کرونا ویکسین، خدشات اور جہالت


کوویڈ 19 کی دوسری لہر پوری شدت سی جاری ہے، جس سے ہونے والی ہلاکتوں نے عالمی بحران کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ہسپتالوں میں مزید مریضوں کے داخلے کی گنجائش نہیں رہی اور علاج کی سہولتیں ناکافی ہوتی جا رہی ہیں۔ برطانیہ میں اس موذی مرض سے اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں مجموعی طور پر ایمرجنسی نافذ ہے اور ہسپتالوں میں دیگر بیماریوں کے علاج اور اپریشنز روک دیے گئے ہیں، تا کہ اس آفت زدہ بیماری سے زیادہ سے زیادہ زندگیوں کو بچایا جا سکے۔

برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بڑی تیزی کے ساتھ کوویڈ سے بچاو کی ویکسین لوگوں کو لگائی جا رہی ہے، جو برطانوی حکومت کے ذرایع کے مطابق ستمبر تک تمام شہریوں کو لگا دی جائے گی۔ آئییے زرہ ویکسین کی حقیقت، پیداوار، ترسیل، انسانوں کو لگائے جانے میں درپیش مشکلات، اس کے منفی اثرات اور اس کے خلاف کانسپوریسی تھیوریوں کا جائزہ لیں :۔

ویکسین کسی شخص کو ایک خاص بیماری سے استثنا دلانے یا اس سے بچانے کے لیے اس شخص کے اندر پائے جانے والے مدافعتی نظام کو متحرک کرتی ہے۔ ویکسین عام طور پر انجیکشن کے ذریعے لگائی جوتی ہیں، لیکن بعض ویکسینز منہ سے بھی پلائی جا سکتی ہیں، ناک میں قطے ڈال کر یا پھر اس کا ناک میں سپرے کیا جا سکتا ہے۔

ویکسین ایک حیاتیاتی تیاری کے عمل سے گزر کر بنتی ہے جو کسی خاص متعدی بیماری میں انسان کے مدافعاتی نظام میں فعال قوت استثنا فراہم کرتی ہے۔ ویکسین عام طور پر بیماری پیدا کرنے والے مائکروجنزم سے حیاتیاتی تیاری پر مشتمل ہوتی ہے، یا پھر اس سے ملتی جلتی مصنوعی طور پر بنائی جاتی ہے۔ یہ جو مخصوص قسم کی سازشی تھیوریاں پھیلاتے ہیں اور بعض لوگ حلال حرام کے پراپیگنڈے کرتے پھرتے ہیں، یہ لا علم، جاہل اور افواہوں کی بنیاد نفرت اور جہالت پھیلاتے ہیں۔ جب خدانخواستہ ایسے لوگوں پر یا ان کے اہل خانہ پر ایسی مشکل گھڑی آ جائے تو اپنے علاج کے لیے دنیا کے کسی دوسرے کونے تک پہنچ کر علاج کروانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ایسے جاہلوں کی باتوں پر توجو نہیں دینی چاہیے۔

اس وقت تک میسر اعداد و شمار کے مطابق کوویڈ 19 کی 230 سے زیادہ ویکسین تیاری کے مراحل سے گزر رہی ہیں، جن کو امیدوار ویکسینز Candidate Vaccines کہتے ہیں، جن میں سے 14 سے زیادہ ویکسینز اپنی تیاری کے آخری مراحل میں ہیں۔ اس وقت 8 سے زیادہ ویکسین مارکیٹ میں آ چکی ہیں، جو بعض وسائل والے ممالک نے پیشگی خرید لی ہیں اور انہوں نے اپنے ممالک میں ویکسین لگانے کا عمل عمر رسیدہ افراد یا پھر بیماریوں میں مبتلا زیادہ رسک والے افراد اور ہیلتھ ورکرز سے شروع کر دیا ہے۔

دنیا میں جو ویکسین ضروری ٹرایلز کے مراحل سے گزرنے کے بعد ترجیہی بنیادوں پر پیداوار اور عوام کو ویکسین لگانے کے مراحل میں پہنچ چکی ہیں ان میں فائیزر کی ویکسین، چائنہ کی دو ویکسینز، رشیا ٔ کی سپٹنک وی ویکسین، موڈیما ویکسین اور آسٹرا یا اکسفورڈ ویکسین شامل ہیں۔ ان ساری خبروں میں میں کیوبا میں تیار ہونے والی ویکسینز کا کہیں ذکر نہیں ملتا، کیونکہ وہاں کا نظام سرمایہ داری نہیں اور وہاں ویکسین منافع کمانے کی بجائے انسانی زندگیاں بچانے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں نے کارپوریٹ میڈیا پر اپنے کنٹرول کی وجہ سے ایسی خبروں کو بڑی مہارت سے سکرین آؤٹ کیا ہوا ہے کہ عام لوگوں کو علم ہی نہ ہو سکے کہ کیوبا جیسا ملک ویکسین کی تیاری اور صحت عامہ میں ان سے کس قدر اڈوانس ہے۔

اس وقت دنیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج 7.6 بلین سے زیادہ انسانوں کے لیے کم سے کم عرصے میں ویکسین بنا کر لگانا ہے، جو کہ انسانی صیحت سے متعلق اب تک کا سب سے بڑا عالمی چیلنج ہے۔ یقیناً اسے مکمل کرنے میں وقت لگے گا اور بہت سی مشکلات بھی درپیش ہوں گی۔ ویکسین آنے کے بعد سب کے ذہن میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ اب تو زندگی معمول پر آ جائے گی، ایسا کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ ابھی تو اس بات کا بھی کسی کو معلوم نہیں کہ ویکسین سے انسانی جسم میں اس مرض کے خلاف مدفعت کتنے عرصہ تک رہے گی۔

ویکسین کا ایک عام اصول ہے کہ یہ کم از کم 5 ماہ کے لیے بچاوٴ کر سکتی ہے۔ کوویڈ 19 سے متعلق ابھی کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں، اس لیے ابھی تک ماہرین صحت اس کی افاریت 5 ماہ سے زیادہ نہیں بتا سکتے۔ عام تاثر یہ ہے کہ یہ ہر سال سردیوں سے قبل لگوانا پڑے گی، جیسے ہر سال فلو کی ویکسین لگائی جاتی ہے۔ ویکسین لگوانے کا انحصار بہت سارے عوامل پر ہوگا، خاص طور پر آپ کے ملک میں ویکسین کی فراہمی یا پھر ملکی حکمرانوں کے لیے عام شہریوں کی زندگیاں بچابے کی اہمیت اور حکومتی سطح پر عوامی صحت کے منصوبے، وغیرہ وغیرہ۔

11 جنوری 2021 کو ویکسین پروڈیوسرز نے عالمی منڈی کے لئے اس سال ویکسین کی تقریباً 7.8 بلین خوراکیں تیار کرنے کا عہد کیا تھا۔ ہر شخص کے لیے ویکسین کی 2 ڈوزیں درکار ہوں گیں۔ بعض ویکسین پروڈیوسر ایک سے تین ہفتے بعد ہی دوسری ڈوز کا مطالبہ کر رہے ہیں، جن میں فائیزر کی ویکسین بھی شامل ہے۔ البتہ بعض پروڈیوسرز جن میں اسفورڈ ویکسین بھی شامل ہے، 10 سے 12 ہفتے میں دوسری ڈوز کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر کوویڈ 19 سے بچاوٴ کے مقاصد کے لیے درکار دو خوراکوں کی ضرورت ہو تو امید کی جا سکتی ہے کہ تقریباً 3.8 بلین لوگوں کو 2021 کے آخر تک ویکسین لگائی جا سکتی ہے۔

ویکسین کی جس مقدار کا اوپر ذکر کیا ہے ان میں سے زیادہ تر ممالک ایڈوانس معاہدوں کے تحت پہلے ہی خرید چکے ہیں، اس لیے فارورڈ معاہدوں کی وجہ سے کچھ ممالک ویکسین پروڈیوسرز سے دوسروں کے مقابلے میں پہلے ہی ویکسین وصول کر لیں گے۔ مارکیٹ میں تضادات اور تفاوت سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر ویکسین ابتدائی طور پر اعلی آمدنی والے ممالک میں جائیں گی۔ اس لیے ابتدائی مرحلے میں دنیا کی آبادی کا صرف 14 فیصد حصہ اپنے ممالک کے 54 فیصد عوام کو کو ویکسین لگانے میں کامیاب ہو پائے گا۔ کینیڈا نے ویکسین کے پیشگی آرڈر اتنے دیے ہیں کہ ساری ملکی آبادی کو پانچ مرتبہ ویکسین لگائی جا سکے گی۔

ایسے افراد کے لئے جو کوویڈ 19 انفیکشن کے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں یا ان کو متاثر کرتے ہیں، ان کو ویکسین سے ملنے والا تحفظ ان کی زندگی بدل دے گا اور ان کی موت کا خطرہ کم ہو جائے گا۔ ویکسین کے باری میں ابھی بھی بہت سے خدشات اور مندرجہ ذیل غیر یقینی کی صورت حال پائی جاتی ہیں :۔

1۔ اس وقت دنیا میں ایک ویکسین نہیں بلکہ متعدد ویکسینز ہیں اور ہر ایک کی حفاظتی تدابیر، افادیت، منظوری اور مارکیٹ میں دستیابی کا معیار مختلف ہے۔ فائیزر کی ویکسین کے لیے منفی 70 درجہ حرارت کی ضرورت ہے، جو پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر ممالک میں مشکل عمل ہو گا۔

2۔ یہ ویکسینز بہت ہی مختصر عرصے میں تیار کی گئی ہیں اور ان کے آزمائشی تجربات کے تیسرے مرحلے کے اعداد و شمار محدود ہیں۔ اس کے باوجود عام لوگوں بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں اس کی دستیابی میں کمی یا پھر عدم موجودگی ہو سکتی ہے۔ بہت سے ممالک میں آزمائشی تجربات مکمل کیے بغیر ہی اس ملک کے ریگولیٹرز ہنگامی بنیادوں پر ویکسین منظور کر سکتے ہیں تا کہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ویکسین کو ممکن بنایا جا سکے۔

3۔ ابھی تک ایسے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ ویکسین لگانے کے بعد لوگ کتنے عرصہ تک محفوظ رہ سکیں گے۔

4۔ صحت کے بارے میں عومی آگاھی کا معیار ہر ملک میں مختلف ہے۔ بہت سے ترقی پذیر مملک میں حکمران طبقات وسائل کی کمی اور حکومتی ترجیحات کی وجہ سے جان بوجھ کر منفی سوچ پروان چڑھاتے ہیں اور مذہبی بنیادوں پر ویکسین مخالف جذبات کو ابھارتے ہیں۔ اس لیے ایسے ممالک میں ویکسین لینے کی مقدار بہت کم ہو سکتی ہے۔

5۔ زیادہ عمر اور بیماریوں میں مبتلا اور کمزور افراد، جن کی قوت مدفعت پہلے ہی کم ہوتی ہے، ان پر خصوصی تجربات کے اعداد و شمار نہ ہونے کے برابر ہیں۔

6۔ ویکسینیشن سرٹیفکیٹ کی توثیق اور اس کا طریقہ کار ابھی تک طے نہیں ہے، اس لیے جعلی ویکسین کی سپلائی اہم مسئلہ بن سکتی ہے۔

7۔ ترقی پذیر اور کم آمدنی والے ممالک کو امیر ممالک کے پیشگی معاہدوں کی وجہ سے ویکسین کی دستیابی محدود ہو جائے گی، جو ہو گی وہ بھی مہنگے داموں۔ اس سے بلیک مارکیٹ اور جعلی ویکسین کے امکانات بھڑ جائیں گے۔

8۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ویکسین کے حامی اور مخالفین کے درمیان رد عمل ویکسین لگانے سے متعلق فیصلوں پر اثر انداز ہو۔

پاکستان جیسے ممالک جو ویکسین پروڈیوسروں کے ساتھ پیشگی آرڈر پر راضی نہیں ہو سکے ہیں، یا انہوں نے اس کی کوشش ہی نہیں کی، یا پھر ان کی اپنی قومی ترقی اور تقسیم کے پروگرام نہ ہونے کے برابر ہیں، وہ مفت ویکسین سپلائی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ابھی چائنہ نے کچھ عطیہ کے طور پر پاکستان کو ویکسین فراہم کر دی گئی ہے اور کچھ ہماری حکومت چائنہ اور روس سے خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے جو سب مل کر تقریباً 10 فیصد آبادی کر میسر آ سکے گی۔

ابھی تو یہ بھی واضح نہں کہ وہ مفت لگے گی یا پھر پرائیویٹ ہسپتا الوں میں امیر زادوں کے لیے مختص ہو گی۔ اس سے ایک تو واضح ہے کہ پاکستان جیسے ممالک ویکسین کی عدم فراہمی کے سبب ملک کی مجموعی آبادی کو ویکسین لگانے سے قاصر ہوں گے۔ یوں لگتا ہے کہ وطن عزیز کے حکمران طبقات، جو عوام کو نئے پاکستان بنانے کے خواب دکھا کر آئے تھے، جھوٹے خواب ہی دکھاتے رہیں گے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ وسائل والے ممالک اپنے ملکوں کے عوام کو ویکسین لگا کر وبا کے دوبارہ پھیلنے کے خطرے سے ہمیں مفت ویکسین فراہم کر دیں گے۔

ان احمقوں کو کون سمجھائے کہ ہر ملک کے لیے اہمیت ان کے اپنے شہری ہوتے ہیں اور ان ملکوں میں ایک مرتبہ ویکسین مکمل ہوئی تو سال مکمل ہونے کو ہو گا اور دوسرے سال والی ویکسین کا وقت آن پہنچے گا۔ حکمرانوں کی بے حسی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عوام کو پھر ملا، پیر اور غنڈہ، تعویز کے ذریعے ایمان پر ثابت قدم رہنے اور اللہ پر بھرسہ رکھنے کی تلقین کے کیے مذہبی اثاثوں سے کام لیا جائے۔ ہمارے جیسے ممالک میں حکمران طبقات، ملکی اشرفیہ اور بیوروکریسی، جو ملکی وسائل پر قابض ہے، جان بوجھ کر مذہبی بنیادوں پر تعصب پھیلانے اور اس میں حرام اجزا کی شمولیت کی افواہوں کو ہوا دیتے ہیں، تا کہ حکومتی سطع پر مفت ویکسین فراہمی کی نوبت نہ آئے، اور ہمیشہ کی طرح ہماری سادہ لوح عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

کوویڈ کی پہلی لہر کے دوران ہم نے دیکھا کہ کس طرح مختلف مذہبی شخصیات کو میڈیا پر ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا، اور وہ عام شہریوں میں یہ تاثر پیدا کرتے رہے کہ کرونا عالمی میڈیا کے ذریعے پیدا کردہ ایک فرضی بیماری ہے جس کا مقصد لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا ہے۔ یا پھر مذہبی حضرات کہنے لگے کہ اس کا علاج کولنجی کے ذریعے ممکن ہے یا پھر سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیلنے کے لیے مقدس تعلیمات کی آڑ لیتے رہے۔

اچانک ایسی ہی ایک مذہبی فیم شخصیت کو کوویڈ 19 ہو گیا تو ہماری اسٹیبلشمینٹ نے راتوں رات اسے سی ایم ایچ راولپنڈی پہنچا دیا تا کہ اس کا بہتر علاج ہو سکے اور اس کی جان بچائی جا سکے۔ اعتراض ایسے جھوٹے لوگوں کو سی ایم ایچ پہنچانے پر نہیں، بلکہ اس جھوٹ اور منافقت پر ہے جو ہماری ریاست دن رات ایسے لوگوں کے ذریعے عوام کو شعور کو کند کرنے کے لیے کرتی رہتی ہے۔

عوام کو ویکسین لگے سکے گی یا نہیں، لیکن ہمیں اپنی، اپنے پیاروں اور اپنے ارد گرد رہنے والوں کی زندگیاں بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اور زندگی گزارنے کے محتاط طریقے اپنانے ہوں گے، جن میں تواتر کے ہاتھ دھونا، ماسک پہننا اور دوسروں سے دوری رکھنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اپنی صحت اور بقا کے لیے ماہرین صحت کی جاری کردہ ہدایات اور زندگی بچانے کے قواعد پر ہر وقت عمل جاری رکھنا ہو گا۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh