کاغذ کی کشتی سے انجان نسل


بچپن بھی بڑی انمول چیز ہے۔ یہ دور انسان کی وہ قیمتی متاع ہے، جس کے کھو جانے کا غم انسان کو ہمیشہ ستاتا ہے۔ انسان کتنے ہی بلند مقام و مرتبے یا کسی بھی عمر کو پہنچ جائے، لیکن ضرور کبھی کبھار مٹی میں کھیلتے ہوئے ننگ دھڑنگ بچپن کی شرارتوں سے مزین معصوم و سہانی یادیں اس کی آنکھوں سے آنسو بن کر چھلک ہی پڑتی ہیں اور انسان ایسی وادیوں میں گم ہو جاتا ہے، جن سے واپس لوٹنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔ یہی وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے مستقبل کی خوبیاں اور خامیاں طے پاتی ہیں۔ انسان کی تقریباً ہر خوبی اور خامی، کمزوری اور طاقت کہیں نہ کہیں اس کے بچپن سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔

سنا ہے انسانی زندگی بہت ہی خوبصورت ہوتی ہے اور یہ بھی سن رکھا ہے کہ کسی بھی انسان کی زندگی کا خوبصورت ترین حصہ بچپن ہوتا ہے، کہتے ہیں کہ اس عمر میں انسان کو جتنی دنیا کی خفت سے آزادی میسر ہوتی ہے اور بے فکری حاصل ہوتی ہے ، اس قسم کی آزادی اور بے فکری کے لئے انسان باقی زندگی ترستا ہی رہتا ہے۔ کسی جگہ یہ بھی سنا کہ پچپن کی طرف بڑھتے ہوئے انسان کو بچپن بڑا یاد آتا ہے اور اس یاد میں کبھی کبھار بے دھیانی میں آنسو بھی نکل آتے ہیں، لیکن خیر ہم تو ابھی پچپن کی طرف گامزن ہی نہیں ہوئے تو ہمیں اس کیفیت کا کیا ہی اندازہ ہو گا۔

میرے سامنے موجودہ وقت کے بچے پروان چڑھ رہے ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آج کل کے بچوں کا بچپن اتنا پر رونق، رنگین اور پر جوش نہیں جیسا ہمارا بچپن تھا۔ دو تین گھنٹے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کارٹون دیکھنا، ویڈیو گیم، موبائل فون اور انٹرنیٹ میں غرق بچوں کی دنیا ایک کمرے تک محدود ہوتی ہے جب کہ تین چار دہائیوں پہلے کے بچوں کے کھیلوں اور شرارتوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔

بچپن ایک کیمرہ کے مانند ہے جس میں شرارتیں، آوارہ گردیاں، معصومیت، نادانیاں، بے جا ضد اور حماقتیں محفوظ ہوتی ہیں اور انسان کو تاعمر یاد آتی رہتی ہیں اور انسان ان یادوں کو تازہ کر کے بھیگی آنکھوں کے ساتھ ایک گہری سانس لیتا ہے۔

اسکول سے والدین کو شکایت ملنے پر والدین کے غضب ناک چہرے کا سامنا کرنا، ڈانٹ اور تھوڑی بہت مار پڑنے پر والدین سے ناراض ہو جانا اور پھر ان کا پیار سے منانا، اپنی مرضی کی کوئی چیز فوری لانے کی ضد کرنا، چیز نہ آنے پر اسکول نہ جانے کی دھمکی دینا۔ اپنی کوئی نئی چیز آنے پر تفاخرانہ انداز میں سب کو دکھانا مثلاً کس کے لئے کوئی نیا کھلونا لایا جاتا تو وہ اس کھلونے کو لے کر سارے محلے میں دکھاتا پھرتا اور اس دن وہ بچہ پورے محلے کے بچوں میں چھایا رہتا۔

بہن بھائیوں کا آپس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ پڑنا اور پھر کچھ ہی دیر میں صلح کر کے اکٹھے کھیلنے لگ جانا بھی بچپن کی حسین یادوں کا ایک خوبصورت ترین حصہ ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ماں کے ساتھ ننھیال جانے کے لیے خوشی خوشی تیار ہونا، گھر کے کسی بڑے کے ساتھ ساتھ انگلی پکڑ کر باہر گھومنے جانا اور کسی دکان پر ضد کر کے بیٹھ جانا اور آخر تک اپنی مانگ اور ضد پر ڈٹے رہنے جیسی ثابت قدمی بھی بچپن کا حصہ ہے۔

دادی ماں کا دیر دیر تک کہانیاں سنانا، سارا دن کھیلتے رہنا اور تھوڑی دیر پہلے صاف ستھرے کپڑوں کو مٹی سے خراب کر دینا بھی بچپن کی معصوم شرارتوں میں شامل رہتا ہے۔ گھنٹوں تتلیاں پکڑنے کی کوشش کرنا، ریت کے گھروندے بنا کر خود ہی انہیں لاتیں مار کر ختم کر دینا، ہاں یہ بھی تھا کہ اگر کوئی دوسرا ایسا کرے تو فوراً اسی وقت احتجاجاً زمین پر لیٹ کر گڑگڑا کر رونا بھی اولین فرض سمجھا جاتا تھا۔

کاغذ کے جہاز بنا کر اڑانا اور کاغذ کی کشتیاں بنا کر بارش کے پانی میں چلانا، بارش کی بوندوں پر ہاتھ رکھ کر اس بوند کا مالک بن جانا، بارش کے بعد کھڑے پانی پر زور سے چھلانگ لگا کر پانی کے دائرے کو بڑھا دینا، اور اسی قسم کی بے شمار یادیں انسان کی زندگی کا جزو لاینفک ہے۔

بچپن میں جیبیں تو پیسوں سے خالی ہوتی ہیں، لیکن دل دولت محبت سے لبالب بھرے ہوتے ہیں۔ نہ کسی کو دولت کے انبار لگانے کی حرص ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی اپنے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے دوسروں کا مستقبل تاریک کرتا ہے اور نہ کوئی اپنے فائدے کی خاطر دوسروں کو نقصان بھی نہیں پہنچاتا۔ بچپن دشمنی، کینہ، بغض، حسد، تکبر، لالچ اور ان تمام برائیوں سے دور ہوتا ہے، جو انسان سے خوشیاں چھین لیتی ہیں۔

ہمارا بچپن کا بیشتر حصہ ان مستیوں، شرارتوں اور حماقتوں سے کافی محروم ضرور تھا ، میں سوچتا تھا کہ لوگ کیوں کہتے ہیں کہ بچپن کا زمانہ بڑا ہی اچھا ہے۔ اس بات کا جواب اس وقت تو نہیں لیکن اب ضرور مل گیا ہے۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ اب بولتے وقت بڑے محتاط انداز میں بولنا پڑتا ہے، اٹھتے وقت، بیٹھتے وقت، چلتے وقت، کھاتے وقت، کسی سے مصافحہ کرتے وقت گویا ہر وقت ہر چیز میں انسان کو بڑا محتاط رہنا پڑتا ہے، لیکن بچپن میں اس قسم کی کوئی شرط لاگو نہ تھی۔

خیر، اوپر بتائی گئی ساری چیزیں بیتے زمانوں کے بچپن کی تھی، دور حاضر کے بچوں کو وہ سہانا بچپن میسر ہی کہاں۔ آپ ان بچوں کو کیا کہیں گے جو پیدا ہوتے ہی بڑے ہو گئے اور بچپن کا منہ بھی نہ دیکھا۔ جی ہاں، میں آج کے اس دور کے بچوں کی بات کر رہا ہوں، جن کے بارے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ آج کل کے بچے بڑے ذہین و چالاک ترین ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جس اسمارٹ فون کے سر پیر میں سمجھ نہیں پاتا، وہ دو اڑھائی سالہ بچہ جانتا ہے کہ اس میں اس کے پسندیدہ کارٹون موٹو پتلو کیسے لگیں گے، اپنی پسندیدہ گیم سبوے سرفر کیسے انسٹال ہو گی اور کیسے کھیلی جائی گی۔

آج کا بچہ ذہانت، عقل، سمجھ بوجھ ہر چیز اتنی رکھتا ہے، جو ہمیں کہیں نوجوانی میں جا کر ملی تھی۔ دور حاضر کے بچے ہاتھوں میں آئی پیڈ، اینڈرائیڈ فون اور نہ جانے کیا کیا لیے گھومتے رہتے ہیں۔ دیواروں پر ٹنگے ایل سی ڈی سے دنیا جہاں سے اپنے مطلب کے پروگرام ڈھونڈ لیتے ہیں۔ سمارٹ فون کے ذریعے دنیا کا ہر کھیل، کھیل سکتے ہیں اور کیا کچھ نہیں ہے، جو انہیں میسر نہیں، سوائے اس کے، جسے بچپن کہتے ہیں۔

تعلیم کو انسان کی تیسری آنکھ کہا جاتا ہے، تعلیم کے بغیر انسان اندھے کے مترادف ہے، لیکن دور حاضر کے بچوں پر تعلیم کے نام پر بے جا اور غیر ضروری وزن ڈال دیا گیا ہے، جس سے بچے بہت ہی کم عمری میں ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہر وقت پریشانی و الجھن میں مبتلا رہتے ہیں۔ اسکول سے ابھی چھٹی ہی ہوتی ہے تو ٹیوشن کا وقت ہو جاتا ہے، ایک ٹیوشن سے فارغ ہوئے تو دوسری ٹیوشن ، دوسری ٹیوشن سے فارغ ہوئے تو کمپیوٹر کورس، وہاں سے نکلے تو دینی تعلیم، اسی تگ و دو میں وہ بچپن کا سہانا دور بھرپور طریقے سے گزار نہیں پاتے م شاید بچپن کی یہی ذہنی کیفیت آج کل کے نوجوانوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا ایک سبب ہو سکتی ہے۔

میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ بچوں کو دینی و دنیاوی تعلیم سے روشناس نہ کریں، لیکن تھوڑی بہت روشنی کی کرنیں ان کے بچپن پر بھی پڑنے دو۔ آج کل والدین کے پاس بھی اپنے بچوں کے لیے وقت نہیں ہوتا، وہ بس بچوں کے ہاتھ میں اسمارٹ فون یا کوئی اور گیجٹ پکڑا کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری نبھا لی۔ ایسا، بالکل نہیں ہونا چاہیے، بچوں کو ان گیجٹس سے کئی گنا زیادہ آپ کے وقت کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).