض بنتا ہے کہ بدعنوان عناصر کی بیخ کنی کرنے میں عوام کے مددگار بنیں، عوام کے مسائل حل کریں اور ترقیاتی کاموں کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچے۔ جب ساری قوم کا مقصد ایک ہو گا اور سب اس کے حصول کے لیے کوشاں ہوں گے تو پھر ہمارے وزیراعظم عمران خان کا مدینہ کی ریاست کا خواب بھی پورا ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).