کورونا وائرس: ہوائی سفر کے لیے لوگ کووڈ 19 کے ’جعلی‘ ٹیسٹ رزلٹ خرید رہے ہیں


کورونا وائرس، ہوائی سفر
ہوائی سفر پر جانے والے بعض مسافر کورونا کے جعلی ٹیسٹ رزلٹ خریدتے ہیں
بی بی سی کو ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بعض مسافر ہوائی سفر پر جانے کے لیے اتنے بیتاب ہیں کہ وہ کووڈ 19 کے ٹیسٹ کے جعلی نتائج خرید رہے ہیں۔

افغانستان میں یہ عمل زور پکڑ رہا ہے۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس میں کروڑ پتی شخصیات سے لے کر حکومتی اہلکار شامل ہیں جو جعلی دستاویزات استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔

’شروع میں یہ سنجیدہ مسئلہ تھا۔ ہر پرواز پر جانے والے 10 سے 20 افراد جعلی کووڈ 19 ٹیسٹ لے کر آتے تھے۔ پھر یہ مزید سنگین ہوتا گیا اور یہ تعداد 50 افراد تک پہنچ گئی۔ جن منزل پر پہنچ کر ان کے ٹیسٹ دوبارہ کیے جاتے تو ٹیسٹ رزلٹ مثبت آتے تھے۔‘

افغانستان میں سول ایوی ایشن اتھارٹی (اے سی اے اے) کے ڈائریکٹر محمد قاسم کے مطابق یہ مسئلہ اکتوبر کے اواخر میں سامنا آیا تھا۔

متحدہ عرب امارات میں لازم تھا کہ مسافر اپنی آمد پر منفی پی سی آر ٹیسٹ پیش کریں۔ 53 ممالک سے آنے والے مسافروں کو دوبارہ ٹیسٹنگ کے عمل سے گزارنے کی شرط لگائی گئی تھی۔

ان میں سے ایک ملک افغانستان تھا۔ متحدہ عرب امارات کو جلد یہ احساس ہوا کہ مسافر جعلی ٹیسٹ پیش کر رہے ہیں۔ کچھ مسافروں نے تو جان بوجھ کر کورونا کے جعلی ٹیسٹ رزلٹ ظاہر کیے تھے تاہم بعض کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایسا بغیر جانے کیا ہے یا ان کے ساتھ کسی نے دھوکہ کیا۔

کابل ایئر پورٹ

AFP via Getty Images
کابل ایئر پورٹ سے روزانہ قریب 12 بین الاقوامی پروازیں اڑان بھرتی ہیں

کابل میں مقیم تاجر یاسین (فرضی نام) ایک ایسے کلینک پر گئے تھے جو ان کے مطابق قابل اعتماد تھا۔ انھوں نے دبئی جانے کے لیے ایک مہنگا ٹیسٹ بھی کروایا تھا۔

’میں بہت خوش تھا کہ میرا ٹیسٹ رزلٹ منفی آیا ہے۔ میں پُراعتماد انداز میں ایئر پورٹ گیا تھا۔‘

کابل ایئرپورٹ پر تو ٹیسٹ قبول کر لیا گیا لیکن جب وہ دبئی پہنچے تو انھوں نے دوبارہ ایک کورونا ٹیسٹ کیا جو مثبت آیا (یعنی وہ کورونا سے متاثر تھے)۔

یاسین کو فوراً قرنطینہ منتقل کر دیا گیا اور ان کا کاروباری دورہ ’برباد‘ ہوگیا کیونکہ ان کے مطابق انھیں ایک جعلی کورونا ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ تھمایا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کلینک نے ان کا جعلی ٹیسٹ کیا تھا۔

ہوائی سفر، افغانستان

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں جولائی 2020 کے لاک ڈاؤن کے بعد ہر ماہ اوسطاً آٹھ ہزار مسافر بیرون ملک سفر کرتے رہے

یہ مسئلہ نومبر میں اتنا سنگین ہوگیا کہ کابل سے آنے والی پروازوں کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا۔ ہر دن اس شہر سے 12 بین الاقوامی پروازیں اڑان بھرتی تھیں۔

محمد قاسم نے کابل کے ایسے پانچ نجی ہسپتالوں کی فہرست جاری کی تھی جو کورونا کے جعلی ٹیسٹ کر رہے تھے تاہم ان تمام نے یہ الزام رد کیا ہے۔

سرکاری حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کلینک اور مسافر جان بوجھ کر کووڈ 19 کے جعلی ٹیسٹ نتائج بنا رہے تھے کیونکہ ملک میں ٹیسٹ کروانے والے افراد کی ایک بڑی تعداد تھی، ٹیسٹ کی فیس بہت زیادہ تھی اور رشوت کے ذریعے جعلی ٹیسٹ رزلٹ باآسانی خریدے جاسکتے تھے۔

فیس بک پر افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے کہا کہ کابل میں کئی نجی لیبارٹریوں نے جعلی ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ بنائے۔

وہ کہتے ہیں کہ صحت کے معیارات کے اعتبار سے افغانستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ کورونا ٹیسٹ میں فراڈ کی نشاندہی کے لیے ایجنٹس متحرک ہوچکے ہیں۔

انھوں نے لکھا کہ ’اس جعلسازی سے افغانستان کی متزلزل معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔

’یہ افسوسناک ہے کہ ملک کے دو شہریوں نے، جو مشہور ہیں اور کروڑ پتی ہیں، ان لیبز سے جعلی ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ خریدے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’افغان سکیورٹی چارٹر کے کئی رضاکار یہ ٹیسٹ رشوت دے کر کروائیں گے، یہ جاننے کے لیے کہ کون سی لیبارٹری کرپٹ ہے۔‘

جعلی کورونا ٹیسٹ

Handout
جلال آباد کے ایک شہری نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھوں نے کورونا ٹیسٹ کروانے کے لیے 200 روپے دیے

حکومت نے اس سلسلے میں کئی نجی ٹیسٹ سینٹرز کے لائسنس معطل کیے جنھیں اب یہ اجازت نہیں کہ وہ کووڈ 19 کے ٹیسٹ کی تصدیق کریں۔ لیکن حکومت نے اس حوالے سے بی بی سی کو سرکاری اعداد و شمار نہیں دیے۔ تاہم حکام نے ایسی 25 لیبارٹریوں کے نام جاری کیے ہیں جن کے ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ کابل ایئرپورٹ پر تسلیم کیے جا رہے ہیں۔

لیکن اس سے مسئلہ ختم نہیں ہوا۔ ایک لیب ٹیکنیشین، جنھوں نے یہ جعلسازی خود دیکھی ہے، کہتے ہیں کہ قانون سازوں سمیت کئی اہلکاروں نے کووڈ 19 کے ٹیسٹ اپنی غیر موجودگی میں کروا لیے ہیں اور اس کی کاپیاں لیبارٹریوں کو بھجوائی ہیں تاکہ ٹیکنیشین اس کا دستاویزی نمبر پرنٹ کر سکیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لیبارٹریاں الگ مقاصد کے لیے ایسا کرتی ہیں، بنیادوں طور پر پیسوں کے لیے۔

’وہ بااثر شخصیات کو خوش کرنے کے لیے بھی ایسا کرتے ہیں جو اپنے دورے سے قبل فوراً ایک منفی ٹیسٹ مانگتے ہیں یا کچھ این جی او ورکرز اپنی کمپنی سے لمبی چھٹیاں مانگنے کے لیے رشوت دے کر مثبت ٹیسٹ حاصل کرتے ہیں۔‘

اس ٹیکنیشین (جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی) نے بی بی سی کو بتایا کہ جعلی ٹیسٹ کیسے کیے جاتے ہیں۔

’مجھے بڑے کلینکس کی کچھ برانچوں کا علم ہے جو سواب سے نمونے لینے کے بجائے اسے پانی میں ڈالتی ہیں اور مرکزی برانچ پر جائزے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ اور یہ ٹیسٹ اس طرح منفی آتا ہے۔‘

متحدہ عرب امارات

AFP/Getty Images
متحدہ عرب امارات آمد پر منفی کورونا ٹیسٹ دکھانا پڑتا ہے

بی بی سی نے ایسے کئی افراد سے بات کی ہے جنھوں نے کورونا پی سی آر ٹیسٹ کے جعلی منفی سرٹیفیکیٹ کسی لیب، فارمیسی یا فوٹو کاپی کی دکان سے خریدے۔ ان لوگوں نے کوئی سواب ٹیسٹ نہیں کروایا اور تین ڈالر سے بھی کم رقم میں یہ جعلی ٹیسٹ حاصل کیا۔ نجی سطح پر اس کورونا ٹیسٹ کی قیمت اوسطاً 65 ڈالر ہے۔

بی بی سی نے افغان پبلک سروس کے ایک اہلکار سے بھی بات کی جس نے کہا کہ وہ 200 ڈالر میں منفی کووڈ 19 کا بندوبست کر سکتا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیسے، تو انھوں نے کہا ’وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔‘

یہ مسئلہ صرف افغانستان تک محدود نہیں۔ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) نے کہا ہے کہ جعلی کووڈ 19 ٹیسٹ کا مسئلہ ’برازیل، بنگلہ دیش اور فرانس سمیت دنیا بھر میں ہے۔‘

برطانیہ کے اخباروں میں ایک خبر کے مطابق ایک شخص نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے ایک منفی کووڈ 19 ٹیسٹ پر اپنا نام فوٹو شاپ کے ذریعے لگا دیا تھا تاکہ وہ بیرون ملک سفر کر سکے۔

ڈنمارک نے 22 جنوری کو پانچ روز کے لیے دبئی جانے والی پروازیں معطل کی تھیں۔ اس کی وجہ کووڈ 19 کے ٹیسٹ کی ساکھ بتائی گئی تھی۔ حکام نے کہا تھا کہ ’دبئی کے ٹیسٹ کافی نہیں‘ اور ٹرانسپورٹ کے وزیر نے اب 2 فروری تک اس پابندی کی توسیع کر دی ہے۔

فرانس میں حکام نے پیرس ایئرپورٹ سے سات افراد کو گرفتار کیا تھا جن کے پاس کووڈ 19 کے 200 جعلی ٹیسٹ ان کی ڈیجیٹل ڈیوائسز میں تھے۔

ایران کی حکومت نے بھی جعلی کووڈ 19 ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ کے الزام میں کچھ مراکز بند کیے ہیں جبکہ چلی میں ایک طبی مرکز کو بھی اسی الزام پر بند کیا گیا تھا۔

پاکستان میں اسلام آباد اور کراچی میں بی بی سی کے رپورٹرز سمجھتے ہیں کہ کچھ ایئرلائنز نے مخصوص لیبارٹریوں کی فہرست جاری کی ہے جو براہ راست ایئر لائن تک ٹیسٹ کے نتائج بھیجتی ہیں۔ وہاں کچھ مسافروں نے جعلی ٹیسٹ رزلٹ استعمال کیے تھے۔

کینیا میں مقامی حکام کا کہنا ہے کہ جعلی ٹیسٹ رزلٹ بنانے والوں کے خلاف مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ نیپال میں بھی ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

صحت، کورونا، پی پی ای

AFP/Getty Images
ایک مسافر کا کہنا ہے کہ کابل میں ان کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا تھا لیکن دبئی میں دوبارہ ٹیسٹ کیا گیا تو یہ مثبت تھا

آئی اے ٹی اے کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کے کاغذی سرٹیفیکیٹ کی باآسانی تحریف ہوسکتی ہے کیونکہ یہ الگ الگ فارمیٹ (شکل) اور زبان میں پائے جاتے ہیں جس سے دنیا بھر میں ’صحت سے متعلق جانچ میں مسائل ، غلطی اور جعلسازی بڑھ سکتی ہے۔‘

اس نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ساتھ شراکت قائم کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ افغانستان جیسے ممالک میں ٹیسٹ تک رسائی محدود ہے اور زیادہ سے زیادہ یومیہ پانچ ہزار ٹیسٹ کیے جاسکتے ہیں جو ’جعلی‘ دستاویزات کی بڑی وجہ ہے۔

عالمی ادارہ صحت کوشاں ہے کہ ڈیجیٹل ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ کا اجرا ممکن ہوسکے۔ اس میں بلاک چین ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔

ادارے نے کہا ہے کہ ’جعلی دستاویزات، جو خاص کر ٹیسٹ یا ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ سے متعلق ہو، ایک مسئلہ ہے۔ ہم اس سے آگاہ ہیں اور اس سے کووڈ 19 کے علاوہ دوسری بیماریوں (کی روک تھام کے عمل) پر بھی اثر پڑتا ہے۔‘

دریں اثنا آئی اے ٹی اے مختلف حکومتوں سے بات چیت میں ’آئی اے ٹی اے ٹریول پاس‘ کی پیشکش کر رہی ہے جو مسافر اپنے موبائل فونز میں رکھ سکیں گے اور اس سے جعلسازی روکی جاسکے گی۔

آئی اے ٹی اے کا کہنا ہے کہ ’اس سے مسافروں کو ایسا پلیٹ فارم ملتا ہے جس سے وہ اپنے ٹیسٹ یا ویکسینیشن کے نتائج محفوظ جگہ پر حاصل کر سکتے ہیں، اسے وہ اپنی ڈیجیٹل شناخت سے جوڑ سکتے ہیں اور ایئر لائنز، بارڈر کنٹرول یا حکومتوں کو بھیج سکتے ہیں۔‘

افغان حکام کے مطابق وہ اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

محمد قاسم کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ایسا نہیں ہو رہا کیونکہ کچھ کلینکس کو اجازت نہیں کہ وہ ٹیسٹ کے نتائج جاری کریں۔ ایئرپورٹ پر اقدامات کیے گئے ہیں اور مختلف مراحل پر مسافروں کے دستاویزات چیک کیے جاتے ہیں۔ (ایئر پورٹ سے) باہر نکلنے والوں اور داخل ہونے والوں کو اپنے اصل پی سی آر ٹیسٹ دکھانے ہوتے ہیں۔‘

’جعلی ٹیسٹ نہ صرف کلینک نے جاری کیے بلکہ کچھ ٹریول ایجنسیوں اور لیبارٹریوں نے بھی کووڈ 19 ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ کی صورت میں ایسا ہی کیا۔ ہم اب بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ اسے روکنے پر کام کر رہے ہیں۔‘

تحریر میں حافظ اللہ معروف اور علی حسینی نے اضافی رپورٹنگ کی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp