وزیراعظم کب تک زیرتربیت رہیں گے؟


ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ایک جرمن غیر سرکاری تنظیم ہے جو 1993 میں قائم ہوئی تھی۔ اس کا مقصد انسداد بدعنوانی کے اقدامات سے عالمی دنیا کو بدعنوانی سے نمٹنے اور بدعنوانی سے پیدا ہونے والی مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لئے اقدامات کرتی ہیں۔

حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ پیش کی جس میں پاکستان 2018 کے مقابلے میں چار درجے تنزلی کا شکار ہوا۔ یہ وہی کرپشن ہے جس کے بارے میں حکومتی جماعت ٹاک شوز میں دھاڑتے، جلسوں میں چنگھاڑتے اور الیکشن کمیپین میں چیختے ہوئے تھکتے نہیں تھی۔

کرپشن کے نام پر اقتدار میں آنے والی تبدیلی سرکار میں کرپشن کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ پچھلے دنوں سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ جانے کا اتفاق ہوا جہاں تعمیراتی لائسنس کے اندراج  کے لیے مذکورہ افسر کے پاس حاضر ہوا تو موصوف نے پانچ ہزار کی فرمائش کر دی ، نہ دینے پر دبے لفظوں میں ایک مہینے لیٹ کرنے کی دھمکی دی اور قہوہ کا ایک پیالہ پلا کر جاتے ہوئے چپڑاسی کو بھی تین سو روپے دینے کا حکم صادر فرمایا۔ اس رشوت خوری کی آپ کسی بھی سرکاری ٹھیکیدار سے تصدیق کر سکتے ہو۔

یاد رہے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل آپ کا مداح چینل نہیں جو آپ کے پیٹرول مہنگا کرنے پر بھی آپ کے تعریفوں کے پل باندھے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل دنیا بھر سے ماہرین کی رائے، کاروباری شخصیات، عوامی رائے اور اداروں سے اعداد و شمار اکٹھا کر کے اسی ڈیٹا کی بنیاد پر سالانہ 180 ممالک کی درجہ بندی کراتی ہیں۔

اداروں سے یاد آیا ، 2012 میں ترکش نژاد امریکی ماہر معاشیات ڈیرن اور برطانوی ماہر معاشیات جیمز روبنسن نے پندرہ سالہ تحقیق کے بعد مشترکہ طور پر ایک معرکۃ الارا کتاب لکھی، ”why nations fail“ جس میں دونوں معیشت دانوں نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ قومیں جغرافیائی حدود، ثقافت، جہالت، مذہب، آب و ہوا اور تاریخی واقعات سے خوشحال نہیں ہوتیں۔

جدید دنیا کے ممالک اور قومیں تب خوشحال اور ترقی یافتہ ہوں گی جب تک ان کی سیاسی ادارے آزاد، خود مختار، منظم اور کرپشن سے پاک ہو۔ میکسیکو اور امریکہ کی سرحد ملتی ہے لہٰذا امریکہ کی ترقی اور خوشحالی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی سرحدیں مشترک ہے ایک جیسی زمین، آب ہوا، مذہب، بود و باش لیکن باوجود اس کے شمالی کوریا اپنی کمزور اداروں کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں اور جنوبی کوریا اپنے مضبوط اداروں کی وجہ سے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے ، اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

لہٰذا آپ یہ بہانے اور تاویلیں نہ بنائیں کہ مجھے معیشت ٹھیک نہیں ملی ، مجھے ٹیم اچھی نہیں ملی۔ مہنگائی، بدترین لوڈشیڈنگ، ناقص خارجہ پالیسی، جی ڈی پی، اداروں کے خسارے، بیرونی قرضے سیاسی اداروں کی کارکردگی سے مربوط ہیں۔ موجودہ حکومت نے تقریباً بیس سے زیادہ اداروں کی سربراہ ریٹائرڈ فوجی افسروں کو لگا کر میرٹ کی دھجیاں بکھیر دیں۔ خان صاحب نے جن ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا وہ تو دور ، الٹا 117 ادارے ختم کرا کر لوگوں کو بے روزگار کر دیا۔

نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کسی دن اپنے کابینہ کے نورتنوں سے پوچھ لیں ، ادھر انجینیئرز اور ڈاکٹرز پکوڑے بیچ رہے ہیں۔ نسٹ اور کامسٹ جیسے اداروں سے گریجویشن کرنے والے نوجوان سات یا آٹھ سکیل کی پی ٹی سی نوکری کر رہے ہیں۔ اداروں اور افسر شاہی کو ٹھیک اور سیدھا کرنے کے لئے ٹھوس اور سخت سیاسی فیصلے کرنے ہوں گے اور اگر سیاسی انتقام اور نیب کی آنکھ مچولی سے فرصت ملے تو اپنا وقت اداروں کو ٹھیک کرنے میں صرف کریں۔

مانتے ہیں مشکلات آڑے آتی ہیں لیکن ان کو اچھے طریقے سے ڈیفنڈ کر کے بھی عوام کی تشویش تھوڑی دیر کے لئے کم کی جا سکتی ہیں۔ نہ کہ آپ یہ کہہ کر عوام کو ٹرخائیں کہ ہم ابھی زیر تربیت ہیں۔

پاکستان کی تاریخ ایسے سیاسی بیانوں سے بھری پڑی ہے،  ‘اِدھر تم اُدھر ہم’ سے لے کر ‘میں اس کو سڑک پر گھسیٹوں گا’ جیسے نعرے کی طرح آپ کا بیانیہ بھی تاریخ کا سیاہ باب بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).