کتا بنام انسان


ریاست کے حاکموں پر تنقید کرنے سے پہلے یہ تو سوچ لیا کرو کہ کتا اگر انسان بننے کی کوشش کرے، باؤلا ہو جائے یا پھر مالک کی مرضی کے بغیر شکار کرنے کی کوشش کرے تو اسے مار دیا جاتا ہے۔ کتا اگر کتا ہی رہے، مالک کا وفادار ہو، مالک کے اشاروں پر ناچے اور اس کی خاطر کسی کو بھی بھنبھوڑنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے تو وہ پیاسا نہیں مرتا بلکہ اسے قیمتی گاڑیوں میں سیر کرائی جاتی ہے، منرل واٹر پلایا جاتا ہے، تیتر بٹیر کا گوشت کھلایا جاتا ہے، دودھ پنیر کا ناشتہ کرایا جاتا ہے اور اسے اعلیٰ ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں ٹھہرایا جاتا ہے بلکہ اسے نہلانے کے لیے بھی انسان ”رکھا“ جاتا ہے بلکہ بول براز صاف کرنے کے لیے بندہ الگ ہوتا ہے۔

وفاداری بہت بڑی چیز ہے۔ وہ دن گئے جب وفاداری بشرط استواری کا رواج تھا۔ نئے پاکستان میں استواری بشرط وفاداری کا چلن ہے۔ اے انسانو! جو لوگ اس وقت ریاست میں وی وی آئی پی کا درجہ رکھتے ہیں، بھلا تم ان سے ہاتھ ملا سکتے ہو؟ ان کے گھر مفت میں رہ سکتے ہو؟ ان کے گھر کے کسی بھی کمرے میں جا سکتے ہو؟ ان کے محل کے وسیع لان میں کھیل سکتے ہو؟ ان سے آسانی سے مل سکتے ہو؟ نہیں ناں! ایسا نہیں ہو سکتا ناں۔ اگر تم ان سے ملنا چاہو تو بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے، سیکرٹری سے وقت لیا جائے گا، کام پوچھا جائے گا اور پھر اگر ”ان“ کی مرضی ہوئی تو چند منٹ عنایت کیے جائیں گے ورنہ وہ ”ضروری“ امور نمٹانے میں مصروف ہو جائیں گے۔ تم انسان ہو، زندہ باد کے نعرے بھی لگاتے ہو اور میں ایک کتا، لیکن میری قدر زیادہ ہے۔ میرے مالکوں کو کوسنے کی بجائے کبھی غور کیا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ایسا صرف وفاداری کی وجہ ہے۔ انہیں نعرے لگانے والوں سے زیادہ ضرورت ایسے کتوں کی ہوتی ہے جن کی اپنی کوئی سوچ نہ ہو، وہ بھونکیں تو مالک کی مرضی سے اور وہ بھی عادتاً نہیں بلکہ صرف ”مالک“ کے مخالف پر۔ کتے کے لیے اس کا مالک ہی ریاست ہے۔

مالک کو بدنام کرنے کے لیے ہمارا نام استعمال کر کے کہا جاتا ہے کہ دریا کنارے کتا بھی پیاسا مر جائے تو ذمہ دار حاکم ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پانی مفت ہے تو کتا پیاسا مر کیسے سکتا ہے؟ صحرا کا ذکر ہوتا تو مان لیتا کیونکہ وہاں دور دور تک پانی نہیں ہوتا۔ اگرچہ وہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شہر میں شکار کرنے کی مکمل آزادی تھی اور سہولیات بھی تو صحرا جانا ضروری تھا کیا؟ کتے مالکوں کی رکھوالی کے لیے ”رکھے“ جاتے ہیں نہ کہ صحرا میں گھومنے یا دریا کنارے ڈیرے جمانے کے لیے۔

لیکن اگر پھر بھی وہ دریا کنارے پیاسے مر جائیں تو اس میں حاکم یا مالک کا کیا قصور؟ لیکن ٹھہریے! اگر کتا دریا کے کنارے پر موجود تھا تو پھر بھلا پیاسا کیسے مرا؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے گویا کہا جائے کہ فلاں بندے کو بریلی میں بانس نہ ملے۔ کہیں یہ کتا ریاست کو بدنام کرنے کا کوئی منصوبہ تو نہیں بنا رہا تھا؟ پھر فرات نامی دریا کا ذکر ہی کیوں؟ اس کا مطلب ہے کہ فرات کے کنارے مرا تو حاکم ذمہ دار ہے، اگر کسی اور جگہ مرا تو وہ ذمہ دار نہیں ہے۔

چونکہ ریاست ماں کے جیسے ہوتی ہے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کتے کی جگہ کسی بھی ذی روح اور فرات کی جگہ کسی بھی دریا کو رکھ دیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی جاندار کسی بھی دریا کے کنارے پیاسا مر گیا تو اس کا ذمہ دار حاکم وقت ہو گا۔ باقی کوئی بھی مرے، کسی بھی جگہ مرے اور کسی بھی طرح مرے اس کا ذمہ دار حاکم وقت نہیں ہے۔

کہا گیا کہ مجھے قیمتی گاڑیوں میں کراچی کی سڑکوں کی سیر کرائی گئی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انسان نفرت میں اتنے اندھے بھی ہو سکتے ہو۔ پہلی بات تو مجھے یہ بتائیے کہ کیا کراچی کی سڑکیں سیر کے قابل ہیں؟ اگر ہاں تو پھر یہ مت کہا کرو کہ زرداری سرکار نے کراچی کا برا حال کر دیا ہے۔ جس شخص نے کراچی کی سڑکوں کو اتنا شاندار بنا دیا ہے کہ کتے جنگل چھوڑ کر ان کی سیر کرنے لگیں، اسے کرپٹ کہنا کہاں کا انصاف ہے؟

جس طرح تم شہروں میں رہتے رہتے اکتا جاتے ہو اور سیر کے لیے جنگل کا رخ کرتے ہو، اسی طرح کتے جنگل میں رہ رہ کر جب اکتا جاتے ہیں تو سیر کے لیے شہر کا رخ کرتے ہیں۔ بس اتنی سی بات تھی لیکن تم انسان ہو ناں، اسے بھی سیاست کی نذر کر دیا۔ اسی لیے مالک تم سے زیادہ ہم سے پیار کرتے ہیں کیونکہ ہم غیر سیاسی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ تم انسان عرصے سے گاڑیوں میں فراٹے بھرتے پھر رہے ہو، ہماری برادری نے کبھی اعتراض کیا ہے؟ اور تو نہیں تو کم از کم اسی بات کا لحاظ کر لیا ہوتا۔

ہمارے جیسا بننا ہے تو گالیاں دینے اور ٹرینڈ چلانے کی بجائے ہمارے جتنے وفادار بنو۔ ہم نے کبھی اس بات پر احتجاج نہیں کیا کہ روٹی نہیں مل رہی، پانی نہیں آ رہا، مہنگائی ہو رہی ہے، گیس بجلی کا بل زیادہ آ رہا ہے، کرپشن کیوں ہو رہی ہے؟ آٹا، چینی اور دوائیں کیوں مہنگی ہوئی ہیں؟ بیروزگاری کیوں بڑھ رہی ہے؟ تعلیم، صحت اور انصاف کا معیار دوہرا کیوں ہے؟ ہم بس مالکوں کی رضا میں راضی رہتے ہیں اور بدلے میں قیمتی گاڑیوں میں سیر سپاٹے کرتے ہیں۔ تمہاری طرح قانون اور حقوق کی بات کر کے ذلیل نہیں ہوتے اور میرے مالک مجھے یہی بات سمجھانے کے لیے سڑک پر لائے تھے کہ دیکھ لو اور سوچ لو کہ کتا بن کر عیاشی کرنی ہے یا انسان بن کر ذلیل ہونا ہے؟ اور ہاں! آج کے بعد مجھے کتا نہیں کہنا، میں کتا نہیں اپنے مالک کا محافظ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).