میانمار میں بغاوت: فوج مقبول سیاسی لیڈروں کو قبول نہیں کرتی


نیم جمہوری یا آمرانہ نظام حکومت والے معاشروں میں جمہوریت بحال کروانے یا ووٹ کو عزت دلوانے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے میانمار سے ایک بری خبر آئی ہے۔ وہاں فوج نے ایک لولی لنگڑی، نامکمل جمہوری سول حکومت کو ختم کرکے ہنگامی حالت کا اعلان کردیا ہے اور اقتدار پر خود قبضہ کرلیا ہے۔ فوج کا دعویٰ ہے کہ نومبر میں ہونے والے انتخاب میں دھاندلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے موجودہ انتظام کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔

نوبل امن انعام یافتہ 75 سالہ آنگ سان سو چی سمیت متعدد سول رہنماؤں اور عہدیداروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ فوج کے کمانڈر ملک کے عبوری سربراہ ہوں گے۔ دنیا دنگ ہے لیکن میانمار میں سکوت ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل میں اس چھوٹے سے غریب ملک کے لئےکیا ظہور پذیر ہوگا۔ میانمار میں عالمی دباؤ، سفارتی کوششوں اور اقتصادی لالچ و تحریص کے نتیجہ میں ملک کی سخت گیر فوجی قیادت نے 2011 میں کچھ سیاسی مراعات دینے کا اعلان کیا تھا۔ آنگ سان سو چی کو طویل نظربندی کے بعد رہا کیا گیا تھا اورفوج کی نگرانی میں ایک سول انتظام قائم ہؤا تھا۔ 2015 کے انتخابات میں آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے کامیابی حاصل کی اور آنگ سو چی ملک کی سول حکمران منتخب ہوگئیں۔ تاہم فوج نے 2008 میں جو آئین ملک پر مسلط کیا تھا اس کی وجہ سے انہیں ملک کا صدر بننے کی اجازت نہیں تھی کیوں کہ ان کے شوہر اور بچے غیر ملکی شہری تھے۔ اس کے علاوہ طویل عرصہ تک فوجی جنرل وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے ، شاید اسی لئے کسی سول حکمران کو وزیر اعظم کا ٹائیٹل استعمال کرنے کی اجازت دینا ممکن نہیں تھا۔ آنگ سان سو چی نے سٹیٹ کونسلر کے طور پر میانمار کی حکومت کی سربراہ کے فرائض انجام دیے۔ البتہ وہ فوج کو پوری طرح خوش نہیں کر سکیں۔

گزشتہ تین برس کے دوران میانمار کی سخت گیر فوج اور اس کی نسل پرستانہ و متعصبانہ پالیسیوں کی وجہ سے دس لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو راکھین صوبہ سے سمندر کی طرف دھکیل دیا گیا۔ دنیا بھر میں اس غیر انسانی اقدامات کی مذمت کی گئی۔ اس دوران فوجی دستے براہ راست یا ان کے حمایت یافتہ مسلح گروہ روہنگیا کے خلاف انسانیت سوز جرائم میں ملوث رہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دستاویزی شواہد اور عالمی دباؤ کے باوجود روہنگیا کے لئے حالات تبدیل نہیں ہو سکے۔ فوجی آمریت کی بجائے نوبل امن انعام جیتنے والی آنگ سان سوچی کی قیادت میں سول حکومت قائم ہوچکی تھی لیکن میانمار کا کوئی لیڈر روہنگیا کو انسان سمجھنے اور انہیں بنیادی سہولتیں دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ ملک میں جمہوریت بحال کروانے اور سول حکومت کو ایک موقع دلوانے کے لئے آنگ سان سوچی نے سال ہا سال کی قید کے دوران کمائی ہوئی عالمی شہرت کو داؤ پر لگا دیا۔ وہ روہنگیا کو ’غیر ملکی‘ قرار دیتے ہوئے ان پر ہونے والے مظالم کو بے بنیاد اور غلط بیانی بتاتی رہیں۔ اس طرح انہو ں نے فوج کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہوئے فوجی لیڈروں کےسامنے اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف ملک کی بدھ آبادی میں روہنگیا کے خلاف پائی جانے والی نفرت اور تعصبات کو اپنی سیاسی مقبولیت کے لئے استعمال کیا۔

عالمی طور سے حاصل ہونے والے وقار اور اصولوں کو قربان کرکے انہوں نے بظاہر میانمار میں سول حکومت کو مستحکم کرنے اور سیاسی قوتوں کو طاقت ور بنانے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ روہنگیا کے خلاف فوج کی سخت گیر پالیسی کو چونکہ وسیع عوامی حمایت بھی حاصل ہے، اس لئے ایک پتھر سے دو شکار کئے جاسکتے ہیں۔ وہ اس مقصد میں اس حد تک تو کامیاب ہوگئیں کہ گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے انتخابات میں ان کی پارٹی این ایل ڈی کو 80 فیصد ووٹ ملے اور وہ پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ ان تین برسوں میں البتہ انہیں ہر عالمی فورم پر اور دنیا کے ہر مہذب ملک کی طرف سے روہنگیا کے خلاف ظالمانہ اور متعصبانہ پالیسی پر شدید نکتہ چینی کا سامناکرنا پڑا۔ ان مظالم کی سرپرستی براہ راست فوج کررہی تھی لیکن اس کا بوجھ آنگ سان سوچی نے اپنے کندھوں پر اٹھایا تاکہ فوج راضی رہے۔ لیکن فوج راضی نہیں ہوئی۔

نومبر کے بعد سے ہی میانمار میں فوجی مداخلت اور نام نہاد جمہوریت لپیٹنے کی بات کی جارہی تھی۔ فوجی لیڈر آنگ سان سوچی کی انتخابی کامیابی پر شدید ناراضی کا اظہار کرتے رہے تھے۔ انہیں اس بات کا صدمہ تھا کہ ان کی حمایت یافتہ ’یونین سولڈیریٹی اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (یو ایس ڈی پی)‘ کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ اس کے باوجود دنیا کے علاوہ میانمار میں بھی کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ فوج تمام اختیار اور آئینی تحفظ حاصل ہونے کے باوجود ملک میں جزوی جمہوریت یاسول حکومت کا گلا گھونٹنے کا اقدام کرے گی۔ البتہ گزشتہ رات پوری دنیا نے دیکھ اور سن لیا کہ فوج نے بالآخر میانمار کو مفاد پرست سیاست دانوں اور دھاندلی زدہ انتخابات سے بچانے کے لئے ہنگامی حالات نافذ کرنے اور بدنیت سیاسی لیڈروں کو فوجی حراست میں لینے کا فیصلہ کیا۔ رات گئے تک میانمار کے ساتھ غیر ملکی مواصلاتی رابطوں کا واحد ذریعہ سرکاری فوجی ٹیلی ویژن اسٹیشن تھا جو وسیع تر قومی مفاد میں کئے گئے اقدامات کے بارے میں فوجی اعلانات دہرا رہا تھا۔

میانمار میں نافذ آئین میں فوج کو خصوصی اختیارات اور حقوق حاصل ہیں۔ یعنی پارلیمنٹ کی فیصد 25 نشستیں کسی انتخاب کے بغیر فوج کے نامزدگان سے پر ہوتی ہیں۔ ملک کی وزارت داخلہ، وزارت دفاع اور وزارت سرحدی امور بہر صورت فوج کے پاس رہیں گی کیوں کہ فوجی قیادت کے خیال میں ان امور پر ناقص العقل سول نمائیندے درست فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ آنگ سان سو چی اگرچہ سٹیٹ کونسلر یا چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز تھیں لیکن ان کا زیادہ وقت فوج کی خوشامد کرنے اور اسے راضی رکھنے میں صرف ہوتا تھا۔ سول حکومت کے روہنگیا کے بارے میں اختیار کئے گئے رویہ سے بھی اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود نومبر کے انتخابات میں فوجی حمایت یافتہ پارٹی کی عبرت ناک شکست کے بعد انتخابات میں دھاندلی کا ہنگامہ شروع کردیا گیا۔ اب جنرل من آؤنگ ہلینگ نے اقتدار سنبھالتے ہوئے نومبر کے انتخابی نتائج کو مسترد کیا ہے۔ یہ قدم ملک کی نو منتخب پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس سے محض چند گھنٹے پہلے اٹھایا گیا ۔

دنیا بھر کے مبصرین اس بات پر حیران ہیں کہ تمام سیاسی، اقتصادی اور سماجی اختیار اور اثر ورسوخ کے باوجود میانمار کی فوج کو ایک نام نہاد سول انتظام کو مسترد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ملک میں کوئی فیصلہ فوج کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر اگرچہ ایک منتخب لیڈرمتمکن تھی لیکن اسے فوجی قیادت کے اشارے کے بغیر بات تک کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ آنگ سوچی بظاہر اس کردار پر مطمئن بھی تھیں۔ ماہرین اپنی حیرانی میں میانمار کی فوجی قیادت کے دل و دماغ پر گزرنے والی کیفیت کو نہیں سمجھ پارہے لیکن یہ قیاس آرائیاں ضرور کی جارہی ہیں کہ فوج کو ان اقدامات پر پچھتانا پڑے گا کیوں کہ فوج کے اقتدار سنبھالنے اور شہری حقوق سلب کرنے سے میانمار کو عالمی سطح پر حاصل ہونے والی پہچان اور سہولتیں باقی نہیں رہیں گی۔ وہائٹ ہاؤس کے علاوہ آسٹریلیا اور جاپان سے سامنے آنے والے فوری رد عمل اور غم و غصہ کی روشنی میں اس اندازے کو درست بھی کہا جاسکتا ہے۔

لیکن یہ بات فراموش نہیں کی جاسکتی کہ دنیا کے متعدد ملکوں میں پاپولر انتہا پسند لیڈروں کو اقتدار حاصل ہؤا ہے۔ ان میں برطانیہ جیسا روایتی جمہوری ملک بھی شامل ہے۔ امریکہ میں سبکدوش ہونے والے صدر ٹرمپ تو اقتدار کی چاہ میں اس حد تک بڑھ گئے تھے کہ انہوں نے کانگرس پر دباؤ ڈالنے کے لئے اپنےحامیوں کو حملہ کرنے پر اکسایا اور آخری وقت تک انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا۔ درحقیقت دنیا کے مستند جمہوری ملکوں میں رائے عامہ جس طرح مقبول نعروں کے گرداب میں پھنسی ہے ، اس میں خود ان معاشروں میں جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے۔ امریکہ جو بظاہر دنیا بھر میں آزادی رائے اور ووٹ کی عزت کا علمبردار اور محافظ سمجھا جاتا ہے، خود اپنی نصف آبادی کو یہ سمجھانے سے قاصر ہے کہ انتخاب میں ہار جیت ہوتی ہے۔ اور ہارنے والے کی عزت اسی میں ہوتی ہے کہ وہ شکست تسلیم کرکے اپنے حریف کو خوش آمدید کہے۔

 اس کے علاوہ کورونا وبا سے پیدا ہونے والے معاشی مسائل کی وجہ سے بھی جمہوری حکومتوں کے طریقہ کار پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ چین اس وبا کا سب سے پہلے شکار ہونے کے باوجود گزشتہ سال اپنی قومی پیداوار میں اضافہ کرنے والی واحد معیشت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس سے چین جیسے سخت گیر نظام کے حامل ملک کے سفارتی اور معاشی اثر و رسوخ میں اضافہ ہؤا ہے۔ اور جمہوری ملکوں مثلاً امریکہ اور برطانیہ کی عالمی حیثیت متاثر ہوئی ہے۔ یہ صورت حال جمہوری روایت کے لئے خطرناک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ میانمار میں فوجی بغاوت اس نئے رجحان کا محض ایک نمونہ ہے۔

میانمار میں فوجی اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے ناروے کی پروفیسر ایسلین فریدن لند نے دلیل دی ہے کہ ’ انتخابات میں این ایل ڈی اور آنگ سان سوچی کی سیاسی پوزیشن مضبوط ہوئی تھی، اس لئے فوج کے لئے اس انتخاب سے لاتعلقی ضروری ہوگئی تھی‘۔ یہ تبصرہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں سیاسی اقتدار پر عسکری دسترس کی خواہش رکھنے والی فوجی ذہنیت کے بارے میں یہ ایک مکمل تبصرہ ہے۔ سیاسی مداخلت کی علت میں مبتلا کوئی فوج کسی ایسے سیاسی انتظام کو قبول نہیں کرسکتی جسے عوامی قبولیت حاصل ہو۔ مقبول لیڈر فوجی قیادتوں کی طاقت کو چیلنج کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali