ہماری اماں نے مانع حمل طریقے کیوں اختیار نہیں کئے؟



ہمارے منہ پھٹ ہونے میں کبھی کسی کو کوئی شک نہیں رہا۔ بقول کچھ درون خانہ راز داروں کے، زبان وقت پیدائش ہی کچھ طویل دکھتی تھی۔ اماں اکثر ذکر کرتیں کہ پالنے میں ہی اس قدر باتیں اور اتنا صاف لہجہ کہ لوگ قیاس کرتے کہ شاید بچی کی عمر تو زیادہ ہے لیکن بونی ہونے کی وجہ سے قامت مختصر ہے۔ آپا بھی کچھ ایسی ہی کتھا سناتیں کہ وہ اکثر ہمیں گود میں لٹا کر بہلانے کو اپنی ٹانگ ہلاتیں۔ کچھ دیر بعد تھک جانے سے وہ رک جاتیں تو ہم پاٹ دار آواز میں کہتے، پھر ہلائیں نا!

یہ تمہید آج ہم نے اس لئے باندھی ہے کہ آپ کو بھی ان کہانیوں میں شامل کریں جنہوں نے ہمارے القابات میں بچپن میں ہی اضافہ کر دیا۔ بخدا آج تو وہ سینے پہ سجے تمغے معلوم ہوتے ہیں۔

آبادی میں اضافہ، ہمارے جی کا روگ، آج کا نہیں، قدیمی مرض ٹھہرا۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ کیوں؟ مگر زیادہ بچے یا بہت سے بہن بھائی ہمیں ہمیشہ الجھن میں مبتلا کرتے۔ شور ہنگامہ، بھانت بھانت کی آوازیں اور کثرت اولاد سے جڑے مسائل ہمیں کم عمری میں ہی نظر آنا شروع ہو گئے۔ ستم بالائے ستم کہ اس تنقید میں ہم نے اپنی خلد مکانی اماں کو بھی نہ بخشا۔

کبھی کوئی فرمائش پوری نہ ہوتی یا کسی اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہوتے فوراً اماں سے پوچھ لیتے، آپ نے سات بچے کس خوشی میں پیدا کیے؟

حیرت کی زیادتی سے ان کی آنکھیں پھیل جاتیں اور وہ گھبرا کے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہتیں، بھلا ماں سے کوئی ایسے بات کرتا ہے!

ہم اپنی بات پہ قائم رہتے ہوئے اسے مزید آگے بڑھاتے، دیکھیے نا جب گنتی چار تک پہنچ گئی اور بیٹے اور بیٹیوں کی جوڑی بھی بن گئی تھی، پھر باقی تین کس خوشی میں؟

اب کے وہ تاؤ کھا کے کہتیں، یہ تمہارے سوچنے کی باتیں نہیں، بچوں کو ایسے سوال نہیں پوچھنے چاہیں!

لیکن کیوں اماں جان؟ دیکھیے نا زیادہ بچے پیدا کرنا مشکل کام ہے، ماں کی صحت خراب ہوتی ہے۔ زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، گھر بڑا چاہیے ہوتا ہے۔ تعلیم کے اخراجات علیحٰدہ، پھر اتنے سارے بچوں کی شادیوں کی ذمہ داری!

”اف میرے خدایا، یہ لڑکی ہے یا میری ماں! عمر دیکھو اور بحث ہے کثرت اولاد پہ! بھاگو یہاں سے، اپنی تقریر گھر میں مت جھاڑو“ وہ گھرکی دیتیں۔

ہم تب سوچتے، اماں کو شاید مانع حمل ادویات کا علم ہی نہیں ہو گا۔ پھر سوچتے، لو بھلا فلاں اپنی ان ہم عمروں سے ہی پوچھ لیتیں جو تین بچوں کے بعد فل سٹاپ لگائے بیٹھی تھیں۔ پھر سوچتے، ہو سکتا ہے ابا نے مانع حمل طریقوں کے استعمال سے منع کر دیا ہو۔ ابا سے اجازت لینی کیا ضروری تھی؟ چپکے سے کچھ استعمال کر لیتیں، ابا کو بھلا کیا خبر ہوتی!

یہی کچھ سوچتے سوچتے اور سوالوں کے جواب میں اماں کی تیوریاں دیکھتے ہوئے بڑے ہو گئے اور علم ہوا کہ مانع حمل اشیا کے استعمال میں کیا کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟ اب ہمیں مریض عورتوں سے بات کرنا تھی اور ان کا جواب، ’جی شوہر نہیں مانتا‘ سن کے ایک غصیلے اور ہٹ دھرم شوہر سے بات کرنا تھی۔

”بچہ روکنا خلاف مذہب نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ جلتی آگ پہ روٹی پکاتے ہوئے ہاتھ نہ جلنے دیں، یا پھر بیمار ہونے سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ یا پھر پانی میں ڈوبنے سے بچنے کے لئے یا تیراکی سیکھیں یا حفاظتی جیکٹ پہنیں۔ دیکھیے، وہاں بھی زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن ہم اپنی تدابیر تو کرتے ہیں نا، سو مانع حمل بھی ویسی ہی تدبیر ہے۔ کچھ ہونے سے پہلے کی احتیاط”

”ڈاکٹر صاحب، جس روح نے آنا ہے، وہ تو آ کے رہتی ہے نا جی! اور اپنا رزق بھی ساتھ لاتی ہے“ جواب ملتا ہے۔

”بے شک! لیکن ہو سکتا ہے اس روح نے آپ کا پوتا پوتی بن کے آنا ہو! اور رزق کا قصہ کچھ یوں ہے کہ اس کی تقسیم کسی اور ہی میزان پہ کی گئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بے شمار لوگ غربت کے ہاتھوں فاقے نہ کرتے، ورکشاپس میں چھوٹے بچے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اپنا بچپن گروی نہ رکھتے، طبقاتی تقسیم اتنی اندھی اور گہری نہ ہوتی“

ہماری تقریر سے وہ بے چین ہو کے بے اختیار پہلو بدلتے ہوئے پینترا بدلتا ہے،

”جی وہ تو ٹھیک ہے مگر۔ میری اماں نہیں مانتیں۔ وہ جی ہم بارہ بہن بھائی ہیں“ اس کا پارہ چڑھنا شروع ہو چکا ہے۔

”مگر یہ فیصلہ تو آپ میاں بیوی کے بیچ ہونا چاہیے۔ اماں کو سمجھا دیجیے کہ اب زمانہ اور اس کے تقاضے مختلف ہیں“ ہم ایک اور کوشش کرتے ہیں۔
اب کے اسے سر کھجانا پڑتا ہے،

”وہ جی۔ ان ادویات سے بڑی بیماریاں لگتی ہیں“

”مثلاً۔“ ہم پوچھتے ہیں،

”سنا ہے جی کہ عورت کا جسم پھول جاتا ہے، ماہانہ ایام میں بھی کمی ہو جاتی ہے۔ او جی یہ سب انگریزوں کی بنائی ہوئی دوائیں ہیں“

”بات سنو، یہ جو تم نے ہاتھ میں موبائل پکڑا ہوا ہے نا وہ بھی انگریزوں کا بنایا ہوا ہے۔ اور جس گاڑی پہ سوار ہو کے تم یہاں پہنچے ہو، وہ بھی انھی کی شرارت ہے۔ اچھا سنو، اگر گولیاں نہیں تو دوسرے طریقے آزما لیتے ہیں جیسے کہ کاپر ٹی۔“

”نہیں جی نہیں، وہ تو جسم کے اندر زخم کر دیتی ہے اور جسم کے اندر سے پیپ بہنا شروع ہو جاتی ہے“

”ایسا نہیں ہوتا، نہ جانے کس نے تمہیں یہ غلط اطلاعات فراہم کی ہیں“

”وہ جی۔ گھر والی کی صحت کے لئے ایسی باتوں کی خبر تو رکھنی پڑتی ہے نا۔ تو دوست احباب ہیں جو رہنمائی کر دیتے ہیں“ وہ اطمینان سے کہتا ہے

”کیا ڈاکٹر ہیں؟“ ہم پوچھتے ہیں،

”نہیں۔ لیکن تجربہ تو ہے نا جی“

ہم دوست احباب پہ دل ہی دل میں نفرین بھیجتے ہوئے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے ایک کوشش اور کرتے ہیں،

”اچھا۔ ویسے ٹیکے بھی موجود ہیں، جو ہر تین ماہ بعد لگوانا پڑتا ہے۔ وہ لگوانے کی اجازت دے دو“

”اس سے تو جی، سنا ہے کہ ماہواری بند ہو جاتی ہے۔“

”ہاں تین چار انجیکشن کے بعد ایسا ہوتا ہے مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟“

”دیکھیے نا وہ “گند ” مہینے کے مہینے نکلنا ضروری ہوتا ہے“

اف۔ اب ہم اپنے بال نوچنے کے قریب ہیں۔

”اچھا چلو پھر آپریشن کر کے مستقل ہی بند کر دیتے ہیں“

”نہیں جی نہیں، یہ کام ہمارے خاندان میں نہیں ہوتا“

”ارے بھائی، تم اجازت دو گے تو ہو گا نا“ ہم چڑ کے کہتے ہیں۔

”نہیں جی، یہ خلاف شرع باتیں نہ کریں، آخر کو خدا کو جان دینی ہے“ وہ رسان سے کہتا ہے۔

اس ساری گفتگو کے دوران عورت صم بکم بنی ساکت نظروں سے ہمیں اپنے شوہر سے الجھتا دیکھتی رہتی ہے۔ ہم احتجاجاً چیختے ہوئے کہنا چاہتے ہیں کہ کیا کبھی مرد سمجھ سکے گا کہ حمل کی پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہونا کس قدر جان لیوا ہے اور پھر ان بے شمار بچوں کی ماں بن کے اس زندگی کا خراج دینا کیا معنی رکھتا ہے۔

عورت کا جسم ایک ایسی ملکیت جس کے بارے میں وہ کوئی بھی فیصلہ شوہر نامدار کی مرضی اور دستخط کے بنا نہیں کر سکتی۔ بالکل ویسے ہی جیسے ریوڑ کا مالک فیصلہ کرتا ہے کب کون سی بھینس گابھن ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).