اسقاطِ حمل کے بعد جواں سال لڑکی کی موت: اتائی ڈاکٹروں کو غیرقانونی پروسیجر کے 35 ہزار ادا کیے گئے تھے


اسقاط حمل
کیمرے کی مدد سے دیکھا جا سکتا تھا کہ لاہور کے ایک نجی ہسپتال کے باہر ایک سفید کار آ کر رکتی ہے، اس میں سے تیزی سے ایک شخص نکلتا ہے جو گاڑی میں سے ایک لڑکی کو اٹھا کر ہسپتال کی طرف بھاگتا ہے۔

ہسپتال کے اندر پہنچ کر اس نے ڈاکٹروں کو بتایا کہ جسے وہ اٹھا کر لایا ہے وہ لڑکی بنیادی طور پر اس کی رشتہ دار ہے اور یہ کہ اس کی حالت انتہائی نازک ہے۔ لڑکی کو ہسپتال کے عملے کے حوالے کر کے وہ گاڑی سے بظاہر موبائل فون اٹھانے جاتا ہے اور پھر اچانک گاڑی ہسپتال سے نکل جاتی ہے۔

ہسپتال کے سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ شخص گاڑی میں سوار ہوتا ہے اور گاڑی میں پہلے سے موجود شخص اس سمیت گاڑی وہاں سے بھگا کر لے جاتا ہے۔ اندر ہسپتال کے عملے کو معلوم ہوتا ہے کہ جس لڑکی کو وہ اجنبی چھوڑ کر گیا ہے وہ پہلے سے مردہ حالت میں تھی۔ مزید طبی معائنے پر پتا چلا کہ لڑکی کا حال ہی میں اسقاطِ حمل ہوا تھا۔ اس کی عمر لگ بھگ 20 برس تھی۔

حال ہی میں پیش آنے والے اس واقعے کی اطلاع پولیس کو دی گئی جس کے بعد ہسپتال کے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج کی مدد سے پولیس نے سفید کار کا کھوج لگایا اور پھر اس شخص تک پہنچ گئی جو لڑکی کو مردہ حالت میں چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

جب میں نے اسقاطِ حمل کروایا

’اسقاط حمل جرم نہیں ہونا چاہیے‘

اسقاط حمل کی اجازت نہ ملی، دس سالہ بچی ماں بننے پر مجبور

ابتدائی تفتیش کے دوران ملزم نے پولیس کو بتایا کہ لڑکی اُس کی دوست تھی جو تقریباً چار ماہ کی حاملہ تھی۔ حال ہی میں وہ لڑکی کو صوبہ پنجاب کے شہر شورکوٹ کے ایک کلینک پر لے کر گیا تھا جہاں اس کا اسقاطِ حمل کروایا گیا تھا۔

ملزم کے مطابق اسقاطِ حمل کے اس عمل کے بعد لڑکی کی طبیعت اچانک بگڑنے پر وہ اسے لاہور کے نجی ہسپتال لے کر آیا تھا جہاں اس کی موت ہو گئی۔ لاہور کے تھانہ نواب ٹاؤن میں پولیس کی مدعیت میں درج مقدمہ میں ملزم کو اس لڑکی کے مبینہ قتل اور اسقاطِ حمل میں معاونت کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستانی قوانین کے مطابق اسقاطِ حمل غیر قانونی ہے اور جرم تصور کیا جاتا ہے تاہم چند مخصوص حالات میں اس کی اجازت عدالت سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

ملزم اسقاطِ حمل میں لڑکی کی معاونت کیوں کر رہا تھا؟

ملزم نے ابتدائی تفتیش کے دوران پولیس کو دیے گئے بیان میں اس بات سے انکار نہیں کیا کہ اس کے لڑکی کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے تاہم ملزم نے اس بات سے انکار کیا کہ اسقاطِ حمل میں مرنے والا بچہ اس کا ہو سکتا تھا۔

مقدمے کے تفتیشی افسر غلام عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ملزم کے مطابق آخری مرتبہ اس نے گذشتہ برس مارچ کے مہینے میں لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا تھا جبکہ حمل کی عمر چار ماہ کے لگ بھگ تھی۔‘

لیکن اگر ایسا تھا تو وہ لڑکی کو لینے کے لیے گجرات تک کیوں گیا اور اسقاطِ حمل کے لیے اسے اپنی ہی گاڑی میں شور کوٹ کیوں لے کر گیا؟ لڑکی کی طبیعت بگڑنے پر اس نے لڑکی کے گھر والوں کو آگاہ کیوں نہیں کیا؟ وہ لڑکی کو مردہ حالت میں لاہور کے نجی ہسپتال میں چھوڑ کر فرار کیوں ہوا؟

یہ اور اس نوعیت کے دیگر سوالات فی الحال جواب طلب ہیں کیونکہ پولیس کے مطابق ملزم ان سوالات کے تسلی بخش جواب نہیں دے سکا ہے۔

اسقاطِ حمل کی منصوبہ بندی کیوں کی گئی؟

اسقاط حمل

پولیس کو ملنے والی معلومات کے مطابق جو گاڑی ملزم کے زیر استعمال تھی وہ اس نے کرائے پر حاصل کر رکھی تھی۔ ملزم اور لڑکی دونوں کا تعلق گجرات سے تھا۔ ملزم نے پہلے اسقاطِ حمل کے لیے لاہور میں چند ڈاکٹروں سے بات کی تاہم انھوں نے یہ عمل کرنے سے انکار کر دیا۔

اس کے بعد ملزم نے شورکوٹ کے ایک نجی کلینک سے رجوع کیا۔ پولیس کے مطابق اس کلینک کے ڈاکٹر اتائی ثابت ہوئے کیونکہ ان کے پاس کسی قسم کے کوئی سرٹیفیکیٹ نہیں تھے۔ ملزم نے شورکوٹ کے کلینک کے ساتھ معاملات طے کرنے کے بعد لڑکی کو گجرات سے گاڑی میں اٹھایا۔ انھوں نے اسقاطِ حمل کے لیے کلینک کو 35 ہزار روپے ادا کیے۔

تفتیشی افسر غلام عباس کے مطابق ملزم کا کہنا تھا کہ ’وہ دوست ہونے کے ناطے محض لڑکی کی مدد کر رہا تھا۔ وہ کہتا ہے اسے نہیں معلوم تھا کہ معاملہ اتنا بگڑ سکتا ہے۔‘ تاہم پولیس کے مطابق وہ اس بیان سے مطمئن نہیں ہے۔

کیا ملزم جانتا تھا کہ لڑکی کی جان کو خطرہ ہو سکتا تھا؟

اس کیس کے تفتیشی افسر کے مطابق ملزم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ معاملہ بگڑ سکتا ہے اور لڑکی کی جان کو خطرہ ہو سکتا تھا۔ ’اس نے جب لاہور میں ڈاکٹروں سے اس حوالے سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی تھی تو اسے یہی بتایا گیا تھا کہ اس عمر کے حمل کا اسقاط انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔‘

لاہور کے ایس ایس پی انویسٹیگیشن غفار قیصرانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسقاطِ حمل کا معاملہ غیر قانونی ہونے کی وجہ سے ہی لاہور میں ڈاکٹروں نے یہ عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ بات ملزم کو معلوم تھی۔ اس کے بعد ہی اس نے شورکوٹ میں اتائی ڈاکٹروں سے رابطہ کیا تھا۔‘

غفار قیصرانی کے مطابق اسقاطِ حمل کے لیے شورکوٹ کے کلینک پر لڑکی کے ساتھ سرجیکل طریقہ استعمال کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد ہی سے لڑکی کے جسم سے خون کا بہاؤ نہیں رُک پایا تھا۔

’انھوں نے اسی طرح اسے مرہم پٹی کر کے ملزم کے حوالے کر دیا تھا کہ یہ ٹھیک ہو جائے گی لیکن اس کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی اور لڑکی کی موت ہو گئی۔‘

کیا لڑکی کو ہسپتال زندہ لایا گیا تھا؟

پولیس کے مطابق ملزم کو جب معلوم ہوا کہ لڑکی کی موت ہو گئی ہے تو وہ اسے لاہور کے نجی ہسپتال میں چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ تاہم ملزم نے پولیس کو دیے گئے ابتدائی بیان میں یہ دعوٰی کیا تھا کہ جب اس نے لڑکی کو ہسپتال پہنچایا تو اس کی سانسیں چل رہی تھیں اور ہسپتال کے عملے نے ان سے پوچھ تاچھ میں وقت ضائع کیا جس کی وجہ سے لڑکی کی جان نہیں بچائی جا سکی۔

جبکہ تفتیشی پولیس افسر غلام عباس کے مطابق ملزم کا یہ بیان بھی درست نہیں تھا۔ ’ایک تو سی سی ٹی وی فوٹیج میں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ جب ملزم لڑکی کو اٹھا کر اندر لے جا رہا تھا تو لڑکی کی گردن لٹکی ہوئی تھی یعنی وہ مر چکی تھی۔‘

اس کے ساتھ ہی نجی ہسپتال نے بھی پولیس کو اس بات کی تصدیق کی تھی کہ لڑکی کو مردہ حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق ملزم ہسپتال کے عملے کو یہ کہہ کر باہر گیا تھا کہ وہ گاڑی سے موبائل فون لینے جا رہا ہے تاکہ لڑکی کے گھر والوں کو اطلاع دے سکے۔ لیکن اس بہانے وہ وہاں سے فرار ہو گیا۔

ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے گا

حمل

پولیس کے مطابق ملزم کے بیانات کی تصدیق یا تردید کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ ہونا ضروری تھا۔ تفتیشی افسر کے مطابق دونوں ملزمان کے نمونے حاصل کیے گئے ہیں جبکہ لڑکی کے جسم سے ملنے والے سیمپل پہلے ہی بجھوائے جا چکے تھے۔

’پولیس جو تفتیشی رپورٹ لکھے گی اس کو حتمی شکل ڈی این اے کے ٹیسٹ آنے کے بعد دی جا سکے گی کیونکہ اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ اسقاطِ عمل میں مرنے والا بچہ ملزم کا تھا یا نہیں۔‘ پولیس نے ملزم کے معاون کار، شورکوٹ کے ڈاکٹر اور دائی سمیت تمام ملزمان کو گرفتار کر رکھا ہے۔

اسقاطِ حمل کی پاکستان میں کیا سزا ہے؟

یاد رہے کہ پاکستانی قوانین میں چند مخصوص حالات کے علاوہ اسقاطِ حمل کی اجازت نہیں ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کے مطابق اگر اسقاطِ حمل خاتون کی مرضی سے کیا گیا ہو تو ایسا کرنے والے کو تین برس تک سزا ہو سکتی ہے۔

تاہم اگر اسقاطِ حمل خاتون کی مرضی کے برعکس کیا گیا ہو تو ایسا کرنے والے کو دس برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے اور اگر اس دوران خاتون کی موت واقع ہو جائے یا اسے نقصان پہنچے تو متعلقہ قوانین کے مطابق اسے سزا دی جائے گی یعنی موت کی صورت میں سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔

کس صورت میں اسقاطِ حمل کی اجازت ہے؟

عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈ سیل کی ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر اور انسانی حقوق کی وکیل ندا علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں اسقاطِ حمل پر مکمل پابندی عائد ہے جس کی اجازت صرف چند مخصوص حالات میں دی جا سکتی ہے۔

’مغربی ممالک کے برعکس پاکستان میں یہ کسی خاتون کا ذاتی فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اسقاطِ حمل کروانا چاہتی ہے۔ اس کا اجازت طبی بنیادی پر دی جا سکتی ہے یعنی اس صورت میں جب خاتون کی جان بچانا مقصود ہو۔‘

تاہم اس کی اجازت بھی عدالت سے رجوع کر کے حاصل کرنا پڑتی ہے۔ ندا علی کے مطابق زیادہ تر واقعات میں پاکستان کے عدالتی نظام سے یہ اجازت حاصل کرنا ایک طویل اور مشکل جدوجہد ثابت ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp