غداری بے نتیجہ نہیں رہتی


وطن عزیز کے مقتدر طبقات میں یہ سوال آزادی کے فوری بات سے گردش کرنے لگا تھا کہ ملک کے نظم و نسق میں ہمارا کردار کتنا طاقتور ہوگا؟ قائد اعظم اور دیگر مسلم لیگی قائدین کے ساتھ ساتھ اس وقت تک کی حزب اختلاف کے قائدین کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ ملک کسی فوجی آمریت کی قید میں جا سکتا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے نئے حالات میں مقابلہ کرنے کے لیے کمر کس لیتے تھے مگر سیاسی میدان کے شہسواروں کے علاوہ دیگر طاقتور طبقات اپنا مسلمہ جمہوری روایات سے ہٹ کر کردار مانگ رہے تھے بلکہ با الفاظ دیگر ایسا کرنے کی ٹھان چکے تھے جس کی ایک جھلک قائداعظم کی جنرل اکبر خان سے وہ معروف گفتگو ہے جس کے بعد قائداعظم نے اپنی تقریر میں ضروری خیال کیا کہ افسران کے حلف کے الفاظ کو دوبارہ دوہرا کر ان کو ان کے حقیقی فرض تک محدود رکھنے اور رہنے کی تلقین اور نصیحت کی جائے۔

مگر ایوب خان سے لے کر ایک تسلسل ہے جو ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے آج بھی حقیقی بحث یہ نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کو قائم رہنے دیا جائے یا گرا دیا بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ریاست سماجی ترقی تسلیم شدہ جمہوری اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے کر سکتی ہے یا پس پردہ طاقتوں کی مسلسل مداخلت اس کے لیے ضروری ہے۔ پس پردہ طاقتوں کی مداخلت کتنی ناپسندیدہ اور جمہوری اصول کتنے قابل قبول ہے اس کو سمجھنے کے لئے ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف کی آئین پامال کرنے کے فوری بعد کی تقاریر کا مطالعہ کیجیے۔

آمر خود اپنی تقاریر میں کہہ رہے ہیں کہ ہم جمہوریت نافذ کریں گے۔ کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ بس اب ہم ہی حکومت کریں گے کیونکہ یہ کہنا بھی ناممکن تھا حالانکہ عملی طور پر خواہش یہی تھی کہ بس اب ہم مختار کل بن جائے۔ مختار کل بننے کی خواہش اتنی توانا ہے کہ جب کبھی بھی اس کے مقابلے میں آئین پر اس کی روح کے مطابق چلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسے فرد کو زبردست قسم کی سازشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھرپور عوامی حمایت کے باوجود ان گنت مسائل میں الجھا دیا جاتا ہے اور اس وقت نواز شریف کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔

ذاتی حیثیت میں ان حالات سے نکلنے کے لیے نواز شریف کے پاس راستہ موجود ہے کہ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کے موقف سے قدم پیچھے ہٹا لیے جائے ذاتی مشکلات دنوں میں رفو چکر ہو جائے گی مگر وطن عزیز کی مشکلات بڑھتی چلی جائے گی اور اگر پاکستان کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو نواز شریف کی ذاتی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ ذاتی مشکلات ناصرف کے ان طاقتور طبقات کی جانب سے سامنے آئے گی بلکہ اپنوں کی بے وفائی اور اپنے ساتھ چلنے والوں کے نئے رخ بھی سامنے آئیں گے۔

آج سے سو برس سے کچھ عرصہ قبل پنجاب میں انگریز سرکار سے آزادی کی تحریک بہت متحرک تھی۔ غدر پارٹی کے نام سے ایک تنظیم کام کر رہی تھی جس میں امریکہ اور کینیڈا میں مقیم پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد بہت موثر انداز میں کام کر رہے تھے۔ انگریز سرکار کو اس سے بہت پریشانی لاحق ہو گئی تھی انہوں نے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ اس پارٹی سے منسلک افراد پر مقدمہ کو قائم کرے۔ مقدمہ چلانے کے لئے تیس لاکھ امریکی ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہوئی جس میں سے پچیس لاکھ ڈالر کی رقم برطانوی حکومت نے ادا کی۔

یہ مقدمہ سان فرانسسکو ٹرائل 1917 کے نام سے معروف ہے۔ اس مقدمے میں نامزد ایک کے سوا تمام افراد کو سزا ہو گئی تھی اور سزا ہونے کی وجہ یہ تھی کہ برطانوی حکومت غدر پارٹی کی سرگرمی سے تنگ تھی اور اس سے نبٹنا چاہتی تھی تو اس نے اس میں اپنے ایجنٹ داخل کر دیے تھے۔ اسی طرح انیس سو چودہ میں انہوں نے اپنا ایک ایجنٹ رام چندر تنظیم میں شامل کر دیا رام چندر اپنی جگہ بناتا چلا گیا اور تنظیم کی سرگرمیوں سے واقف ہوتا چلا گیا۔

جب سان فرانسسکو ٹرائل شروع ہوا تو استغاثہ کے پاس جو سب سے بڑا ثبوت غدر پارٹی کے خلاف تھا وہ رام چندر ہی تھا۔ رام چندر جب عدالت میں حریت پسندوں کے خلاف پیش ہوا تو یہ ششدر رہ گئے کہ یہ درحقیقت برطانوی سرکار کے لئے کام کر رہا تھا۔ رام چندر نے بڑھ چڑھ کر غدر پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف بیانات دیے اور عدالت میں ان کا ”جرم“ ثابت کرنے میں استغاثہ کو بہت مدد فراہم کی وہ اپنی اس ”کامیابی“ پر پھولے نہیں سما رہا تھا کہ سماعت کے آخری روز رام چندر کو عدالت میں رام سنگھ نے قتل کر دیا جبکہ رام سنگھ خود بھی ایک عدالتی اہلکار کے ہاتھوں مارا گیا۔

موجودہ جمہوری جدوجہد میں نواز شریف کا بیانیہ سخت یا دوسرے لفظوں میں مبنی برحقائق ہے تو جن کو اس بیانیے سے تکلیف ہے وہ بھی ہر حربہ بار بار آزمائے گے اور ان میں سے کسی کو رام چندر بنانا بھی ہوگا کہ وہ اپنی قیادت سے غداری کریں جیسے 12 اکتوبر 1999 کے بعد ہوا مگر 12 اکتوبر 1999 جو لوگ بے وفائی کے مرتکب ہوئے وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک دھبہ کی شکل اختیار کر گئے آج اگر کوئی دھبہ بننے پر تیار ہو گا تو اس کا انجام پہلے وقتوں میں رام سنگھ کی Bullet سے ہوا اور اب عوام کے ballot سے ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).